- Advertisement -

ممّی

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

ممّی

نام اس کا مسز سٹیلا جیکسن تھا مگر سب اسے ممی کہتے تھے۔ درمیانے قد کی ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کا خاوند جیکسن پچھلی سے پچھلی جنگ عظیم میں مارا گیا تھا اس کی پنشن سٹیلا کو قریب قریب دس برس سے مل رہی تھی۔ وہ پونہ میں کیسے آئی۔ کب سے وہاں تھی۔ اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ دراصل میں نے اس کے محل وقوع کے متعلق کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ اتنی دلچسپ عورت تھی کہ اس سے مل کر سوائے اس کی ذات سے اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہتی تھی۔ اس سے کون کون وابستہ ہے۔ اس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اس لیے کہ وہ پُونہ کے ہر ذرے سے وابستہ تھی۔ ہو سکتا ہے یہ ایک حد تک مبالغہ ہو۔ مگر پونہ میرے لیے وہی پونہ ہے اور اس کے وہی ذرے، اس کے تمام ذرے ہیں جن کے ساتھ میری چند یادیں منسلک ہیں۔ اور ممی کی عجیب و غریب شخصیت ان میں سے ہر ایک میں موجود ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات پونے ہی میں ہوئی۔ میں نہایت سست الوجود انسان ہوں۔ یوں تو سیرو سیاحت کی بڑی بڑی امنگیں میرے دل میں موجود ہیں۔ آپ میری باتیں سنیں تو آپ سمجھیے گا کہ میں عنقریب کنچن چنگا یا ہمالہ کی اسی قسم کے نام کی کسی اور چوٹی کو سر کرنے کے لیے نکل جانے والا ہوں۔ ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ زیادہ اغلب ہے کہ میں یہ چوٹی سر کرکے وہیں کا ہورہوں۔ خدا معلوم کتنے برس سے بمبئی میں تھا۔ آپ اس سے اندازہ سکتے ہیں کہ جب پونے گیا تو بیوی میرے ساتھ تھی۔ ایک لڑکا ہو کر اس کو مرے قریب قریب چار برس ہو چکے تھے۔ اس دوران میں۔ ٹھہریئے میں حساب لگالوں۔ آپ یہ سمجھ لیے کہ آٹھ برس سے بمبئی میں تھا۔ مگر اس دوران میں مجھے وہاں کا ورکٹوریہ گارڈنز اور میوزیم دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو محض اتفاق تھا کہ میں ایک دم پونہ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جس فلم کمپنی میں ملازم تھا اس کے مالکوں سے ایک نکمی سی بات پر دل میں ناراضی پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ تکدر دور کرنے کے لیے پونہ ہو آؤں۔ وہ بھی اس لیے کہ پاس تھا اور وہاں میرے چند دوست رہتے تھے۔ مجھے پربھات نگر جانا تھا۔ جہاں میرا فلموں کا ایک پرانا ساتھی رہتا تھا۔ اسٹیشن کے باہر معلوم ہوا کہ یہ جگہ کافی دور ہے۔ مگر اس وقت ہم ٹانگہ لے چکے تھے۔ سست رو چیزوں سے میری طبیعت سخت گھبراتی ہے۔ مگر میں اپنے دل سے کدورت دور کرنے کے لیے آیا تھا اس لیے مجھے پربھات نگر پہنچنے میں کوئی عجلت نہیں تھی۔ تانگہ بہت واہیات قسم کا تھا۔ علی گڑھ کے یکوں سے بھی زیادہ واہیات۔ ہر وقت گرنے کا خطرہ رہتاہے۔ گھوڑ ا آگے چلتا ہے اور سواریاں پیچھے۔ ایک دو گرد سے اٹے ہوئے بازار افتاں و خیزاں طے ہوئے تو میری طبیعت گھبرا گئی۔ میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور پوچھا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ دھوپ تیز ہے۔ میں نے جو اور تانگے دیکھے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں۔ اگر اسے چھوڑ دیا تو پیدل چلنا ہو گا، جو ظاہر ہے کہ اس سواری سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس سے اختلاف مناسب نہ سمجھا۔ دھوپ واقعی تیز تھی۔ گھوڑا ایک فرلانگ آگے بڑھا ہو گا کہ پاس سے اسی ہونق ٹائپ کا ایک تانگہ گزرا۔ میں نے سرسری طور پر دیکھا۔ ایک دم کوئی چیخا

’’اوئے منٹو گھوڑے!‘‘

میں چونک پڑا۔ چڈہ تھا۔ ایک گھسی ہوئی میم کے ساتھ۔ دونوں ساتھ ساتھ جڑ کے بیٹھے تھے۔ میرا پہلا رد عمل انتہائی افسوس کا تھا کہ چڈے کی جمالیاتی حس کہاں گئی جو ایسی لال لگامی کے ساتھ بیٹھا ہے۔ عمر کا ٹھیک اندازہ تو میں نے اس وقت نہیں کیا تھا مگر اس عورت کی جُھریاں پاؤڈر اور روج کی تہوں میں سے بھی صاف نظر آرہی تھی۔ اتنا شوخ میک اپ تھا کہ بصارت کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ چڈے کو ایک عرصے کے بعد میں نے دیکھا تھا۔ وہ میرا بے تکلف دوست تھا۔

’’اوئے منٹو گھوڑے‘‘

کے جواب میں یقیناً میں نے بھی کچھ اسی قسم کا نعرہ بلند کیا تھا، مگر اس عورت کو اس کے ساتھ دیکھ کر میری ساری بے تکلفی جھریاں جھریاں ہو گئی۔ میں نے اپنا تانگہ رکوالیا۔ چڈے نے بھی اپنے کوچوان سے کہا کہ ٹھہر جائے پھر اس نے اس عورت سے مخاطب ہو کر انگریزی میں کہا

’’می جسٹ اے منٹ‘‘

تانگے سے کود کر وہ میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے چیخا

’’تم؟۔ تم یہاں کیسے آئے ہو۔ ‘‘

پھر اپنا بڑھا ہوا ہاتھ بڑے بے تکلفی سے میری پُرتکلف بیوی سے ملاتے ہوئے کہا۔

’’بھابی جان۔ آپ نے کمال کردیا۔ اس گل محمد کو آخر آپ کھینچ کر یہاں لے ہی آئیں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘

چڈے نے اونچے سروں میں کہا۔

’’ایک کام سے جارہا ہوں۔ تم ایسا کرو سیدھے۔ ‘‘

وہ ایک دم پلٹ کر میرے تانگے والے سے مخاطب ہوا

’’دیکھو صاحب کو ہمارے گھر لے جاؤ۔ کرایہ ورایہ مت لینا ان سے۔ ‘‘

ادھر سے فوراً ہی فارغ ہو کر اس نے نبٹنے کے انداز میں مجھ سے کہا۔

’’تم جاؤ۔ نوکر وہاں ہو گا۔ باقی تم دیکھ لینا۔ ‘‘

اور وہ پھدک کر اپنے ٹانگے میں اس بوڑھی میم کے ساتھ بیٹھ گیا جس کو اس نے ممی کہا تھا۔ اس سے مجھے ایک گونہ تسکین ہوئی تھی بلکہ یوں کہیے کہ وہ بوجھ جو ایک دم دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر میرے سینے پر آپڑا تھا کافی حد تک ہلکا ہو گیا تھا۔ اس کا تانگہ چل پڑا۔ میں نے اپنے تانگے والے سے کچھ نہ کہا۔ تین یا چار فرلانگ چل کر وہ ایک ڈاک بنگلہ نما قسم کی عمارت کے پاس رکا اور نیچے اتر گیا

’’چلیے صاحب۔ ‘‘

میں نے پوچھا

’’کہاں؟‘‘

اس نے جواب دیا

’’چڈہ صاحب کا مکان یہی ہے۔ ‘‘

’’اوہ‘‘

میں نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کے تیوروں نے مجھے بتایا کہ وہ چڈے کے مکان کے حق میں نہیں تھی۔ سچ پوچھیے تو وہ پونہ ہی کے حق میں نہیں تھی۔ اس کو یقین تھا کہ مجھے وہاں پینے پلانے والے دوست مل جائیں گے۔ تکدر دور کرنے کا بہانہ پہلے ہی سے موجود تھا، اس لیے دن رات اڑے گی۔ میں تانگے سے اتر گیا۔ چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا، وہ میں نے اٹھایا اور اپنی بیوی سے کہا

’’چلو!‘‘

وہ غالباً میرے تیوروں سے پہچان گئی تھی کہ اسے ہر حالت میں میرا فیصلہ قبول کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس نے حیل و حجت نہ کی اور خاموش میرے ساتھ چل پڑی۔ بہت معمولی قسم کا مکان تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملٹری والوں نے عارضی طور پر ایک چھوٹا سا بنگلہ بنایا تھا۔ تھوڑی دیر اسے استعمال کیا اور چلتے بنے۔ چونے اور گچ کا کام بڑا کچا تھا۔ جگہ جگہ سے پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ اور گھر کا اندرونی حصہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ایک بے پروا کنوارے کا ہو سکتا ہے، جو فلموں کا ہیرو ہو، اور ایسی کمپنی میں ملازم ہو جہاں ماہانہ تنخواہ ہر تیسرے مہینے ملتی ہے اور وہ بھی قسطوں میں۔ مجھے اس کا پورا احساس تھا کہ وہ عورت جو بیوی ہو، ایسے گندے ماحول میں یقیناًپریشانی اور گھٹن محسوس کرے گی، مگر میں نے یہ سوچا تھا کہ چڈہ آجائے تو اس کے ساتھ ہی پربھات نگر چلیں گے۔ وہاں جو میرا فلموں کا پرانا ساتھی رہتا تھا، اس کی بیوی اور بال بچے بھی تھے۔ وہاں کے ماحول میں میری بیوی قہردرویش برجان درویش دو تین دن گزار سکتی تھی۔ نوکر بھی عجیب لااُبالی آدمی تھا۔ جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو سب دروازے کھلے تھے، مگر وہ موجود نہیں تھا۔ جب آیا تو اس نے ہماری موجودگی کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جیسے ہم سالہا سال سے وہیں بیٹھے تھے اور اسی طرح بیٹھے رہنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہو کر ہمیں دیکھے بغیر پاس سے گزر گیا تو میں سمجھا کہ شاید کوئی معمولی ایکٹر ہے جو چڈہ کے ساتھ رہتا ہے۔ پر جب میں نے اس سے نوکر کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہی ذاتِ شریف چڈہ صاحب کے چہیتے ملازم تھے۔ مجھے اور میری بیوی دونوں کو پیاس لگ رہی تھی۔ اس سے پانی لانے کو کہا تو وہ گلاس ڈھونڈنے لگا۔ بڑی دیرکے بعد اس نے ایک ٹوٹا ہوا مگ الماری کے نیچے سے نکالا اور بڑبڑایا

’’رات ایک درجن گلاس صاحب نے منگوائے تھے۔ معلوم نہیں کدھر گئے۔ ‘‘

میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شکستہ مگ کی طرف اشارہ کیا۔

’’کیا آپ اس میں تیل لینے جارہے ہیں۔ ‘‘

تیل لینے جانا، بمبئی کا ایک خاص محاورہ ہے۔ میری بیوی اس کا مطلب نہ سمجھی، مگر ہنس پڑی۔ نوکر کسی قدر بوجھلا گیا۔

’’نہیں صاحب۔ میں۔ تلاس کررہا تھا کہ گلاس کہاں ہیں۔ ‘‘

میری بیوی نے اس کو پانی لانے سے منع کردیا۔ اس نے وہ ٹوٹا ہوا مگ واپس الماری کے نیچے اس انداز سے رکھا کہ جیسے وہی اس کی جگہ تھی۔ اگر اسے کہیں اور رکھ دیا جاتا تو یقیناً گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اس کے بعد وہ یوں کمرے سے باہر نکلا جیسے اس کو معلوم تھا کہ ہمارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ میں پلنگ پر بیٹھا تھا جو غا لباً چڈے کا تھا۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر دو آرام کرسیاں تھیں۔ ان میں سے ایک پر میری بیوی بیٹھی پہلو بدل رہی تھی۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ اتنے میں چڈہ آگیا۔ وہ اکیلا تھا۔ اس کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ ہم اس کے مہمان ہیں۔ اور اس لحاظ سے ہماری خاطر داری اس پر لازم تھی۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا

’’ویٹ از ویٹ۔ تو تم آگئے اولڈ بوائے۔ چلو ذرا اسٹوڈیو تک ہو آئیں۔ تم ساتھ ہو گے تو ایڈوانس ملنے میں آسانی ہو جائے گی۔ آج شام کو۔ ‘‘

میری بیوی پر اس کی نظر پڑی تو وہ رک گیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔

’’بھابی جان، کہیں آپ نے اسے مولوی تو نہیں بنا دیا‘‘

پھر اور زور سے ہنسا۔

’’مولویوں کی ایسی تیسی، اٹھو منٹو۔ بھابی جان یہاں بیٹھی ہیں۔ ہم ابھی آجائیں گے!‘‘

میری بیوی جل کر پہلے کوئلہ تھی تو اب بالکل راکھ ہو گئی تھی۔ میں اٹھا اور چڈہ کے ساتھ ہولیا۔ مجھے معلوم تھا کہ تھوڑی دیر پیچ و تاپ کھا کر وہ سو جائے گی، چنانچہ یہی ہوا۔ اسٹوڈیو پاس ہی تھا۔ افراتفری میں مہتہ جی کے سر چڑھ کے چڈے نے مبلغ دو سو روپے وصول کیے۔ اور ہم پون گھنٹے میں جب واپس آئے تو دیکھا کہ وہ آرام کرسی پر بڑے آرام سے سو رہی تھی۔ ہم نے اسے بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے کمرے میں چلے گئے جو کباڑ خانے سے ملتا جلتا تھا۔ اس میں جو چیز تھی حیرت انگیز طریقے پر ٹوٹی ہوئی تھی کہ سب مل کر ایک سالمگی اختیار کرگئی تھیں۔ ہر شے گرد آلود تھی، اور اس آلودگی میں ایک ضروری پن تھا۔ جیسے اس کی موجودگی اس کمرے کی بوہیمی فضا کی تکمیل کے لیے لازمی تھی۔ چڈے نے فوراً ہی اپنے نوکر کو ڈھونڈ نکالا اور اسے سو روپے کا نوٹ دے کر کہا۔

’’چین کے شہزادے۔ دو بوتلیں تھرڈ کلاس رم کی لے آؤ۔ میرا مطلب ہے تھری ایکس رم کی اور نصف درجن گلاس۔ ‘‘

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نوکر صرف چین ہی کا نہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ملک کا شہزادہ تھا۔ چڈے کی زبان پر جس کا نام آجاتا، وہ اسی کا شہزادہ بن جاتا تھا۔ اس وقت کا چین کا شہزادہ سو کا نوٹ انگلیوں سے کھڑکھڑاتا چلا گیا۔ چڈے نے ٹوٹے ہوئے سپرنگوں والے پلنگ پر بیٹھ کر اپنے ہونٹ تھری ایکس رم کے استقبال میں چٹخارتے ہوئے کہا

’’ڈیٹ از ڈیٹ۔ تو آفٹر آل تم ادھر آہی نکلے۔ ‘‘

لیکن ایک دم متفکر ہو گیا۔

’’یار، بھابی کا کیا ہو۔ وہ تو گھبرا جائے گی۔ ‘‘

چڈہ بغیر بیوی کے تھا، مگر اس کو دوسروں کی بیویوں کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ اس کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ ساری عمر کنوارا رہنا چاہتا تھا، وہ کہا کرتا تھا۔

’’یہ احساس کمتری ہے جس نے مجھے ابھی تک اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ جب شادی کا سوال آتا تو فوراً تیار ہو جاتا ہوں۔ لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ میں بیوی کے قابل نہیں ہوں ساری تیاری کولڈ اسٹوریج میں ڈ ال دیتا ہوں۔ ‘‘

رم فوراً ہی آگئی۔ اور گلاس بھی۔ چڈے نے چھ منگوائے تھے۔ اور چین کا شہزادہ تین لایا تھا۔ بقایا تین راستے میں ٹوٹ گئے تھے۔ چڈے نے ان کی کوئی پروا نہ کی، اور خدا کا شکر کیا کہ بوتلیں سلامت رہیں۔ ایک بوتل جلدی جلدی کھول کر اس نے کنوارے گلاسوں میں رم ڈالی اور کہا

’’تمہارے پونے آنے کی خوشی میں۔ ‘‘

ہم دونوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور گلاس خالی کردیے۔ دوسرا دور شروع کرکے چڈہ اٹھا اور دوسرے کمرے میں دیکھ کر آیا کہ میری بیوی ابھی تک سو رہی ہے۔ اس کو بہت ترس آیا اور کہنے لگا۔

’’میں شور کرتا ہوں ان کی نیند کھل جائے گی۔ پھر ایسا کریں گے۔ ٹھہرو۔ پہلے میں چائے منگواتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے رم کا ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا اور نوکر کو آواز دی

’’جمیکا کے شہزادے۔ ‘‘

جمیکا کا شہزادہ فوراً ہی آگیا۔ چڈے نے اس سے کہا۔

’’دیکھو، ممی سے کہو، ایک دم فسٹ کلاس چائے تیار کرکے بھیج دے۔ ایک دم!‘‘

نوکر چلا گیا۔ چڈے نے اپنا گلاس خالی کیا اور شریفانہ پیگ ڈال کر کہا۔

’’میں فی الحال زیادہ نہیں پیوں گا۔ پہلے چار پیگ مجھے بہت جذباتی بنا دیتے ہیں۔ مجھے بھابی کو چھوڑنے تمہارے ساتھ پربھات نگر جانا ہے۔ ‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد چائے آگئی۔ بہت صاف برتن تھے اور بڑے سلیقے سے ٹرے میں چنے ہوئے تھے۔ چڈے نے ٹی کوزی اٹھا کر چائے کی خوشبو سونگھی اور مسرت کا اظہار کیا۔

’’می از اے جیول۔ !‘‘

اس نے ایتھوپیا کے شہزادے پر برسنا شروع کردیا۔ اتنا شور مچایا کہ میرے کان بلبلا اٹھے۔ اس کے بعد اس نے ٹرے اٹھائی اور مجھ سے کہا۔

’’آؤ۔ ‘‘

میری بیوی جاگ رہی تھی۔ چڈے نے ٹرے بڑی صفائی سے شکستہ تپائی پر رکھی اورمودبانہ کہا۔

’’حاضر ہے بیگم صاحب!‘‘

میری بیوی کو یہ مذاق پسند نہ آیا، لیکن چائے کا سامان چونکہ صاف ستھرا تھا اس لیے اس نے انکار نہ کیا اور دو پیالیاں پی لیں۔ اِن سے اس کو کچھ فرحت پہنچی اور اس نے ہم دونوں سے مخاطب ہو کر معنی خیز لہجے میں کہا۔

’’آپ اپنی چائے تو پہلے ہی پی چکے ہیں!‘‘

میں نے جواب نہ دیا مگر چڈے نے جھک کر بڑے ایماندارانہ طور پر کہا۔

’’جی ہاں، یہ غلطی ہم سے سرزد ہو چکی ہے، لیکن ہمیں یقین تھا کہ آپ ضرور معاف کردیں گی۔ ‘‘

میری بیوی مسکرائی تو وہ کھکھلا کے ہنسا۔

’’ہم دونوں بہت اونچی نسل کے سؤر ہیں۔ جن پر ہر حرام شے حلال ہے!۔ چلیے، اب ہم آپ کو مسجد تک چھوڑ آئیں!‘‘

میری بیوی کوپھرچڈے کا یہ مذاق پسند نہ آیا۔ دراصل اس کوچڈے ہی سے نفرت تھی، بلکہ یوں کہیے کہ میرے ہر دوست سے نفرت تھی۔ اور چڈہ بالخصوص اسے بہت کھلتا تھا، اس لیے کہ وہ بعض اوقات بے تکلفی کی حدود بھی پھاند جاتا تھا، مگر چڈے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میرا خیال ہے اس نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ ایسی فضول باتوں میں دماغ خرچ کرنا ایک ایسی ان ڈور گیم سمجھتا تھا جو لوڈو سے کئی گنا لایعنی ہے۔ اس نے میری بیوی کے جلے بھنے تیوروں کو بڑی ہشاش بشاش آنکھوں سے دیکھا اور نوکر کو آواز دی۔

’’کبابستان کے شہزادے۔ ایک عدد ٹانگہ لاؤ۔ رولزرائس قسم کا۔ ‘‘

کبابستان کا شہزادہ چلا گیا اور ساتھ ہی چڈہ۔ وہ غالباً دوسرے کمرے میں گیا تھا۔ تخلیہ ملا تو میں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ کباب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آہی جایا کرتے ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ان کو بسر کرنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو گزر جانے دیا جائے۔ لیکن حسب معمول اس نے میری اس کنفیوشسانہ نصیحت کو پلے نہ باندھا اور بڑبڑاتی رہی۔ اتنے میں کبابستان کا شہزادہ رولز رائس قسم کا ٹانگہ لے کر آگیا۔ ہم پربھات نگر روانہ ہو گئے۔ بہت ہی اچھا ہوا کہ میرا فلموں کا پرانا ساتھی گھر میں موجود نہیں تھا۔ اس کی بیوی تھی، چڈے نے میری بیوی اس کے سپرد کی اور کہا

’’خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بیوی، بیوی کو دیکھ کررنگ پکڑتی ہے، یہ ہم ابھی حاضر ہو کے دیکھیں گے۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’چلو منٹو، اسٹوڈیو میں تمہارے دوست کو پکڑیں۔ ‘‘

چڈہ کچھ ایسی افراتفری میں مچا دیا کرتا تھا کہ مخالف قوتوں کو سمجھنے سوچنے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور باہر لے گیا اور میری بیوی سوچتے ہی رہ گئی۔ ٹانگے میں سوار ہو کر چڈے نے اب کچھ سوچنے کے انداز میں کہا۔

’’یہ تو ہو گیا۔ اب کیا پروگرام ہے۔ ‘‘

پھر کھکھلا کر ہنسا۔

’’ممی۔ گریٹ ممی!‘‘

میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا، یہ ممی کس تو تنخ آمون کی اولاد ہے، کہ چڈے نے باتوں کا کچھ اییا سلسلہ شروع کردیا کہ میرا استفسار غیر طبعی موت مر گیا۔ تانگہ واپس اس ڈاک بنگلہ نما کوٹھی پر پہنچا جس کا نام سعیدہ کاٹیج تھا، مگر چڈہ اس کو کبیدہ کاٹیج کہتا تھا۔ اس لیے کہ اس میں رہنے والے سب کے سب کبیدہ خاطر رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط تھا جیسے کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ اس کاٹیج میں کافی آدمی رہتے تھے حالانکہ بادی النظر میں یہ جگہ بالکل غیر آباد معلوم ہوتی تھی۔ سب کے سب اسی فلم کمپنیوں میں ملازم جو مہینے کی تنخواہ ہر سہ ماہی کے بعد دیتی تھی اور وہ بھی کئی قسطوں میں۔ ایک ایک کرکے جب اس کے ساکنوں سے میرا تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ سب اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ کوئی چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر، کوئی اس کا نائب، کوئی نائب در نائب۔ ہر دوسرا، کسی پہلے کا اسسٹنٹ تھا اور اپنی ذاتی فلم کمپنی کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کررہا تھا۔ پوشش اور وضع قطع کے اعتبار سے ہر ایک ہیرو معلوم ہوتا تھا کنٹرول کا زمانہ تھا۔ مگر کسی کے پاس راشن کارڈ نہیں تھا۔ وہ چیزیں بھی جو تھوڑی سی تکلیف کے بعد آسانی سے کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھی۔ یہ لوگ بلیک مارکیٹ سے خریدتے تھے۔ پکچر ضرور دیکھتے تھے۔ ریس کا موسم ہو تو ریس کھیلتے تھے ورنہ سٹہ۔ جیتتے شاذونادر تھے، مگر ہارتے ہر روز تھے۔ سعیدہ کاٹیج کی آبادی بہت گنجان تھی۔ چونکہ جگہ کم تھی اس لیے موٹر گراج بھی رہائش کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس میں ایک فیملی رہتی تھی۔ شیریں نام کی ایک عورت تھی جس کا خاوند شاید، محض یکسانیت توڑنے کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نہیں تھا۔ وہ اسی فلم کمپنی میں ملازم تھا مگر موٹر ڈرائیور تھا۔ معلوم نہیں، وہ کب آتا تھا۔ اور کب جاتا تھا، کیونکہ میں نے اس شریف آدمی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شیریں کے بطن سے ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس کو سعیدہ کا ٹیج کے تمام ساکن فرصت کے اوقات میں پیار کرتے۔ شیریں جو قبول صورت تھی اپنا بیشتر وقت گراج کے اندر گزارتی تھی۔ کاٹیج کا معزز حصہ چڈے اور اس کے دو ساتھیوں کے پاس تھا۔ یہ دونوں بھی ایکٹر تھے، مگر ہیرو نہیں تھے۔ ایک سعید تھا جس کا فلمی نام رنجیت کمار تھا۔ چڈہ کہا کرتا تھا۔

’’سعیدہ کاٹیج اس خرذات کے نام کی رعایت سے مشہور ہے ورنہ اس کا نام کبیدہ کاٹیج ہی تھا۔

’’خوش شکل تھا اور بہت کم گو۔ چڈہ کبھی کبھی اسے کچھوا کہا کرتا تھا، اس لیے کہ وہ ہر کام بہت آہستہ آہستہ کرتا تھا۔ دوسرے ایکٹر کا نام معلوم نہیں کیا تھا مگر سب اسے غریب نواز کہتے تھے۔ حیدر آباد کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایکٹنگ کے شوق میں یہاں چلا آیا۔ تنخواہ ڈھائی سو روپے ماہوار مقرر تھی۔ ایک برس ہو گیا تھا ملازم ہوئے مگر اس دوران میں اس نے صرف ایک دفعہ ڈھائی سو روپے بطور ایڈوانس لیے تھے، وہ بھی چڈے کے لیے، کہ اس پر ایک بڑے خونخواہ پٹھان کے قرض کی ادائیگی لازم ہو گئی تھی۔ ادبِ لطیف، قسم کی عمارت میں فلمی کہانیاں لکھنا اس کا شُغل تھا۔ کبھی کبھی شعر بھی موزوں کرلیتا تھا۔ کاٹیج کا ہر شخص اس کا مقروض تھا۔ شکیل اور عقیل دو بھائی تھے۔ دونوں کسی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ تھے اور برعکس نام نہند نامِ زنگی باکا فور کی ضرب المثال کے ابطال کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ بڑے تین، یعنی چڈہ، سعید اور غریب نواز شیریں کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن تینوں اکٹھے گراج میں نہیں جاتے تھے۔ مزاج پرسی کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں تھا۔ تینوں جب کاٹیج کے بڑے کمرے میں جمع ہوتے تو ان میں سے ایک اٹھ کر گراج میں چلا جاتا اور کچھ دیر وہاں بیٹھ کر شیریں سے گھریلو معاملات پر بات چیت کرتا رہتا۔ باقی دو اپنے اشغال میں مصروف رہتے۔ جو اسسٹنٹ قسم کے لوگ تھے، وہ شیریں کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ کبھی بازار سے اس کو سودا سلف لا دیا۔ کبھی لانڈری میں اس کے کپڑے دھلنے دے آئے اور کبھی اس کے روتے بچے کو بہلا دیا۔ ان میں سے کبیدہ خاطر کوئی بھی نہ تھا۔ سب کے سب مسرور تھے، شاید اپنی کبیدگی پر، وہ اپنے حالات کی نامساعت کا ذکر بھی کرتے تھے تو بڑے شاداں و فرحاں انداز میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی بہت دلچسپ تھی۔ ہم کاٹیج کے گیٹ میں داخل ہونے والے تھے کہ غریب نواز صاحب باہر آرہے تھے۔ چڈے نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے۔ بغیر گنے اس نے کچھ غریب نواز کو دیے اور کہا

’’چار بوتلیں اسکاچ کی چاہئیں۔ کمی آپ پوری کردیجیے گا۔ بیشی ہو تو وہ مجھے واپس مل جائے۔ ‘‘

غریب نواز کے حیدر آبادی ہونٹوں پر گہری سانولی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ چڈہ کھکھلا کر ہنسا اور میری طرف دیکھ کر اس نے غریب نواز سے کہا۔

’’یہ مسٹر ون ٹو ہیں۔ لیکن ان سے مفصل ملاقات کی اجازت اس وقت نہیں مل سکتی۔ یہ رم پئے ہیں۔ شام کو اسکاچ آجائے تو۔ لیکن آپ جائیے۔ ‘‘

غریب نواز چلا گیا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ چڈے نے ایک زور کی جمائی لی اور رم کی بوتل اٹھائی جو نصف سے زیادہ خالی تھی۔ اس نے روشنی میں مقدار کا سرسری اندازہ کیا اور نوکر کو آواز دی۔

’’قراقستان کے شہزادے۔ ‘‘

جب وہ نمودار نہ ہوا تو اس نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈالتے ہوئے کہا۔

’’زیادہ پی گیا ہے کم بخت!‘‘

یہ گلاس ختم کرکے وہ کچھ فکر مند ہو گیا۔

’’یار، بھابھی کو تم خواہ مخواہ یہاں لائے۔ خدا کی قسم مجھے اپنے سینے پر ایک بوجھ سا محسوس ہورہا ہے۔ ‘‘

پھر اس نے خود ہی اپنے کو تسکین دی۔

’’لیکن میرا خیال ہے کہ بور نہیں ہونگی وہاں؟‘‘

میں نے کہا۔

’’ہاں وہاں رہ کر وہ میرے قتل کا فوری ارادہ نہیں کرسکتی‘‘

اور میں نے اپنے گلاس میں رم ڈالی جس کا ذائقہ بُسے ہوئے گڑ کی طرح تھا۔ جس کباڑ خانے میں ہم بیٹھے تھے اس میں سلاخوں والی دو کھڑکیاں تھیں جس سے باہر کا خیر آباد حصہ نظر آتا تھا۔ اِدھر سے کسی نے بآواز بلند چڈہ کا نام لے کر پکارا۔ میں چونک پڑا۔ دیکھا کہ میوزک ڈ ائریکٹر ون کُترے ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کس نسل کا ہے۔ منگولی ہے، حبشی ہے، آریہ ہے، یا کیا بلا ہے۔ کبھی کبھی اس کے کسی خدوخال کو دیکھ کر آدمی کسی نتیجے پرپہنچنے ہی والا ہوتا تھا کہ اس کے تقابل میں کوئی ایسا نقش نظر آجاتا کہ فوراً ہی نئے سرے سے غور کرنا پڑ جاتا تھا۔ ویسے وہ مرہٹہ تھا، مگر شیواجی کی تیکھی ناک کی بجائے اس کے چہرے پر بڑے حیرت ناک طریقے پر مڑی ہوئی چپٹی ناک تھی جو اس کے خیال کے مطابق ان سروں کے لیے بہت ضروری تھی۔ جن کا تعلق براہ راست ناک سے ہوتا ہے۔ اس نے مجھے دیکھا تو چلایا

’’منٹو۔ منٹو سیٹھ؟‘‘

چڈے نے اس سے زیادہ اونچی آواز میں کہا۔

’’سیٹھ کی ایسی تیسی۔ چل اندر آ‘‘

وہ فوراً اندر آگیا۔ اپنی جیب سے اس نے ہنستے ہوئے رم کی ایک بوتل نکالی اور تپائی پر رکھ دی۔

’’میں سالا اُدھر ممی کے پاس گیا۔ وہ بولا۔ تمہارے فرینڈ آئے لا۔ میں بولا سالا یہ فرینڈ کون ہونے کو سکتا ہے۔ سالا مالوم نہ تھا منٹو ہے۔ ‘‘

چڈے نے ون کُترے کے کدو ایسے سر پر ایک دھول جمائی۔

’’اب چیک کر سالے کے۔ تو رم لے آیا۔ بس ٹھیک ہے۔ ‘‘

ون کترے نے اپنا سر سہلایا اور میرا خالی گلاس اٹھا کر اپنے لیے پیگ تیار کیا۔

’’منٹو۔ یہ سالا آج ملتے ہی کہنے لگا۔ آج پینے کو جی چاہتا ہے۔ میں ایک دم کڑکا۔ سوچا کیا کروں۔ ‘‘

چڈے نے ایک اور دھپا اس کے سر پر جمایا۔

’’بیٹھ بے، جیسے تو نے کچھ سوچا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’سوچا نہیں تو سالا یہ اتنی بڑی باٹلی کہاں سے آیا۔ تیرے باپ نے دیا مجھ کو۔ ‘‘

ون کترے نے ایک ہی جرعے میں رم ختم کردی۔ چڈے نے اُس کی بات سنی ان سنی کردی اور اس سے پوچھا۔

’’تو یہ تو بتا کہ ممی کیا بولی؟۔ بولی تھی؟۔ موذیل کب آئے گی؟۔ ارے ہاں۔ وہ پلیٹنم بلونڈ!‘‘

ون کترے نے جواب میں کچھ کہنا چاہا مگر چڈے نے میرا بازو پکڑ کر کہنا شروع کردیا۔

’’منٹو۔ خدا کی قسم کیا چیز ہے۔ سنا کرتے تھے کہ ایک شے پلیٹنم بلونڈ بھی ہوتی ہے۔ مگر دیکھنے کا اتفاق کل ہوا۔ بال ہیں، جیسے چاندی کے معین مہین تار۔ گریٹ۔ خدا کی قسم منٹو بہت گریٹ۔ ممی زندہ باد!‘‘

پھر اس نے قہر آلود نگاہوں سے ون کترے کی طرف دیکھا اور کڑک کر کہا۔

’’کن کترے کے بچے۔ نعرہ کیوں نہیں لگاتا۔ ممی زندہ باد!‘‘

چڈے اور ون کترے دونوں نے مل کر

’’ممی زندہ باد‘‘

کے کئی نعرے لگائے۔ اس کے بعد ون کترے نے چڈے کے سوالوں کا پھر جواب دینا چاہا مگر اس نے اسے خاموش کردیا۔

’’چھوڑو یار۔ میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ عام طور پر معشوق کے بال سیاہ ہوتے ہیں۔ جنھیں کالی گھٹا سے تشبیہہ دی جاتی رہی ہے۔ مگر یہاں کچھ اور ہی سلسلہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو۔ بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اس کے بال چاندی کے تاروں جیسے ہیں۔ چاندی کا رنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم نہیں پلیٹنم کا رنگ کیسا ہوتا ہے، کیونکہ میں نے ابھی تک یہ دھات نہیں دیکھی۔ کچھ عجیب ہی سا رنگ ہے۔ فولاد اور چاندی دونوں کو ملا دیا جائے۔ ‘‘

ون کترے نے دوسرا پیگ ختم کیا۔

’’اور اس میں تھوڑی سی تھری ایکس رم مکس کردی جائے۔ ‘‘

چڈے نے بھنا کر اس کو ایک فربہ اندام گالی دی۔

’’بکواس نہ کر۔ ‘‘

پھر اس نے بڑی رحم انگیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔

’’یار۔ میں واقعی جذباتی ہو گیا ہوں۔ ہاں۔ وہ رنگ۔ خدا کی قسم لاجواب رنگ ہے۔ وہ تم نے دیکھا ہے۔ وہ جو مچھلیوں کے پیٹ پر ہوتا ہے۔ نہیں نہیں ہر جگہ ہوتا ہے۔ پومغریٹ مچھلی۔ اس کے وہ کیا ہوتے ہیں؟۔ نہیں نہیں۔ سانپوں کے۔ وہ ننھے ننھے کھپرے۔ ہاں کھپرے۔ بس ان کا رنگ۔ کھپرے۔ یہ لفظ مجھے ایک ہند ستوڑے نے بتایا تھا۔ اتنی خوبصورت چیز اور ایسا واہیات نام۔ پنجابی میں ہم انھیں چانے کہتے ہیں۔ اس لفاظ میں چنچنہاہٹ ہے۔ وہی۔ بالکل وہی جو اس کے بالوں میں ہے۔ لٹیں ننھی ننھی سنپولیاں معلوم ہوتی ہیں جو لوٹ لگا رہی ہوں۔ ‘‘

وہ ایک دم اٹھا۔

’’سنپولیوں کی ایسی تیسی، میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ ‘‘

ون کترے نے بڑے بھولے انداز میں پوچھا۔

’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

چڈے نے جواب دیا۔

’’سنٹی منٹل۔ لیکن تو کیا سمجھے گا، بالا جی باجی راؤ اور نانا فرنویس کی اولاد۔ ‘‘

ون کترے نے اپنے لیے ایک اور پیگ بنایا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’یہ سالا چڈہ سمجھتا ہے، میں انگلش نہیں سمجھتا ہوں۔ میٹری کولیٹ ہوں۔ سالا میرا باپ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس سے۔ ‘‘

چڈے نے چڑ کر کہا۔

’’اس نے تجھے تان سین بنا دیا۔ تیری ناک مروڑ دی کہ نکوڑے سر آسانی سے تیرے اندر سے نکل سکیں۔ بچپن ہی میں اس نے تجھے دھرپدگاناسکھا دیا تھا۔ اور دودھ پینے کے لیے تو میاں کی ٹوڑی میں رویا کرتا تھا اور پیشاب کرتے وقت اڑانہ میں۔ اور تو نے پہلی بات پٹ ویپکی میں کی تھی۔ اور تیرا باپ۔ جگت استاد تھا۔ بجوباؤرے کے بھی کان کاٹتا تھا۔ اور تو آج اس کے کان کاٹتا ہے، اسی لیے تیرا نام کن کترے!‘‘

اتنا کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو۔ یہ سالا جب بھی پیتا ہے۔ اپنے باپ کی تعریفیں شروع کردیتا ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا تو مجھ پر اس نے کیا احسان کیا اور اس نے اسے میٹریکولیٹ بنا دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بی اے کی ڈگری پھاڑ کے پھینک دوں۔ ‘‘

ون کترے نے اس بوچھاڑ کی مدافعت کرنا چاہی مگر چڈے نے اُس کو وہیں دبا دیا۔

’’چپ رہ۔ میں کہہ چکا ہوں کہ سنٹی مینٹل ہو گیا ہوں۔ ہاں، وہ رنگ۔ پومفریٹ مچھلی۔ نہیں نہیں۔ سانپ کے ننھے ننھے کھپرے۔ بس انہی کا رنگ۔ ممی نے خدا معلوم اپنی بین پر کونسا راگ بجا کر اس ناگن کو باہر نکالا؟‘‘

ون کترے سوچنے لگا۔

’’پیٹی منگاؤ، میں بجاتا ہوں۔ ‘‘

چڈہ کھکھلا کر ہنسنے لگا۔

’’بیٹھ بے میٹری کولیٹ کے چاکولیٹ۔ ‘‘

اس نے رم کی بوتل میں سے رم کے باقیات اپنے گلاس میں انڈیلے اور مجھ سے کہا۔

’’منٹو، اگر یہ پلٹینم بلونڈ نہ پٹی تو مسٹر چڈہ ہمالیہ پہاڑ کی کسی اونچی چوٹی پر دھونی رما کر بیٹھ جائے گا۔ ‘‘

اور اس نے گلاس خالی کردیا۔ ون کترے نے اپنی لائی ہوئی بوتل کھولنی شروع کردی۔

’’منٹو، مُلگی ایک چانگلی ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’دیکھ لیں گے۔ ‘‘

’’آج ہی۔ آج رات میں ایک پارٹی دے رہا ہوں۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ تم آگئے اور شری ایک سو آٹھ مہتا جی نے تمہاری وجہ سے وہ ایڈوانس دے دیا، ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔ آج کی رات۔ آج کی رات۔ ‘‘

چڈے نے بڑے بھونڈے سروں میں گانا شروع کردیا :

’’آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ!‘‘

ون کترے بیچارہ اس کی اس زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کرنے ہی والا تھا کہ غریب نواز اور رنجیت کمار آگئے۔ دونوں کے پاس اسکاچ کی دو دو بوتلیں تھیں۔ یہ انھوں نے میز پر رکھیں۔ رنجیت کمار سے میرے اچھے خاصے مراسم تھے، مگر بے تکلف نہیں۔ اس لیے ہم دونوں نے تھوڑی سی، آپ کب آئے، آج ہی آیا، ایسی رسمی گفتگو کی اور گلاس ٹکرا کر پینے میں مشغول ہو گئے۔ چڈہ واقعی بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ ہر بات میں اس پلیٹنم بلونڈ کا ذکر لے آتا تھا۔ رنجیت کمار دوسری بوتل کا چوتھائی حصہ چڑھا گیا تھا۔ غریب نواز نے اسکاچ کے تین پیگ پئے تھے۔ نشے کے معاملے میں ان سب کی سطح اب ایک ایسی تھی۔ میں چونکہ زیادہ پینے کا عادی ہوں اس لیے میرے جذبات معتدل تھے۔ میں نے ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ چاروں اس نئی لڑکی پربہت بری طرح فریفتہ تھے۔ جو ممی نے کہیں سے پیدا کی تھی۔ اس نایاب دانے کا نام فی لس تھا۔ پونے میں کوئی ہیئر ڈریسنگ سیلون تھا جہاں وہ ملازم تھی۔ اس کے ساتھ عام طور پر ایک ہیجڑہ نما لڑکا رہتا تھا۔ لڑکی کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب تھی۔ غریب نواز تو یہاں تک اس پر گرم تھا کہ وہ حیدر آباد میں اپنے حصے کی جائیداد بیچ کر بھی اس داؤں پر لگانے کے لیے تیار تھا۔ چڈے کے پاس ترپ کا صرف ایک پتا تھا، اپنا قبول صورت ہونا۔ ون کترے کا بزعمِ خود یہ خیال تھاکہ اس کی پیٹی سن کر وہ پری ضرور شیشے میں اتر آئے گی۔ اور رنجیت کمار جارحانہ اقدام ہی کو کارگر سمجھتا تھا۔ لیکن سب آخر میں یہی سوچتے تھے کہ دیکھیے ممی کسی پر قربان ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پلیٹنم بلونڈ فی لس کو وہ عورت جسے میں نے چڈے کے ساتھ ٹانگے میں دیکھا تھا، کسی کے بھی حوالے کرسکتی تھی۔ فی لس کی باتیں کرتے کرتے چڈے نے اچانک اپنی گھڑی دیکھی اور مجھ سے کہا

’’جہنم میں جائے یہ لونڈیا۔ چلو یار۔ بھابی وہاں کباب ہو رہی ہو گی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ میں کہیں وہاں بھی سنٹی مینٹل نہ ہو جاؤں۔ خیر۔ تم مجھے سنبھال لینا۔ ‘‘

اپنے گلاس کے چند آخری قطرے حلق میں ٹپکا کر اس نے نوکر کو آواز دی۔

’’ممیوں کے ملک مصر کے شہزادے۔ ‘‘

ممیوں کے ملک مصر کا شہزادہ آنکھیں ملتا نمودار ہوا، جیسے کسی نے اس کو صدیوں کے بعد کھود کھاد کے باہر نکالا ہے۔ چڈے نے اس کے چہرے پر رم کے چھینٹے مارے اور کہا۔

’’دو عدد ٹانگے لاؤ۔ جو مصری رتھ معلوم ہوں۔ ‘‘

ٹانگے آگئے۔ ہم سب ان پر لد کر پربھات نگر روانہ ہوئے۔ میرا پرانا، فلموں کا ساتھی ہریش گھر پر موجود تھا۔ اس دور دراز جگہ پر بھی اس نے میری بیوی کی خاطر مدارت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ چڈے نے آنکھ کے اشارے سے اس کو سارا معاملہ سمجھا دیا تھا، چنانچہ یہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ میری بیوی نے غیض و غضب کا اظہار نہ کیا۔ اس کا وقت وہاں کچھ اچھا ہی کٹا تھا۔ ہریش نے جو عورتوں کے نفسیات کا ماہر تھا۔ بڑی پرلطف باتیں کیں، اور آخر میں میری بیوی سے درخواست کی کہ وہ اس کی شوٹنگ دیکھنے چلے جو اس روز ہونے والی تھی میری بیوی نے پوچھا۔

’’کوئی گانا فلمارہے ہیں آپ؟‘‘

ہریش نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ وہ کل کا پروگرام ہے۔ میرا خیال ہے آپ کل چلیے گا۔ ‘‘

ہریش کی بیوی شوٹنگ دیکھ دیکھ کر اور دکھا دکھا کر عاجز آئی ہوئی تھی۔ اس نے فوراً ہی میری بیوی سے کہا۔

’’ہاں کل ٹھیک رہے گا۔ آج تو انھیں سفر کی تھکن بھی ہے۔ ‘‘

ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہریش نے پھر کچھ دیر پُر لطف باتیں کیں۔ آخر میں مجھ سے کہا۔

’’چلو یار۔ تم چلو میرے ساتھ‘‘

اور میرے تین ساتھیوں کی طرف دیکھا

’’ان کو چھوڑو۔ سیٹھ صاحب تمہاری کہانی سننا چاہتے ہیں۔ ‘‘

میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور ہریش سے کہا

’’ان سے اجازت لے لو۔ ‘‘

میری سادہ لوح بیوی جال میں پھنس چکی تھی۔ اس نے ہریش سے کہا۔

’’میں نے بمبئے سے چلتے وقت ان سے کہا بھی تھا کہ اپنا ڈوکیومنٹ کیس ساتھ لے چلیے، پر انھوں نے کہا کوئی ضرورت نہیں۔ اب یہ کہانی کیا سنائیں گے۔ ‘‘

ہریش نے کہا۔

’’زبانی سنا دے گا‘‘

پھر اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہے کہ ہاں کہو جلدی۔ میں نے اطمینان سے کہا۔

’’ہاں ایسا ہو سکتا ہے!‘‘

چڈے نے اس ڈرامے میں تکمیلی ٹچ دیا۔

’’تو بھئی ہم چلتے ہیں۔ ‘‘

اور وہ تینوں اٹھ کر سلام نمستے کرکے چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اور ہریش نکلے۔ پربھات نگر کے باہر ٹانگے کھڑے تھے۔ چڈے نے ہمیں دیکھا تو زور کا نعرہ بلند کیا۔

’’راجہ ہریش چندر زندہ باد۔ ‘‘

ہریش کے سوا ہم سب ممی کے گھر روانہ ہو گئے۔ اس کو اپنی ایک سہیلی سے ملنے جانا تھا۔ یہ بھی ایک کاٹیج تھی۔ شکل و صورت اور ساخت کے اعتبار سے سعیدہ کاٹیج جیسی مگر بہت صاف ستھری جس سے ممی کے سلیقے اور قرینے کا پتا چلتا تھا۔ فرنیچر معمولی تھا مگر جو چیز جہاں تھی سجی ہوئی تھی۔ پربھات نگر سے چلتے وقت میں نے سوچا تھا کوئی قحبہ خانہ ہو گا، مگر اس گھر کی کسی چیز سے بھی بصارت کو ایسا شک نہیں ہوتا تھا۔ وہ ویسا ہی شریفانہ تھا جیسا کہ ایک اوسط درجے کے عیسائی کا ہوتا ہے۔ لیکن ممی کی عمر کے مقابلے میں وہ جوان جوان دکھائی دیتا تھا۔ اس پر وہ میک اپ نہیں تھا جو میں نے ممی کے جھریوں والے چہرے پر دیکھا تھا۔ جب ممی ڈرائنگ روم میں آئی، تو میں نے سوچا کہ گردوپیش شفقت نے اس کے گال تھپتھپائے اور کہا

’’تم فکر نہ کرو۔ میں ابھی انتظام کرتی ہوں۔ ‘‘

وہ انتظام کرنے باہر چلی گئی۔ چڈے نے خوشی کا ایک اور نعرہ بلند کیا اور ون کترے سے کہا۔

’’جنرل ون کترے۔ جاؤ ہیڈ کوارٹرز سے ساری توپیں لے آؤ۔ ‘‘

ون کترے نے سیلوٹ کیا اور حکم کی تعمیل کے لیے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج بالکل پاس تھی، دس منٹ کے اندر اندر وہ بوتلیں لے کر واپس آگیا۔ ساتھ اس کے چڈے کا نوکر تھا۔ چڈے نے اس کو دیکھا تو اُس کا استقبال کیا۔

’’آؤ، آؤ۔ میرے کوہ قاف کے شہزادے۔ وہ۔ وہ سانپ کے کھپڑوں جیسے رنگ کے بالوں والی لونڈیا آرہی ہے۔ تم بھی قسمت آزمائی کرلینا۔ ‘‘

رنجیت کمار اور غریب نواز دونوں کو چڈے کی یہ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے، والی بات بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ یہ چڈے کی بہت بے ہودگی ہے۔ اس بیہودگی کو انھوں نے بہت محسوس کیا تھا۔ چڈہ حسبِ عادت اپنی ہانکتا رہا اور وہ خاموش ایک کونے میں بیٹھے آہستہ آہستہ رم پی کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے۔ میں ممی کے متعلق سوچتا رہا۔ ڈرائنگ روم میں، غریب نواز، رنجیت کمار اور چڈے بیٹھے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کی ماں باہر کھلونے لینے گئی ہے۔ یہ سب منتظر ہیں۔ چڈہ مطمئن ہے کہ سب سے بڑھیا اور اچھا کھلونا اسے ملے گا، اس لیے کہ وہ اپنی ماں کا چہیتا ہے۔ باقی دو کا غم چونکہ ایک جیسا تھا اس لیے وہ ایک دوسرے کے مونس بن گئے تھے۔ شراب اس ماحول میں دودھ معلوم ہوتی تھی اور وہ پلیٹنم بلونڈ۔ اس کا تصور ایک چھوٹی سی گڑیا کے مانند دماغ میں آتا تھا۔ ہر فضا، ہر ماحول کی اپنی موسیقی ہوتی ہے۔ اس وقت جو موسیقی میرے دل کے کانوں تک پہنچ رہی تھی، اس میں کوئی سُر اشتعال انگیز نہیں تھا۔ ہر شے، ماں اور اس کے بچے اور ان کے باہمی رشتے کی طرح قابلِ فہم اور یقینی تھی۔ میں نے جب اس کو تانگے میں چڈے کے ساتھ دیکھا تھا تو میری جمالیاتی حس کو صدمہ پہنچا تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے دل میں ان دونوں کے متعلق واہیات خیال پیدا ہوئے۔ لیکن یہ چیز مجھے بار بار ستا رہی تھی کہ وہ اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے جو اس کی جھریوں کی توہین ہے۔ اس ممتا کی تضحیک ہے جو اس کے دل میں چڈے، غریب نواز اور ون کترے کے لیے موجود ہے۔ اور خدا معلوم اور کس کس کے لیے۔ باتوں باتوں میں چڈے سے میں نے پوچھا۔

’’یار یہ تو بتاؤ تمہاری ممی اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ دنیا ہر شوخ چیز کو پسند کرتی ہے۔ تمہارے اور میرے جیسے الو اس دنیا میں بہت کم بستے ہیں جو مدھم سر اور مدھم رنگ پسند کرتے ہیں۔ جو جوانی کو بچپن کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے اور۔ اور جو بڑھاپے پر جوانی کا ملمع پسند نہیں کرتے۔ ہم جو خود کو آرٹسٹ کہتے ہیں۔ اُلّو کے پٹھے ہیں۔ میں تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ بیساکھی کا میلہ تھا۔ تمہارے امرت سر میں۔ ایک صحت مند نوجوان نے۔ خالص دودھ اور مکھن پر پلے ہوئے جوان نے، جس کی نئی جوتی اس کی لاٹھی پر بازی گری کررہی تھی اوپر ایک کوٹھے کی طرف دیکھا اور نہایت واہیات رنگوں میں لپی تپی ایک سیاہ فام ٹکھیائی کی طرف دیکھا، جس کی تیل میں چپڑی ہوئی ببریاں، اس کے ماتھے پر بڑے بدنما طریقے پر جمی ہوئی تھیں اور اپنے ساتھی کی پسلیوں میں ٹہوکا دے کر کہا۔ اوئے لہنا سیاں۔ ویخ اوئے اوپر ویخ۔ اسی تے پنڈوچ مجھاں ای۔ ‘‘

آخری لفظ وہ خدا معلوم کیوں گول کرلیا، حالانکہ وہ شائستگی کا بالکل قال نہیں تھا۔ کھکھلا کر ہنسنے لگا اور میرے گلاس میں رم ڈال کر بولا۔

’’اس جاٹ کے لیے وہ چڑیل ہی اس وقت کوہ قاف کی پری تھی۔ اور اس کے گاؤں کی حسین و جمیل مٹیاریں، بے ڈول بھینسیں۔ ہم سب چغد ہیں۔ درمیانے درجے کے۔ اس لیے کہ اس دنیا میں کوئی چیز اول درجے کی نہیں۔ تیسرے درجے کی ہے یا درمیانے درجے کی۔ لیکن۔ لیکن فی لس۔ خاص الخاص درجے کی چیز ہے۔ وہ سانپ کے کھپروں۔ ‘‘

ون کترے نے اپنا گلاس اٹھا کر چڈے کے سر پر انڈیل دیا۔

’’کھپرے۔ کھپرے۔ تمہارا مستک پھر گیا ہے۔ ‘‘

چڈے نے ماتھے پر سے رَم کے ٹپکتے ہوئے قطرے زبان سے چاٹنے شروع کردیے اور ون کترے سے کہا۔

’’لے اب سنا۔ تیرا باپ سالا تجھ سے کتنی محبت کرتا تھا۔ میرا دماغ اب کافی ٹھنڈا ہو گیا ہے!‘‘

وَن کُترے بہت سنجیدہ ہو کر مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’بائی گاڈ۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میں فٹین ائرز کا تھا کہ اس نے میری شادی بنا دی۔ ‘‘

چڈہ زور سے ہنسا۔

’’تمہیں کارٹون بنا دیا اس سالے نے۔ بھگوان اُسے سورگ میں کیریل کی پیٹی دے کہ وہاں بھی اسے بجا بجا کر تمہاری شادی کے لیے کوئی خوبصورت حور ڈھونڈتا رہے۔ ‘‘

ون کترے اور بھی سنجیدہ ہو گیا۔

’’منٹو۔ میں جھوٹ نہیں کہتا۔ میری وائف ایک دم بیوٹی فل ہے۔ ہماری فیملی میں۔ ‘‘

’’تمہاری فیملی کی ایسی تیسی۔ فی لس کی بات کرو۔ اُس سے زیادہ اور کوئی خوبصورت نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

چڈے نے غریب نواز اور رنجیت کمار کی طرف دیکھا جو کونے میں بیٹھے فی لس کے حسن کے متعلق اپنی اپنی رائے کا اظہار ایک دوسرے سے کرنے والے تھے۔

’’گن پاؤڈر پلوٹ کے بانیو۔ سن لو تمہاری کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ میدان چڈے کے ہاتھ رہے گا۔ کیوں ویلز کے شہزادے؟‘‘

ویلز کا شہزادہ رم کی خالی ہوتی ہوئی بوتل کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ چڈے نے قہقہہ لگایا اور اس کو آدھا گلاس بھر کے دے دیا۔ غریب نواز اور رنجیت کمار ایک دوسرے سے فی لس کے بارے میں گھل مل کے باتیں تو کررہے تھے مگر اپنے دماغ میں وہ اسے حاصل کرنے کی مختلف اسکیمیں علیحدہ طور پر بنا رہے تھے۔ یہ ان کے طرزِ گفتگو سے صاف عیاں تھا۔ ڈرائنگ روم میں اب بجلی کے بلب روشن تھے، کیونکہ شام گہری ہو چلی تھی۔ چڈہ مجھ سے بمبئے کی فلم انڈسٹری کے تازہ حالات سن رہا تھا کہ باہر برآمدے میں ممی کی تیز تیز آواز سنائی دی۔ چڈے نے نعرہ بلند کیا اور باہر چلا گیا۔ غریب نواز نے رنجیت کمار کی طرف اور رنجیت کمار نے غریب نواز کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا، پھر دونوں دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔ ممی چہکتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ چار پانچ اینگلو انڈین لڑکیاں تھیں۔ مختلف قد و قامت اور خطوط والوان کی۔ پولی، ڈولی، کِٹی، ایلما اور تھیلما۔ اور وہ ہیجڑا نما لڑکا۔ اس کو چڈہ سسِی کہہ کر پکارتا تھا۔ فی لس سب سے آخر میں نمودار ہوئی اور وہ بھی چڈے کے ساتھ۔ اس کا ایک بازو اس پلیٹنم بلونڈ کی پتلی کمر میں حمائل تھا۔ میں نے غریب نواز اور رنجیت کمار کا رد عمل نوٹ کیا۔ ان کوچڈے کی یہ نمائشی فتحمندانہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔ لڑکیوں کے نازل ہوتے ہی ایک شور برپا ہو گیا۔ ایک دم اتنی انگریزی برسی کہ ون کترے میٹری کولیشن امتحان میں کئی بار فیل ہوا۔ مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور برابر بولتا رہا۔ جب اس سے کسی نے التفات نہ برتا تو وہ ایلما کی بڑی بہن تھیلما کے ساتھ ایک صوفے پر الگ بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا کہ اس نے ہندوستانی ڈانس کے اور کتنے نئے توڑے سیکھے ہیں۔ وہ اِدھر دھانی ناکت اور ناتھئی تھئی کہ ون، ٹو، تھری بنا بنا کر اس کو توڑے بتا رہا تھا، ادھر چڈہ باقی لڑکیوں کے جھرمٹ میں انگریزی کے ننگے ننگے لمرک سنا رہا تھا۔ جو اس کو ہزاروں کی تعداد میں زبانی یاد تھے۔ ممی سوڈے کی بوتلیں اور گزک کا سامان منگوا رہی تھی۔ رنجیت کمار سگریٹ کے کش لگا کر ٹکٹکی باندھے فی لس کی طرف دیکھ رہا تھا اور غریب نواز ممی سے بار بار کہتا تھا کہ روپے کم ہوں تو وہ اس سے لے لے۔ اسکاچ کھلی اور پہلا دور شروع ہوا۔ فی لس کو جب شام ہونے کے لیے کہا گیا تو اس نے اپنے پلیٹمنی بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر انکار کردیا کہ وہ وسکی نہیں پیا کرتی۔ سب نے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ چڈے نے بددلی کا اظہار کیا تو ممی نے فی لس کے لیے ہلکا سا مشروب تیار کیا اور گلاس اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر بڑے پیار سے کہا۔

’’بہادر لڑکی بنو اور پی جاؤ۔ ‘‘

فی لس انکار نہ کرسکی۔ چڈہ خوش ہو گیا۔ اور اس نے اسی خوشی میں بیس پچیس اور لمرک سنائے۔ سب مزے لیتے رہے۔ میں نے سوچا، عریانی سے تنگ آکر انسان نے سترپوشی اختیار کی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ اب وہ سترپوشی سے اکتا کر کبھی کبھی عریانی کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ شائستگی کا رد عمل یقیناً ناشائستگی ہے۔ اس فرار کا قطعی طور پر ایک دلکشا پہلو بھی ہے۔ آدمی کو اس سے ایک مسلسل ایک آہنگی کی کوفت سے چند گھڑیوں کے لیے نجات مل جاتی ہے۔ میں نے ممی کی طرف دیکھا جو بہت ہشاش بشاش جوان لڑکیوں میں گھلی ملی چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر ہنس رہی تھی اور قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی واہیات میک اپ تھا۔ اس کے نیچے اس کی جھریاں صاف نظر آرہی تھیں مگر وہ بھی مسرور تھیں۔ میں نے سوچا، آخر لوگ کیوں فرار کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ فرار جو میری آنکھوں کے سامنے تھے، اس کا ظاہر گو بدنما تھا، لیکن باطن اس کا بے حد خوبصورت تھا۔ اس پر کوئی بناؤ سنگھار، کوئی غازہ، کوئی ابٹنا نہیں تھا۔ پولی تھی، وہ ایک کونے میں رنجیت کمار کے ساتھ کھڑی، اپنے نئے فراک کے بارے میں بات چیت کررہی تھی اور اسے بتا رہی تھی کہ صرف اپنی ہوشیاری سے اس نے بڑے سستے داموں پر ایسی عمدہ چیز تیار کرالی ہے۔ دو ٹکڑے تھے جو بظاہر بالکل بیکار معلوم ہوتے تھے، مگر اب وہ ایک خوبصورت پوشاک میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اور رنجیت کمار بڑے خلوص کے ساتھ اس کو دو نئے ڈریس بنوا دینے کا وعدہ کررہا تھا۔ حالانکہ اسے فلم کمپنی سے اتنے روپے یک مشت ملنے کی ہرگز ہرگز امید نہیں تھی۔ ڈولی تھی وہ غریب نواز سے کچھ قرض مانگنے کی کوشش کررہی تھی اور اس کو یقین دلا رہی تھی کہ دفتر سے تنخواہ ملنے پر وہ یہ قرض ضرور ادا کردے گی۔ غریب نواز کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ وہ یہ روپیہ حسب معمول کبھی واپس نہیں دے گی مگر وہ اس کے وعدے پر اعتبار کیے جارہا تھا۔ تھیلما، ون کترے سے تانڈیو ناچ کے بڑے مشکل توڑے سیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ ون کترے کو معلوم تھا کہ ساری عمر اُس کے پیر کبھی ان کے بول ادا نہیں کر سکیں گے، مگر وہ اس کو بتائے جارہا تھا اور تھیلما بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ بیکار اپنا اورون کترے کا وقت ضائع کررہی ہے، مگر بڑے شوق اور انہماک سے سابق یاد کررہی تھی۔ ایلما اور کٹی دونوں پئے جارہی تھیں اور آپس میں کسی آٹوی کی بات کررہی تھیں جس نے پچھلی ریس میں ان دونوں سے خدا معلوم کب کا بدلہ لینے کی خاطر غلط ٹپ دی تھی۔ وہ چڈہ فی لس کے سانپ کے کھپرے ایسے رنگ کے بالوں کو پگھلے ہوئے سونے کی رنگ کی اسکاچ میں ملا ملا کر پی رہا تھا۔ فی لس کا ہیجڑہ نما دوست بار بار جیب سے کنگھی نکالتا تھا اور اپنے بال سنوارتا تھا۔ ممی کبھی اس سے بات کرتی تھی، کبھی اُس سے، کبھی سوڈا کھلواتی تھی۔ کبھی ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے اٹھواتی تھی۔ اس کی نگاہ سب پر تھی۔ اس بلی کی طرح، جو بظاہر آنکھیں بند کیے سستاتی ہے، مگر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پانچوں بچے کہاں کہاں ہیں اور کیا کیا شرارت کررہے ہیں۔ اس دلچسپ تصویر میں کون سا رنگ، کون سا خط غلط تھا؟۔ ممی کا وہ بھڑکیلا اور شوخ میک اپ بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس تصویر کا ایک ضروری جزو ہے۔ غالب کہتا ہے ؂ قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟۔ قیدِ حیات اور بندِ غم جب اصلاً ایک ہیں تو یہ کیا غرض ہے کہ آدمی موت سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس نجات کے لیے کون ملک الموت کا انتظار کرے۔ کیوں آدمی چند لمحات کے لیے خود فریبی کے دلچسپ کھیل میں حصہ نہ لے۔ ممی سب کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔ اس کے پہلو میں ایسا دل تھا۔ جس میں ان سب کے لیے ممتا تھی۔ میں نے سوچا، شاید اس لیے اس نے اپنے چہرے پر رنگ مل لیا ہے کہ لوگوں کو اس کی اصلیت معلوم نہ ہو۔ اس میں شاید اتنی جسمانی قوت نہیں تھی کہ وہ ہر ایک کی ماں بن سکتی۔ اس نے اپنی شفقت اور محبت کے لیے چند آدمی چُن لیے تھے اور باقی ساری دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔ ممی کو معلوم نہیں تھا۔ چڈہ ایک تکڑا پیگ فی لس کو پلا چکا تھا۔ چوری چھپے نہیں سب کے سامنے، مگر ممی اس وقت اندر باورچی خانے میں پوٹیٹو چپس تل رہی تھی۔ فی لس نشے میں تھی، ہلکے ہلکے سرور میں۔ جس طرح اس کے پالش کیے ہوئے فولاد کے رنگ کے بال آہستہ آہستہ لہراتے تھے، اسی طرح وہ خود بھی لہراتی تھی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ون کترے، تھیما کو توڑے سکھا سکھا کر اب اسے بتا رہا تھا کہ اس کا باپ سالا اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ چائلڈ ہڈ میں اس نے اس کی شادی بنا دی تھی۔ اسکی وائف بہت بیوٹی فل ہے۔ اور غریب نواز، ڈولی کو قرض دے کر بھول بھی چکا تھا۔ رنجیت کمار، پولی کو اپنے ساتھ کہیں باہر لے گیا تھا۔ ایلما اور کٹی دونوں جہان بھر کی باتیں کرکے اب تھک گئی تھیں اور آرام کرنا چاہتی تھیں۔ تپائی کے اردگرد’فی لس‘ اس کا ہیجڑا نما ساتھی اور ممی بیٹھے تھے۔ چڈہ اب جذباتی نہیں تھا۔ فی لس اس کے پہلو میں بیٹھی تھی جس نے پہلی دفعہ شراب کا سرور چکھا تھا۔ اس کو حاصل کرنے کا عزم اس کی آنکھوں میں صاف موجود تھا۔ ممی اس سے غافل نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد فی لس کا ہیجڑہ نما دوست اٹھ کر صوفے پر دراز ہو گیا اور اپنے بالوں میں کنگھی کرتے کرتے سو گیا۔ غریب نواز اور ایلما اٹھ کر کہیں چلے گئے۔ ایلما اور کٹی نے آپس میں کسی مارگرٹ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے ممی سے رخصت لی اور چلی گئیں۔ ون کترے نے آخری بار اپنی بیوی کی خوبصورتی کی تعریف کی اور فی لس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا، پھر تھیلما کی طرف جو اس کے پاس بیٹھی تھی اور اس کوبازو سے پکڑ کر چاند دکھانے کے لیے باہر میدان میں لے گیا۔ ایک دم جانے کیا ہوا کہ چڈے اور ممی میں گرم گرم باتیں شروع ہو گئیں۔ چڈے کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ وہ ایک ناخلف بچے کی طرح ممی سے بدزبانی کرنے لگا۔ فی لس نے دونوں میں مصالحت کی مہین مہین کوشش کی، مگر چڈا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔ وہ فی لس کو اپنے ساتھ سعیدہ کاٹیج میں لے جانا چاہتا تھا۔ ممی اس کے خلاف تھی۔ وہ اس کو بہت دیر تک سمجھاتی رہی کہ وہ اس ارادے سے باز آئے، مگر وہ اس کے لیے نہیں تھا۔ وہ بار بار ممی سے کہہ رہا تھا۔

’’تم دیوانی ہو گئی ہو۔ بوڑھی دلالہ۔ فی لس میری ہے۔ پوچھ لو اس سے‘‘

ممی نے بہت دیر تک اس کی گالیاں سنیں، آخر میں بڑے سمجھانے والے انداز میں اس سے کہا۔

’’چڈہ، مائی سن۔ تم کیوں نہیں سمجھتے۔ شی از ینگ۔ شی از ویری ینگ!‘‘

اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ ایک التجا تھی، ایک سرزنش تھی، ایک بڑی بھیانک تصویر تھی، مگر چڈہ بالکل نہ سمجھا۔ اس وقت اس کے پیش نظر صرف فی لس اور اس کا حصول تھا۔ میں نے فی لس کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی دفعہ بڑی شدت سے محسوس کیا کہ وہ بہت چھوٹی عمر کی تھی۔ بمشکل پندرہ برس کی۔ اس کا سفید چہرہ نقرئی بادلوں میں گھرا ہوا بارش کے پہلے قطرے کی طرح لرز رہا تھا۔ چڈے نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فلموں کے ہیرو کے انداز میں اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ ممی نے احتجاج کی چیخ بلند کی۔

’’چڈہ۔ چھوڑ دو۔ فور گاڈزسیک۔ چھوڑ دو اسے۔ ‘‘

جب چڈے نے فی لس کو اپنے سینے سے جدا نہ کیا تو ممی نے اس کے منہ پر ایک چانٹا مارا۔

’’گٹ آؤٹ۔ گٹ آؤٹ!‘‘

چڈہ بھونچکا رہ گیا۔ فی لس کو جدا کرکے اس نے دھکا دیا اور ممی کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا باہر چلا گیا۔ میں نے اٹھ کر رخصت لی اور چڈے کے پیچھے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ پتلون، قمیض اور بوٹ سمیت پلنگ پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور دوسرے کمرے میں جا کر بڑے میز پر سو گیا۔ صبح دیر سے اٹھا۔ گھڑی میں دس بجے رہے تھے۔ چڈہ صبح ہی صبح اٹھ کر باہر چلا گیا۔ کہاں، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میں جب غسل خانے سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے اس کی آواز سنی جو گراج سے باہر آرہی تھی۔ میں رک گیا۔ وہ کسی سے کہہ رہا تھا

’’وہ لاجواب عورت ہے۔ خدا کی قسم وہ لاجواب عورت ہے۔ دعا کرو کہ اس کی عمر کو پہنچ کر تم بھی ویسی ہی گریٹ ہو جاؤ۔ ‘‘

اس کے لہجے میں ایک عجیب و غریب تلخی تھی۔ معلوم نہیں اس کا رخ اس کی اپنی ذات کی جانب تھا یا اس شخص کی طرف جس سے وہ مخاطب تھا۔ میں نے زیادہ دیر وہاں رکے رہنا مناسب نہ سمجھا اور اندر چلا گیا۔ نصف گھنٹے کے قریب میں نے اس کا انتظار کیا۔ جب وہ نہ آیا تو میں پربھات نگر روانہ ہو گیا۔ میری بیوی کا مزاج معتدل تھا۔ ہریش گھر میں نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو میں نے کہہ دیا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ پونے میں کافی تفریح ہو گئی تھی۔ اس لیے میں نے ہریش کی بیوی سے کہا کہ ہمیں اجازت دی جائے۔ رسماً اس نے ہمیں روکنا چاہا، مگر میں سعیدہ کاٹیج ہی سے فیصلہ کرکے چلا تھا کہ رات کا و اقعہ میرے لیے ذہنی جگالی کے واسطے بہت کافی ہے۔ ہم چل دیے۔ راستے میں ممی کی باتیں ہوئیں۔ جو کچھ ہوا تھا۔ میں نے اس کو من و عن سنا دیا۔ اس کا رد عمل یہ تھا کہ فی لس اس کی کوئی رشتہ دار ہو گی۔ یا وہ اسے کسی اچھی آسامی کو پیش کرنا چاہتی تھی جبھی اس نے چڈے سے لڑائی کی۔ میں خاموش رہا۔ اس کی تردید کی نہ تائید۔ کئی دن گزرنے پر چڈے کا خط آیا، جس میں اس رات کے واقعے کا سرسری ذکر تھا۔ اور اس نے اپنے متعلق یہ کہا تھا۔

’’میں اس روز حیوان بن گیا تھا۔ لعنت ہو مجھ پر!‘‘

تین مہینے کے بعد مجھے ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سیدھا سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ چڈہ موجود نہیں تھا۔ غریب نواز سے اس وقت ملاقات ہوئی، جب وہ گراج سے باہر نکل کر شیریں کے خوردسال بچے کو پیار کررہا تھا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ تھوڑی دیر کے بعد رنجیت کمار آگیا، کچھوے کی چال چلتا اور خاموش بیٹھ گیا۔ میں اگر اس سے کچھ پوچھتا تو وہ بڑے اختصار سے جواب دیتا۔ اس سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ چڈہ اس رات کے بعد ممی کے پاس نہیں گیا اور نہ وہ کبھی یہاں آئی ہے۔ فی لس کو اس نے دوسرے روز ہی اپنے ماں باپ کے پاس بھجوا دیا تھا۔ وہ اس ہیجڑہ نما لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی ہوئی تھی۔ رنجیت کمار کو یقین تھا کہ اگر وہ کچھ دن اور پونے میں رہتی تو وہ ضرور اسے لے اڑتا۔ غریب نواز کو ایسا کوئی زعم نہیں تھا۔ اسے صرف یہ افسوس تھا کہ وہ چلی گئی۔ چڈے کے متعلق یہ پتہ چلا کہ دو تین روز سے اس کی طبیعت ناساز ہے۔ بخار رہتا ہے، مگر وہ کسی ڈا کٹر سے مشورہ نہیں لیتا۔ سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے۔ غریب نواز نے جب مجھے یہ باتیں بتانا شروع کریں تو رنجیت کمار اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا، اس کا رخ گراج کی طرف تھا۔ میں غریب نواز سے گراج والی شیریں کے متعلق کچھ پوچھنے کے لیے خود کو تیار ہی کررہا تھا کہ ون کترے سخت گھبرایا ہوا کمرے میں داخل ہوا اس سے معلوم ہوا کہ چڈے کو سخت بخار تھا، وہ اسے ٹانگے میں یہاں لارہا تھا کہ راستے میں بیہوش ہو گیا۔ میں اور غریب نواز باہر دوڑے۔ ٹانگے والے نے بیہوش چڈے کو سنبھالا ہوا تھا۔ ہم سب نے مل کر اسے اٹھایا اور کمرے میں پہنچا کربستر پر لٹا دیا۔ میں نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ واقعی بہت تیز بخار تھا۔ ایک سوچھ ڈگری سے قطعاً کم نہ ہو گا۔ میں نے غریب نواز سے کہا کہ فوراً ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔ اس نے ون کترے سے مشورہ کیا۔ وہ

’’ابھی آتا ہوں‘‘

کہہ کر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ممی تھی جو ہانپ رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے چڈے کی طرف دیکھا اور قریب قریب چیخ کر پوچھا۔

’’کیا ہوا میرے بیٹے کو؟‘‘

ون کترے نے جب اسے بتایا کہ چڈہ کئی دن سے بیمار تھا تو ممی نے بڑے رنج اور غصے کے ساتھ کہا

’’تم کیسے لوگ ہو۔ مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘

پھر اس نے غریب نواز، مجھے اور ون کترے کو مختلف ہدایات دیں۔ ایک کو چڈے کے پاس سہلانے کی، دوسرے کو برف لانے کی اور تیسرے کو پنکھا کرنے کی۔ چڈے کی حالت دیکھ کر اس کی اپنی حالت بہت غیر ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے تحمل سے کام لیا اور ڈ اکٹر بلانے چلی گئی۔ معلوم نہیں رنجیت کمار کو گراج میں کیسے پتہ چلا۔ ممی کے جانے کے بعد فوراً وہ گھبرایا ہوا آیا۔ جب اس نے استفسار کیا توون کترے نے اس کے بیہوش ہونے کا واقعہ بیان کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ممی ڈاکٹر کے پاس گئی ہے۔ یہ سن کر رنجیت کمار کا اضطراب کسی حد تک دور ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں بہت مطمئن تھے، جیسے چڈے کی صحت کی ساری ذمہ داری ممی نے اپنے سر لے لی ہے۔ اس کی ہدایات کے مطابق چڈے کے پاؤں سہلائے جارہے تھے۔ سر پر برف کی پٹیاں رکھی جارہی تھیں۔ جب ممی ڈاکٹر لے کر آئی تو وہ کسی قدر ہوش میں آرہا تھا۔ ڈاکٹر نے معائنے میں کافی دیر لگائی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ چڈے کی زندگی میں خطرے میں ہے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے ممی کو اشارہ کیا اور وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ممی آئی۔ غریب نواز، ون کترے اور رنجیت کمار سے اس نے فرداً فرداً کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چڈہ اب آنکھیں کھول کر سن رہا تھا۔ ممی کو اس نے حیرت کی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن وہ الجھن سی محسوس کررہا تھا۔ چند لمحات کے بعد جب وہ سمجھ گیا کہ ممی کیوں اور کیسے آئی ہے تو اس نے ممی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دبا کر کہا

’’ممی، یو آر گریٹ!‘‘

ممی اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ شفقت کا مجسمہ تھی۔ چڈے کے تپتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر اس نے مسکرائے ہوتے صرف اتنا کہا

’’میرے بیٹے۔ میرے غریب بیٹے!‘‘

چڈے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن فوراً ہی اس نے ان کو جذب کرنے کی کوشش اور کہا

’’نہیں۔ تمہارا بیٹا اول درجے کا سکاؤنڈرل ہے۔ جاؤ اپنے مرحوم خاوند کا پستول لاؤ اور اس کے سینے پر داغ دو!‘‘

ممی نے چڈے کے گال پر ہولے سے طمانچہ مارا

’’فضول بکواس نہ کرو۔ ‘‘

پھر وہ چست و چالاک نرس کی طرح اٹھی اور ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’لڑکو۔ چڈہ بیمار ہے، اور مجھے ہسپتال لے جانا ہے اسے۔ سمجھے؟‘‘

سب سمجھ گئے۔ غریب نواز نے فوراً ٹیکسی کا بندوبست کردیا۔ چڈے کو اٹھا کر اس میں ڈالا گیا۔ وہ بہت کہتا رہا کہ اتنی کونسی آفت آگئی ہے جو اس کو ہسپتال کے سپرد کیا جارہا ہے۔ مگر ممی یہی کہتی رہی کہ بات کچھ بھی نہیں۔ ہسپتال میں ذرا آرام رہتا ہے۔ چڈہ بہت ضدی تھا۔ مگر نفسیاتی طور پر وہ اس وقت ممی کی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چڈہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ممی نے اکیلے میں مجھے بتایا کہ مرض بہت خطرناک ہے۔ یعنی پلیگ۔ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ خود ممی بہت پریشان تھی۔ لیکن اس کو امید تھی کہ یہ بلا ٹل جائے گی اور چڈہ بہت جلد تندرست ہو جائے گا۔ علاج ہوتا رہا۔ پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ ڈاکٹروں نے چڈے کا علاج بہت توجہ سے کیا مگر کئی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ اس کی جلد جگہ جگہ سے پھٹنے لگی۔ اور بخار بڑھتا گیا۔ ڈاکٹروں نے بالآخر یہ رائے دی کہ اسے بمبئی لے جاؤ، مگر ممی نہ مانی۔ اس نے چڈے کو اسی حالت میں اٹھوایا اور اپنے گھر لے گئی۔ میں زپادہ دیر پونے میں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ واپس بمبئی آیا تو میں نے ٹیلی فون کے ذریعے سے کئی مرتبہ اس کا حال دریافت کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ پلیگ کے حملے سے جانبر نہ ہوسکے گا۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی حالت سنبھل رہی ہے۔ ایک مقدمے کے سلسلے میں مجھے لاہور جانا پڑا۔ وہاں سے پندرہ روز کے بعد لوٹا تو میری بیوی نے چڈے کا ایک خط دیا جس صرف یہ لکھا تھا

’’عظیم المرتبت ممی نے اپنے ناخلف بیٹے کو موت کے منہ سے بچا لیا ہے۔ ‘‘

ان چند لفظوں میں بہت کچھ تھا۔ جذبات کا ایک پورا سمندرتھا۔ میں نے اپنی بیوی سے اس کا ذکر خلافِ معمول بڑے جذباتی انداز میں کیا تو اسنے متاثر ہو کر صرف اتنا کہا

’’ایسی عورتیں عموماً خدمت گزار ہوا کرتی ہیں۔ ‘‘

میں نے چڈے کو دو تین خط لکھے، جن کا جواب نہ آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ممی نے اس کو تبدیلی آب و ہوا کی خاطر اپنی ایک سہیلی کے ہاں لوناولہ بھجوا دیا تھا۔ چڈہ وہاں بمشکل ایک مہینہ رہا اور اکتا کر چلا آیا۔ جس روز وہ پونے پہنچا اتفاق سے میں وہیں تھا۔ پلیگ کے زبردست حملے کے باعث وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ مگر اس کی غوغا پسند طبیعت اسی طرح زوروں پر تھی۔ اپنی بیماری کا اس نے اس انداز میں ذکر کیا کہ جس طرح آدمی سائیکل کے معمولی حادثے کا ذکر کرتا ہے۔ اب کہ وہ جانبر ہو گیا تھا، اپنی خطرناک علالت کے متعلق تفصیلی گفتگو اسے بیکار معلوم ہوتی تھی۔ سعیدہ کاٹیج میں چڈے کی غیر حاضری کے دوران میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ ایل برادران یعنی عقیل اور شکیل کہیں اور اٹھ گئے تھے۔ کیونکہ انھیں اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کرنے کے لیے سعیدہ کاٹیج کی فضا مناسب و موزوں معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی جگہ ایک بنگالی میوزک ڈائریکٹر آگیا تھا۔ اس کا نام سین تھا۔ اس کے ساتھ لاہور سے بھاگا ہوا ایک لڑکا رام سنگھ رہتا تھا۔ سعیدہ کاٹیج والے سب اس سے کام لیتے تھے۔ طبعیت کا بہت شریف اور خدمت گزار تھا۔ چڈے کے پاس اس وقت آیا تھا جب وہ ممی کے کہنے پر لوناولہ جارہا تھا۔ اس نے غریب نواز اور رنجیت کمار سے کہہ دیا تھا کہ اسے سعیدہ کاٹیج میں رکھ لیا جائے۔ سین کے کمرے میں چونکہ جگہ خالی تھی، اس لیے اس نے وہیں اپنا ڈیرہ جما دیا تھا۔ رنجیت کمار کو کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو منتخب کرلیا گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر فلم کامیاب ہوا تو اس کو دوسرا فلم ڈائریکٹ کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ چڈہ اپنی دو برس کی جمع شدہ تنخواہ میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ یک مشت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس نے رنجیت کمار سے کہا تھا۔

’’میری جان اگر کچھ وصول کرنا ہے تو پلیگ میں مبتلا ہو جاؤ۔ ہیرو اور ڈائریکٹر بننے سے میرا تو خیال ہے یہی بہتر ہے۔ ‘‘

غریب نواز تازہ تازہ حیدر آباد سے واپس آیا تھا۔ اس لیے سعیدہ کاٹیج کسی قدر مرفع الحال تھی۔ میں نے دیکھا کہ گراج کے باہر الگنی سے ایسی قمیض اور شلواریں لٹک رہی تھیں جن کپڑا اچھا اور قیمتی تھا۔ شیریں کے خوردسال بچے کے پاس نئے کھلونے تھے۔ مجھے پونے میں پندرہ روز رہنا پڑا۔ میرا پرانا فلموں کا ساتھی اب نئے فلم کی ہیروئن کی محبت میں گرفتار ہونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ مگر ڈرتا تھا۔ کیونکہ یہ ہیروئن پنجابی تھی اور اس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا ہٹا کٹا مشٹنڈا تھا۔ چڈے نے اس کو حوصلہ دیا تھا

’’کچھ پروا نہ کرو اس سالے کی۔ جس پنجابی ایکٹرس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا پہلوان ہو، وہ عشق کے میدان میں ضرور چاروں شانے چت گرا کرتا ہے۔ بس اتنا کرو کہ سو روپے فی گالی کے حساب سے مجھ سے پنجابی کی دس بیس بڑی ہیوی ویٹ قسم کی گالیاں سیکھ لو۔ یہ تمہاری خاص مشکلوں میں بہت کام آیا کریں گی۔ ‘‘

ہریش ایک بوتل فی گلاس کے حساب سے چھ گالیاں پنجاب کے مخصوص لب ولہجے میں یاد کر چکا تھا۔ مگر ابھی تک اسے اپنے عش کے راستے میں کوئی ایسی خاص مشکل درپیش نہیں آئی تھی جو وہ ان کی تاثیر کا امتحان لے سکتا۔ ممی کے گھر حسب معمول محفلیں جمتی تھیں۔ پولی۔ ڈولی۔ کٹی۔ ایلما۔ تھیلما وغیرہ سب آئی تھیں۔ ون کترے بدستور تھیلما کو کتھا کلی اور تانڈیو ناچ کی تاتھئی اور دھانی ناکت کی ون ٹو تھری بنا بنا کر بتاتا تھا۔ اور وہ اسے سیکھنے کی پر خلوص کوشش کرتی تھی۔ غریب نواز حسب توفیق قرض دے رہا تھا اور رنجیت کمار جس کو اب کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو کا چانس مل رہا تھا۔ ان میں سے کسی ایک کو باہر کھلی ہوا میں لے جاتا تھا۔ چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر اسی طرح قہقہے برپا ہوتے تھے۔ ایک صرف وہ نہیں تھی۔ وہ جس کے بالوں کے رنگ کے لیے صحیح تشبیہہ ڈھونڈنے میں چڈے نے کافی وقت صرف کیا تھا۔ مگر ان محفلوں میں چڈے کی نگاہیں اسے ڈھونڈتی نہیں تھی۔ پھر بھی کبھی کبھی چڈے کی نظریں ممی کی نظروں سے ٹکرا کر جھک جاتی تھیں تو میں محسوس کرتا تھا کہ اس کو اپنی اس رات کی دیوانگی کا افسوس ہے۔ ایسا افسوس جس کی یاد سے اس کو تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ چوتھے پیگ کے بعد کسی وقت اس قسم کا جملہ اس کی زبان سے بے اختیار نکل جاتا۔

’’چڈہ۔ یو آر اے ڈیمڈ بروٹ!‘‘

یہ سن کر ممی زیر لب مسکرا دیتی تھی، جیسے وہ اس مسکراہٹ کی شیرینی میں لپیٹ لپیٹ کر یہ کہہ رہی ہے۔

’’ڈونٹ ٹوک روٹ۔ ‘‘

ون کترے سے بدستور اس کی چخ چلتی تھی۔ سرور میں آکر جب بھی وہ اپنے باپ کی تعریف میں یا اپنی بیوی کی خوبصورتی کے متعلق کچھ کہنے لگتا تو وہ اس کی بات بہت بڑے گنڈاسے سے کاٹ ڈالتا۔ وہ غریب چپ ہو جاتا اور اپنا میٹری کولیشن سرٹیفکیٹ تہہ کرکے جیب میں ڈال لیتا۔ ممی، وہی ممی تھی۔ پولی کی ممی، ڈولی کی ممی، چڈے کی ممی، رنجیت کمار کی ممی۔ سوڈے کی بوتلوں، گزک چیزوں اور محفل جمانے کے دوسروں ساز و سامان کے انتظام میں وہ اسی پر شفقت انہماک سے حصہ لیتی تھی۔ اس کے چہرے کا میک اپ ویسا ہی واہیات ہوتا تھا۔ اس کے کپڑے اسی طرح کے شوخ و شنگ تھے۔ غا زے اور سرخی کی تہوں سے اس کی جھریاں اسی طرح جھانکتی تھیں۔ مگر اب مجھے یہ مقدس دکھائی دیتی تھیں۔ اتنی مقدس کہ پلیک کے کیڑے ان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ ڈر کر، سمٹ کر، وہ ڈر گئے تھے۔ چڈے کے جسم سے بھی نکل بھاگے تھے کہ اس پر ان جھریوں کا سایہ تھا۔ ان مقدس جھریوں کا جو ہر وقت نہایت واہیات رنگوں میں لتھڑی رہتی تھیں۔ ون کترے کی خوبصورت بیوی کے جب اسقاط ہوا تھا تو ممی ہی کی بروقت امداد سے اس کی جان بچی تھی۔ تھیلما جب ہندوستانی رقص سیکھنے کے شوق میں مارواڑ کے ایک کتھک کے ہتھے چڑھ گئی تھی اور اس سودے میں ایک روز جب اس کو اچانک معلوم ہوا تھا کہ اس نے ایک مرض خرید لیا ہے تو ممی نے اس کو بہت ڈانٹا تھا۔ اور اس کو جہنم سپرد کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے قطع تعلق کرنے کا تہیہ کرلیا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا تھا۔ اس نے اسی روز شام کو اپنے بیٹوں کو ساری بات سنا دی تھی اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ تھیلما کا علاج کرائیں۔ کٹی کو ایک معما حل کرنے کے سلسلے میں پانچ سو روپے کا انعام ملا تھا، تو اس نے مجبور کیا تھا کہ وہ کم از کم اس کے آدھے روپے غریب نواز کو دے دے، کیونکہ اس غریب کا ہاتھ تنگ ہے۔ اس نے کٹی سے کہا تھا

’’تم اس وقت اسے دے دو۔ بعد میں لیتی رہنا‘‘

اور مجھ سے اس نے پندرہ روز کے قیام کے دوران میں کئی مرتبہ میری مسز کے بارے میں پوچھا تھا اور تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پہلے بچے کی موت کو اتنے برس ہو گئے ہیں، دوسرا بچہ کیوں نہیں ہوا۔ رنجیت کمار سے زیادہ رغبت کے ساتھ بات نہیں کرتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی نمائش پسند طبیعت اس کو اچھی نہیں لگتی۔ میرے سامنے اس کا اظہار وہ ایک دو مرتبہ لفظوں میں بھی کر چکی تھی۔ میوزک ڈائریکٹر سین سے وہ نفرت کرتی تھی۔ چڈہ اس کو اپنے ساتھ لاتا تھا تووہ اس سے کہتی تھی

’’ایسے ذلیل آدمی کو یہاں مت لایا کرو۔ ‘‘

چڈہ اس سے وجہ پوچھتا تو وہ بڑی سنجیدگی سے یہ جواب دیتی تھی کہ

’’مجھے یہ آدمی اوپرا اوپراسا معلوم ہوتا ہے۔ فٹ نہیں بیٹھتا میری نظروں میں۔ ‘‘

یہ سن کر چڈہ ہنس دیتا تھا۔ ممی کے گھر کی محفلوں کی پُرخلوص گرمی لیے میں واپس بمبئے چلا گیا۔ ان محفلوں میں زندگی تھی، بلا نوشی تھی، جنسیاتی رنگ تھا۔ مگر کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔ ہر چیز حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح قابل فہم تھی۔ اسی طرح ابھری ہوئی۔ بظاہر اسی طرح کڈھب، بینڈی اور دیکھنے والے کو گومگو کی حالت میں ڈالنے والی۔ مگر اصل میں بڑی صحیح، با سلیقہ اور اپنی جگہ پر قائم۔ دوسرے روز صبح کے اخباروں میں یہ پڑھا کہ سعیدہ کاٹیج میں بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین مارا گیا ہے۔ اس کو قتل کرنے والا کوئی رام سنگھ ہے جس کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ میں نے فوراً پونے ٹیلیفون کیا مگرکوئی نہ مل سکا۔ ایک ہفتے کے بعد چڈے کا خط آیا جس میں حادثہ قتل کی پوری تفصیل تھی۔ رات کو سب سوئے تھے کہ چڈے کے پلنگ پر اچانک کوئی گرا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ روشنی کی تو دیکھا کہ سین ہے۔ خون میں لت پت۔ چڈہ اچھی طرح اپنے ہوش و حواس سنبھالنے بھی نہ پایا تھا کہ دروازے میں رام سنگھ نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ چھری تھی۔ فوراً ہی غریب نواز اور رنجیت کمار بھی آگئے۔ ساری سعیدہ کاٹیج بیدار ہو گئی۔ رنجیت کمار اور غریب نواز نے رام سنگھ کو پکڑ لیا اور چھری اس کے ہاتھ سے چھین لی۔ چڈے نے سین کو اپنے پلنگ پر لٹایا اور اس سے زخموں کے متعلق کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے آخری ہچکی لی اور ٹھنڈا ہو گیا۔ رام سنگھ، غریب نواز اور رنجیت کمار کی گرفت میں تھا، مگر وہ دونوں کانپ رہے تھے۔ سین مر گیا تو رام سنگھ نے چڈے سے پوچھا

’’بھاپا جی۔ مر گیا؟‘‘

چڈے نے اثبات میں جواب دیا تو رام سنگھ نے رنجیت کمار اور غریب نواز سے کہا

’’مجھے چھوڑ دیجیے، میں بھاگوں گا نہیں۔ ‘‘

چڈے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے فوراً نوکر کو بھیج کر ممی کو بلوایا۔ ممی آئی تو سب مطمئن ہو گئے کہ معاملہ سلجھ جائے گا۔ اس نے رام سنگھ کو آزاد کردیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی جہاں اس کا بیان درج کرادیا گیا۔ اس کے بعد چڈہ اور اس کے ساتھی کئی دن تک سخت پریشان رہے۔ پولیس کی پوچھ گچھ، بیانات، پھر عدالت میں مقدمے کی پیروی۔ ممی اس دوران میں بہت دوڑ دھوپ کرتی رہی تھی۔ چڈہ کو یقین تھا کہ رام سنگھ بری ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ماتحت عدالت ہی نے اسے صاف بری کردیا۔ عدالت میں اس کا وہی بیان تھا جو اس نے تھانے میں دیا تھا۔ ممی نے اس سے کہا تھا

’’بیٹا گھبراؤ نہیں، جو کچھ ہوا ہے سچ بچ بتا دو۔ ‘‘

۔ اور اس نے تمام و اقعات من و عن بیان کردیے تھے کہ سین نے اس کو پلے بیگ سنگر بنا دینے کا لالچ دیا تھا۔ اس کو خود بھی موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا اور سین بہت اچھا گانے والا تھا۔ وہ اس چکر میں آکر اس کی شہوانی خواہشات کو پوری کرتا رہا۔ مگر اس کو اس سے سخت نفرت تھی۔ اس کا دل بار بار اسے لعنت ملامت کرتا تھا۔ آخر میں وہ اسقدر تنگ آگیا تھا کہ اس نے سین سے کہہ بھی دیا تھا کہ اگر اس نے پھر اسے مجبور کیا تو وہ اسے جان سے مار ڈالے گا۔ چنانچہ واردات کی رات کو یہی ہوا۔ عدالت میں اس نے یہی بیان دیا۔ ممی موجود تھی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ رام سنگھ کو دلاسا دیتی رہی کہ گھبراؤ نہیں، جو سچ ہے کہہ دو۔ سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے ہاتھوں نے خون کیا ہے مگر ایک بڑی نجس چیز ہے۔ ایک خباثت کا، ایک غیر فطری سودے کا۔ رام سنگھ نے بڑی سادگی، بڑے بھولپن اور بڑے معصومانہ انداز میں سارے واقعات بیان کیے۔ مجسٹریٹ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رام سنگھ کو بری کردیا۔ چڈے نے کہا

’’اس جھوٹے زمانے میں یہ صداقت کی حیرت انگیز فتح ہے۔ اور اس کا سہرہ میری بڈھی ممی کے سر ہے!‘‘

چڈے نے مجھے اس جلسے میں بلایا تھا جو رام سنگھ کی رہائی کی خوشی میں سعیدہ کاٹیج والوں نے کیا تھا۔ مگر میں مصروفیت کے باعث اس میں شریک نہ ہوسکا۔ ایل بردارز شکیل اور عقیل دونوں واپس سعیدہ کاٹیج آگئے تھے۔ باہر کی فضا بھی ان کی ذاتی فلم کمپنی کی تاسیس و تعمیر کے لیے راس نہ آئی تھی۔ اب وہ پھر اپنی پرانی فلم کمپنی میں کسی اسسٹنٹ کے اسسٹنٹ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کے پاس اس سرمائے میں سے چند سو باقی بچے ہوئے تھے جو انھوں نے اپنی فلم کمپنی کی بنیادوں کے لیے فراہم کیا تھا۔ چڈے کے مشورے پر انھوں نے یہ سب رویہ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے دیا۔ چڈے نے ان سے کہا تھا

’’اب میں چار پیگ پی کر دعا کروں گا کہ وہ تمہاری ذاتی فلم کمپنی فوراً کھڑی کردے۔ ‘‘

چڈے کا بیان تھا کہ اس جلسے میں ون کترے نے شراب پی کر خلافِ معمول اپنے سالے باپ کی تعریف نہ کی اور نہ اپنی خوبصورت بیوی کا ذکر کیا۔ غریب نواز نے کٹی کی فوری ضروریات کے پیش نظر اس کو دوسو روپے قرض دیے اور رنجیت کمار سے اس نے کہا تھا

’’تم ان بیچاری لڑکیوں کو یونہی جھانسے نہ دیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تمہاری نیت صاف ہو، مگر لینے کے معاملے میں ان کی نیت اتنی صاف نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کچھ دے دیا کرو!‘‘

ممی نے اس جلسے میں رام سنگھ کو بہت پیار کیا، اور سب کو یہ مشورہ دیا کہ اسے گھر واپس جانے کے لیے کہا جائے۔ چنانچہ وہیں فیصلہ ہوا اور دوسرے روز غریب نواز نے اس کے ٹکٹ کا بندوبست کردیا۔ شیریں نے سفر کے لیے اس کو کھانا پکا کردیا۔ اسٹیشن پر سب اس کو چھوڑنے گئے۔ ٹرین چلی تو وہ دیر تک ہاتھ ہلاتے رہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مجھے اس جلسے کے دس روز بعد معلوم ہوئیں۔ جب مجھ ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سعیدہ کاٹیج میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ ایسا پڑاؤ ہے جس کی شکل و صورت ہزار ہا قافلوں کے ٹھہرنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ کچھ ایسی جگہ تھی جو اپنا خلا خود ہی پُر کردیتی تھی۔ میں جس روز وہاں پہنچا۔ شیرینی بٹ رہی تھی۔ شیریں کے گھر ایک اور لڑکا ہوا تھا۔ ون کترے کے ہاتھ میں گلیکسو کا ڈبہ تھا۔ ان دنوں یہ بڑی مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔ اس نے اپنے بچے کے لیے کہیں سے دو پیدا کیے تھے۔ ان میں سے ایک وہ شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کے لیے لے آیا تھا۔ چڈے نے آخری دو لڈو اس کے منہ میں ٹھونسے اور کہا

’’تو یہ گلیکسو کا ڈبہ لے آیا ہے۔ بڑا کمال کیا ہے تو نے۔ اپنے سالے باپ اور اپنی سالی بیوی کی دیکھنا، ہرگز کوئی بات نہ کرنا۔ ‘‘

ون کترے نے بڑے بھولپن کے ساتھ کہا

’’سالے، میں اب کوئی پئے لاہوں۔ وہ تو دارو بولا کرتی ہے۔ ویسے بائی گاڈ۔ میری بیوی بڑی ہینڈسم ہے۔ ‘‘

چڈے نے اس قدر بے تحاشا قہقہہ لگایا کہ ون کترے کو اور کچھ کہنے کا موقع نہ ملا۔ اس کے بعد چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار مجھ سے متوجہ ہوئے اور اس کہانی کی باتیں شروع ہو گئیں جو میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے ذریعے سے وہاں کے ایک پروڈیوسر کے لیے لکھ رہا تھا۔ پھر کچھ دیر شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کا نام مقرر ہوتا رہا۔ سینکڑوں نام پیش ہوئے مگر چڈے کو پسند نہ آئے۔ آخرمیں نے کہا کہ جائے پیدائش یعنی سعیدہ کاٹیج کی رعایت سے لڑکا مولودِ مسعود ہے۔ اس لیے مسعود نام بہتر رہے گا۔ چڈے کو پسند نہیں تھا لیکن اس نے عارضی طور پر قبول کرلیا۔ اس دوران میں میں نے محسوس کیا کہ چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار تینوں کی طبیعت کسی قدر بجھی بجھی سی تھی۔ میں نے سوچا شاید خزاں کے موسم کی وجہ ہے۔ جب آدمی خواہ مخواہ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ شیریں کا نیا بچہ بھی اس خفیف اضمحلال کا باعث ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ شبہ استدلال پر پورا نہیں اترتا تھا۔ سین کے قل کی ٹریجڈی؟۔ معلوم نہیں۔ کیا وجہ تھی۔ لیکن میں نے یہ قطعی طور پر محسوس کیا تھا کہ وہ سب افسردہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے، بولتے تھے مگر اندرونی طور پر مضطرب تھے۔ میں پربھات نگر میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے گھر میں کہانی لکھتا رہا۔ یہ مصروفیت پورے سات دن جاری رہی۔ مجھے بار بار خیال آتا تھا کہ اس دوران میں چڈے نے خلل اندازی کیوں نہیں کی۔ ون کترے بھی کہیں غائب تھا۔ رنجیت کمار سے میرے کوئی اتنے مراسم نہیں تھے کہ وہ میرے پاس اتنی دور آتا۔ غریب نواز کے متعلق میں نے سوچا تھا کہ شاید حیدر آباد چلا گیا ہو۔ اور میرا پرانا فلموں کا ساتھی اپنے نئے فلم کی ہیروئن سے اس کے گھر میں اس کے بڑی بڑی مونچھوں والے خاوند کی موجودگی میں عشق لڑانے کا مصمم ارادہ کررہا تھا۔ میں اپنی کہانی کے ایک بڑے دلچسپ باب کا منظر نامہ تیار کررہا تھا کہ چڈہ بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا

’’اس بکواس کا تم نے کچھ وصول کیا ہے۔ ‘‘

اس کا اشارہ میری کہانی کی طرف تھا جس کے معاوضے کی دوسری قسط میں نے دو روز ہوئے وصول کی تھی۔

’’ہاں۔ دوسرا ہزار پرسوں لیا ہے۔ ‘‘

’’کہاں ہے یہ ہزار؟‘‘

یہ کہتا چڈہ میرے کوٹ کی طرف بڑھا۔

’’میری جیب میں!‘‘

چڈے نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سوسو کے چار نوٹ نکالے اور مجھ سے کہا۔

’’آج شام کو ممی کے ہاں پہنچ جانا۔ ایک پارٹی ہے!‘‘

میں اس پارٹی کے متعلق اس سے کچھ دریافت ہی کرنے والا تھا کہ وہ چلا گیا۔ وہ افسردگی جو میں نے چند روز پہلے اس میں محسوس کی تھی بدستور موجود تھی۔ وہ کچھ مضطرب بھی تھا۔ میں نے اس کے متعلق سوچنا چاہا مگر دماغ مائل نہ ہوا کہانی کے دلچسپ باب کا منظر نامہ اس میں بری طرح پھنسا تھا۔ اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کی بیوی سے اپنی بیوی کی باتیں کرکے شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں وہاں سے روانہ ہو کر سات بجے سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ گراج کے باہر الگنی پر گیلے گیلے پوتڑے لٹک رہے تھے۔ اور نل کے پاس ایل برادران شیریں کے بڑے لڑکے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور شیریں ان سے غالباً ممی کی باتیں کرہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چپ ہو گئے۔ میں نے چڈے کے متعلق پوچھا تو عقیل نے کہا کہ وہ ممی کے گھر مل جائے گا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک شوربرپا تھا۔ سب ناچ رہے تھے۔ غریب نواز پولی کے ساتھ، رنجیت کمار، کٹی اور ایلما کے ساتھ اور ون کترے تھیلما کے ساتھ۔ وہ اس کو کتھا کلی کے مدرے بتا رہا تھا۔ چڈہ ممی کو گود میں اٹھائے ادھر ادھر کود رہا تھا۔ سب نشے میں تھے۔ ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے چڈے نے نعرہ لگایا۔ اس کے بعد دیسی اور نیم بدیشی آوازوں کا ایک گولہ سا پھٹا جس کی گونج دیر تک کانوں میں سرسرارتی رہی۔ ممی بڑے تپاک سے ملی۔ ایسے تپاک سے جو بے تکلفی کی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس نے کہا

’’کس می ڈئر!‘‘

لیکن اس نے خود ہی میرا ایک گال چوم لیا اور گھسیٹ کرناچنے والوں کے جھرمٹ میں لے گئی۔ چڈہ ایک دم پکارا۔ بند کرو۔ اب شراب کا دور چلے گا۔ ‘‘

پھر اس نے نوکر کو آواز دی

’’اسکاٹ لینڈ کے شہزادے۔ وسکی کی نئی بوتل لاؤ۔ ‘‘

اسکاٹ لینڈ کاشہزادہ نئی بوتل لے آیا۔ نشے میں دھت تھا۔ بوتل کھولنے لگا تو ہاتھ سے گری اور چکنا چور ہو گئی۔ ممی نے اس کو ڈ انٹنا چاہا تو چڈے نے روک دیا اور کہا

’’ایک بوتل ٹوٹی ہے ممی۔ جانے دو، یہاں دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘

محفل ایک دم سونی ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی چڈے نے اس لمحاتی افسردگی کو اپنے قہقہوں سے درہم برہم کردیا۔ نئی بوتل آئی۔ ہر گلاس میں گرانڈیل پیگ ڈالا گیا۔ چڈے نے بے ربط سی تقریر شر وع ہوئی

’’لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ آپ سب جہنم میں جائیں۔ منٹو ہمارے درمیان موجود ہے۔ بزعم خود بہت بڑا افسانہ نگار بنتا ہے۔ انسانی نفسیات کی۔ وہ کیا کہتے ہیں عمیق ترین گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بکواس ہے۔ کنویں میں اترنے والے۔ کنوئیں میں اترنے والے‘‘

اس نے ادھر ادھر دیکھا

’’افسوس کہ یہاں کوئی ہندستوڑ نہیں۔ ایک حیدر آبادی ہے جو قاف کو خاف کہتا ہے اور جس سے دس برس پیچھے ملاقات ہوئی تو کہے گا، پرسوں آپ سے ملا تھا۔ لعنت ہو اس کے نظام حیدر آباد پر جس کے پاس کئی لاکھ ٹن سونا ہے۔ کروڑ ہا جواہرات ہیں، لیکن ایک ممی نہیں۔ ہاں۔ وہ کنوئیں میں اترنے والے۔ میں نے کیا کہا تھا کہ سب بکواس ہے۔ پنجابی میں جنھیں ٹوبہے کہتے ہیں۔ وہ غوطہ لگانے والے، وہ اس کے مقابلے میں انسانی نفسیات کو بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں۔ ‘‘

سب نے زندہ باد کا نعر لگایا۔ چڈہ چیخا

’’یہ سب سازش ہے۔ اس منٹو کی سازش ہے۔ ورنہ میں نے ہٹلر کی طرح تم لوگوں کو مردہ باہ کے نعرے کا اشارہ کیا تھا۔ تم سب مردہ باد۔ لیکن پہلے میں۔ میں۔ ‘‘

وہ جذباتی ہو گیا۔

’’میں۔ جس نے اس رات اس۔ سانپ کے پیٹ کے کھپروں ایسے رنگ والے بالوں کی ایک لڑکی کے لیے اپنی ممی کو ناراض کردیا۔ میں خود کو خدا معلوم کہاں کا ڈون جو آسان سمجھتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اس کو حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مجھے اپنی جوانی کی قسم۔ ایک ہی بوسے میں اس پلیٹنم بلونڈ کے کنوارپنے کا سارا عرق میں اپنے ان موٹے موٹے ہونٹوں سے چوس سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک۔ یہ ایک نامناسب حرکت تھی۔ وہ کم عمر تھی۔ اتنی کم عمر، اتنی کمزور، اتنی کیریکٹرلس۔ اتنی‘‘

اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’بتاؤ یار اسے اردو فارسی یا عربی میں کیا کہیں گے۔ کیریکٹر لس۔ لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ وہ اتنی چھوٹی، اتنی کمزور اور اتنی لاکردار تھی کہ اس رات گناہ میں شریک ہو کریا تو وہ ساری عمر پچھتاتی رہتی، یا اسے قطعاً بھول جاتی۔ ان چند گھڑیوں کی لذت کی یاد کے سہارے جینے کا سلیقہ اس کو قطعی طور پر نہ آتا۔ مجھے اس کا دکھ ہوتا۔ اچھا ہوا کہ ممی نے اسی وقت میرا حقہ پانی بند کردیا۔ میں اب اپنی بکواس بند کرتا ہوں۔ میں نے اصل میں ایک بہت لمبی چوڑی تقریر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر مجھ سے کچھ بولا نہیں جاتا۔ میں ایک پیگ اور پیتا ہوں۔ ‘‘

اس نے ایک پیگ اور پیا۔ تقریر کے دوران میں سب خاموش تھے۔ اس کے بعد بھی خاموش رہے۔ ممی نہ معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ غازے اور سرخی کی تہوں کے نیچے اس کی جھریاں بھی ایسا دکھائی دیتا تھا کہ غور و فکر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ بولنے کے بعد چڈہ جیسے خالی سا ہو گیا تھا۔ ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ جیسے کوئی چیز کھونے کے لیے ایسا کونہ ڈھونڈ رہا ہے جو اس کے ذہن میں اچھی طرح محفوظ ہے۔ میں نے اس سے ایک بار پوچھا۔

’’کیا بات ہے چڈے؟‘‘

اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا

’’کچھ نہیں۔ بات یہ ہے کہ آج وسکی میرے دماغ کے چوتڑوں پر جما کے لات نہیں مار رہی۔ ‘‘

اس کا قہقہہ کھوکھلا تھا۔ ون کترے نے تھلیما کو اٹھا کر مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنے باپ کی تعریف شروع کردی کہ وہ بڑا گُنی آدمی تھا۔ ایسا ہارمونیم بجاتا تھا کہ لوگ دم بخود ہو جاتے تھے۔ پھر اس نے اپنی بیوی کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور بتایا کہ بچپن ہی میں اس کے باپ نے یہ لڑکی چن کر اس سے بیاہ دی تھی۔ بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین کی بات نکلی تو اس نے کہا

’’مسٹر منٹو۔ وہ ایک دم ہلکٹ آدمی تھا۔ کہتا تھا میں خاں صاحب عبدالکریم خاں کا شاگرد ہوں۔ جھوٹ، بالکل جھوٹ۔ وہ تو بنگال کے کسی بھڑوے کا شاگرد تھا۔ ‘‘

گھڑی نے دو بجائے۔ چڈے نے جسٹربگ بند کیا۔ کٹی کو دھکا دے کر ایک طرف گرایا اور بڑھ کر ون کترے کے کدو ایسے سر پر دھپا مار کر

’’بکواس بند کر بے۔ اٹھ۔ اور کچھ گا۔ لیکن خبردار اگر تو نے کوئی پکا راگ گایا۔ ‘‘

ون کترے نے فوراً گانا شروع کردیا۔ آواز اچھی نہیں تھی۔ مُرکیوں کی نوک پلک واضح طور پر اس کے گلے سے نہیں نکلتی تھی۔ لیکن جو کچھ گاتا تھا، پورے خلوص سے گاتا تھا۔ مالکوس میں اس نے اوپر تلے دو تین فلمی گانے سنائے جن سے فضا بہت اداس ہو گئی، ممی اور چڈہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور نظریں کسی اورسمٹ ہٹا لیتے تھے۔ غریب نواز اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ چڈے نے زور کا قہقہہ بلند کیا اور کہا

’’حیدر آباد والوں کی آنکھ کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ موقع بے موقع ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘

غریب نواز نے اپنے آنسو پونچھے اور ایلما کے ساتھ ناچنا شروع کردیا۔ ون کترے نے گراموفون کے توے پر رکارڈ رکھ کر سوئی لگا دی۔ گھسی ہوئی ٹیون بجنے لگی۔ کڈے نے ممی کو پھر گود میں اٹھا لیا اور کود کود کر شورمچانے لگا۔ اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔ ان میراثیوں کی طرح جو شادی بیاہ کے موقعوں پر اونچے سروں میں گا گا کر اپنی آواز کا ناس مار لیتی ہیں۔ اس اچھل کود اور چیخم دھاڑ میں چار بج گئے۔ ممی ایک دم خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے چڈے سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’بس، اب ختم!‘‘

چڈے نے بوتل سے منہ لگایا، اسے خالی کرکے ایک طرف پھینک دیااور مجھ سے کہا۔

’’چلو منٹو چلیں!‘‘

میں نے اٹھ کر ممی سے اجازت لینی چاہی کہ چڈے نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔

’’آج کوئی الوداع نہیں کہے گا!‘‘

ہم دونوں باہر نکل رہے تھے کہ میں نے ون کترے کے رونے کی آواز سنی۔ میں نے چڈے سے کہا۔

’’ٹھہرو، دیکھیں کیا بات ہے، ‘‘

مگر وہ مجھے دھکیل کر آگے لے گیا۔

’’اس سالے کی آنکھوں کا مثانہ بھی خراب ہے۔ ‘‘

ممی کے گھر سے سعیدہ کاٹیج بالکل نزدیک تھی۔ راستے میں چڈے نے کوئی بات نہ کی۔ سونے سے پہلے میں نے اس سے اس عجیب و غریب پارٹی کے متعلق استفسارکرنا چاہا تو اس نے کہا

’’مجھے سخت نیند آرہی ہے‘‘

اور بستر پر لیٹ گیا۔ صبح اٹھ کر میں غسل خانے میں گیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ غریب نواز گراج کے ٹاٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اور رو رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آنسو پونچھتا وہاں سے ہٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا

’’ممی چلی گئی!‘‘

’’کہاں!‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

یہ کہہ کر غریب نواز نے سڑک کا رخ کیا۔ چڈہ بستر پرلیٹا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ میں نے اس سے ممی کے بارے میں پوچھا تو اس نے مسکرا کر کہا

’’چلی گئی۔ صبح کی گاڑی سے اسے پونہ چھوڑنا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’مگر کیوں؟‘‘

چڈے کے لہجے میں تلخی آگئی

’’حکومت کو اس کی ادائیں پسند نہیں تھیں۔ اس کی وضع قطع پسند نہیں تھی۔ اس کے گھر کی محفلیں اس کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ اس لیے کہ پولیس اس کی شفقت اور محبت بطور یرغمال کے لینا چاہتی تھی۔ وہ اسے ماں کہہ کر ایک دلالہ کا کام لینا چاہتے تھے۔ ایک عرصے سے اس کا ایک کیس زیر تفتیش تھا۔ آخر حکومت پولیس کی تحقیقات سے مطمئن ہو گئی اور اس کو تڑی پار کردیا۔ شہر بدر کردیا۔ وہ اگر قحبہ تھی۔ دلالہ تھی۔ اس کا وجود سوسائٹی کے لیے مہلک تھا تو اس کا خاتمہ کردینا چاہیے تھا۔ پونے کی غلاظت سے یہ کیوں کہا گیا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔ اور جہاں چاہو ڈھیر ہو سکتی ہو۔ چڈے نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے بڑے جذبات بھرے لہجے میں کہا

’’مجھے افسوس ہے منٹو کہ اس غلاظت کے ساتھ ایک ایسی پاکیزگی چلی گئی ہے جس نے اس رات میری ایک بڑی غلط اور نجس ترنگ کو میرے دل و دماغ سے دھو ڈالا۔ لیکن مجھے افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پُونے سے چلی گئی ہے۔ مجھے ایسے جوانوں میں ایسی نجس اور غلط ترنگیں وہاں بھی پیدا ہوں گی جہاں وہ اپنا گھر بنائے گی۔ میں اپنی ممی ان کے سپرد کرتا ہوں۔ زندہ باد ممی۔ زندہ باد!۔ چلو غریب نواز کو ڈھونڈیں۔ رو رو کر اس نے اپنی جان ہلکان کرلی ہو گی۔ ان حیدر آبادیوں کی آنکھوں کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ وقت بے وقت ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘

میں نے دیکھا، چڈے کی آنکھوں میں آنسو اس طرح تیر رہے تھے جس طرح مقتولوں کی لاشیں۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو