- Advertisement -

موتری

ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو

موتری

کانگرس ہاؤس اور جناح ہال سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک پیشاب گاہ ہے جسے بمبئی میں

’’موتری‘‘

کہتے ہیں۔ آس پاس کے محلوں کی ساری غلاظت اس تعفن بھری کوٹھڑی کے باہر ڈھیریوں کی صورت میں پڑی رہتی ہے۔ اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ آدمیوں کو ناک پر رومال رکھ کر بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس موتری میں دفعہ اسے مجبوراً جانا پڑا۔ پیشاب کرنے کے لیے ناک پررومال رکھ کر، سانس بند کرکے، وہ بدبوؤں کے اس مسکن میں داخل ہوا فرش پر غلاظت بلبلے بن کر پھٹ رہی تھی۔ دیواروں پر اعضائے تناسل کی مہیب تصویریں بنی تھیں۔ سامنے کوئلے کے ساتھ کسی نے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:۔

’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

ان الفاظ نے بدبو کی شدت اور بھی زیادہ کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔ جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں پر گورنمنٹ کا قبضہ ہے۔ لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے، اسی طرح آزاد ہے۔ اپنی غلاظتیں اور عفونتیں پھیلانے کے لیے۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب کچھ زیادہ ہی ڈھیریوں کی صورت میں باہر پڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایک بار پھر اسے مجبوراً اس موتری میں جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ پیشاب کرنے کے لیے۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ بدبوؤں کے اس گھر میں داخل ہوا۔ فرش پر پتلے پاخانے کی پپڑیاں جم رہی تھیں۔ دیواروں پر انسان کے اولاد پیدا کرنے والے اعضا کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا۔

’’مسلمان کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

کے نیچے کسی نے موٹی پنسل سے یہ گھناؤنے الفاظ تحریر کیے ہوئے تھے۔

’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘

اس تحریر نے موتری کی بدبو میں ایک تیزابی کیفیت پیدا کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔ مہاتما گاندھی کی غیر مشروط رہائی ہوئی۔ جناح کو پنجاب میں شکست ہوئی۔ جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں کو شکست ہوئی نہ رہائی۔ ان پر گورنمنٹ کا اور اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے اس پر بدبو کا قبضہ جاری رہا۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب ایک ڈھیر کی صورت میں باہر پڑا رہتا ہے۔ تیسری بار پھر اسے اس موتری میں جانا پڑا۔ پیشاب کرنے کے لیے نہیں۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ غلاظتوں کی اس کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ فرش پر کیڑے چل رہے تھے۔ دیواروں پر انسان کے شرمناک حصوں کی نقاشی کرنے کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔

’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

اور

’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘

کے الفاظ مدھم پڑ گئے تھے۔ مگر ان کے نیچے سفید چاک سے لکھے ہوئے یہ الفاظ ابھر رہے تھے۔

’’دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا‘‘

ان الفاظ نے ایک لحظے کے لیے موتری کی بدبو غائب کردی۔ وہ جب آہستہ آہستہ باہر نکلا تو اسے یوں لگا کہ اسے بدبوؤں کے اس گھر میں ایک بے نام سی مہک آئی تھی۔ صرف ایک لحظے کے لیے۔
سن تصنیف 1945ء

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
پروین شاکر کی ایک اردو نظم