میر صاحب کا زندہ عجائب گھر
شمس الرحمن فاروقی کی اردو تحریر
محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔ واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا،
’’میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا۔ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گذر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں، کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔
ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا، ’’ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ میر صاحب بولے، ’’کیا ادھر باغ بھی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپ ہو رہے۔
کیا محویت ہے! کئی برس گذر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر۔ ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گذر گئے، آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘
اس بیان کے داخلی تضادات کو دیکھتے ہوئے شاید ہی کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو کہ یہ واقعہ محض سنی سنائی گپ پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے جن دو تذکروں پر کثرت سے بھروسا کیا ہے، ان میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ میری مراد قدرت اللہ قاسم کے ’’مجموعۂ نعز‘‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ سے ہے۔ لیکن ’’آب حیات‘‘ کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور آج تک میر کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ وہ مردم بیزار نہیں تو دنیا بیزار ضرور تھے۔
دنیا اور علائق دنیا سے انھیں کچھ علاقہ نہ تھا، اپنے کلبۂ احزاں میں پڑے رہنا، دل شکستہ کے اوراق کی تدوین کرنا اور اپنی غزلوں کے ’’پھٹے پرانے مسودے‘‘ مجمتمع کرتے رہنا گویا ان کا وظیفۂ حیات تھا۔ اگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان کردہ واقعہ فرضی ہے تو اغلب ہے کہ اس کی بنیاد میر کے حسب ذیل شعر پر قائم کی گئی ہوگی۔ دیوان پنجم میں میر کہتے ہیں،
سرولب جولالہ و گل نسرین وسمن ہیں شگوفہ ہے
دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا
ملحوظ رہے کہ میر کا دیوان پنجم 1800 کے آس پاس تیار ہوا تھا، یعنی جب وہ لکھنؤ میں تھے۔ اس لحاظ سے بھی یہ مفروضہ کچھ قوی ہو جاتا ہے کہ ’’میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔‘‘ والی روایت کی تعمیر میں اس شعر کو بھی دخل ہوگا۔ لیکن لطف یہ ہے کہ اغلباً لکھنؤ ہی میں مرتب شدہ دیوان چہارم میں میر یہ بھی کہہ چکے تھے،
کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میر جگر کے لختوں سے
کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصال نہیں
یہ بات ظاہر ہے کہ ’’پارہ دوزی‘‘ اور ’’وصال‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے والا کوئی گھر گھسنا، رونا بسورتا شخص نہ ہوگا، بلکہ مختلف طبقوں اور پیشوں کے لوگوں سے واقفیت رکھتا ہوگا اور وہ بھی ایسی کہ انھیں شعر میں بحسن وخوبی استعمال بھی کر سکتا ہوگا۔ لفظ ’’پارہ دوز‘‘ کا استعمال، جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، امیر مینائی کے بعد کسی نے نہیں کیا، اور امیر مینائی نے بھی بالکل میر کا مضمون باندھا اور نہایت کمزور کر کے باندھا،
پارہ دوزی کی دکاں ہے کہ مرا سینہ
ڈھیر ہیں لخت دل ولخت جگر کے ٹکڑے
(گوہر انتخاب، مطبوعہ 1873، ص، 58)
اور لفظ ’’وصال‘‘ کا یہ عالم ہے کہ آصفیہ، نور، اور پلیٹس، تینوں اس سے خالی ہیں۔
اشیا کے ناموں اور ان کے متعلق باتوں کا ذکر ہمارے یہاں نظیر، میر، اور اکبر الہ آبادی کے یہاں سب سے زیادہ ملتا ہے۔ اکبر الہ آبادی کا معاملہ سب سے زیادہ منفرد ہے کیونکہ انھوں نے روز مرہ کی باتوں اور اشیا کو، اور خاص کر نئی اشیا کو شعر کا نہ صرف حصہ بنایا بلکہ انھیں نئی، علامتی معنویت بھی عطا کی۔ انجن، ریل، برگڈ (Brigade) یعنی انگریزوں کے وفادار لوگ، کمپ (Camp) یعنی مغربی طرز معاشرت، کونسل، ممبر، پتلون، دھوتی، تہمد، اور پھر عام لوگوں کے نام جو بطور اشارہ استعمال ہو سکتے تھے، مثلا بدھو، جمن، اور القاب، مثلاً شیخ، صاحب، پنڈت، اور نئے مضامین، مثلاً واٹر ٹیکس (Water Tax)، پانی کا نل، پارک، اسکول، رات کی رکھی ہوئی روٹی، وغیرہ سیکڑوں نئی یا اجنبی اشیا اور ان کے متعلقات کے ساتھ معاملہ کرنا ہمیں اکبر ہی نے سکھایا۔
ظاہر ہے کہ اکبر کا زیادہ تر سروکار سیاسی اور سماجی معاملات سے تھا اور ان کے یہاں نئے الفاظ اور اصطلاحیں اسی سروکار کو ظاہر اور پختہ کرنے کے لئے آئی ہیں۔ اکبر کے برخلاف، نظیر اکبر آبادی کو عام زندگی، خاص کر عام شہری زندگی کے عام ہی لوگوں سے دلچسپی تھی۔ ان کے یہاں اشیا کی کثرت کچھ تو محض زور بیان اور خطیبانہ طرز کے لطف کی خاطر ہے، یا پھر زندگی کے ظاہری پہلوؤں، انسانوں کے ظاہری طور طریقوں سے دلچسپی کے باعث ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے کلام میں الفاظ کے بیجا صرف یا غیرضروری صرف کے باعث اشیا کی کثرت کوئی خاص معنی نہیں حاصل کرتی۔ کثرت، صرف کثرت بن کر رہ جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر، نظیر کے یہاں کثرت تو ہے لیکن تنوع نہیں۔ جوش صاحب کو نظیر کا کلام بہت پسند تھا اور ممکن ہے جوش صاحب کے یہاں الفاظ کی بیجا کثرت میں کچھ نظیر اکبر آبادی کی بھی تاثیر شامل ہو۔
میر کا معاملہ نظیر اور اکبر دونوں سے الگ ہے۔ یہ تو ہے ہی کہ میر نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غزلوں میں تازہ الفاظ استعمال کئے ہیں اور ان کے یہاں اشیا کی بھی فراوانی ہے۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ فراوانی کثرت معنی کے لئے بھی کام آتی ہے اور لفظے کہ تازہ است بہ مضموں برابر است کا بھی حکم رکھتی ہے۔ اکبر کے یہاں جس طرح کے الفاظ کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے، ان میں استعاراتی رنگ ہے اور کثرت استعمال کے باعث ان میں سے بعض میں علامتی رنگ بھی آ گیا ہے، مثلاً لفظ ’’توپ‘‘ کو وہ اپنے عام معنی سے مختلف اور پورے انگریزی طرز حکومت کے اقتدار کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
’’کمپ‘‘ (Camp) میں بھی یہی کیفیت ہے لیکن کم۔ میر کے یہاں غزلوں میں نئے الفاظ اور اشیا، زندگی گذارنے کے طور کو بیان کرنے کے لئے بکار لائے گئے ہیں اور ان میں جانور اور انسان دونوں شامل ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں۔ یہ میں نے دیوان چہارم سے یوں ہی ایک ورق کھول کر حاصل کئے ہیں،
گھاس ہے مے خانے کی بہتر ان شیخوں کے مصلے سے
پاؤں نہ رکھ سجا دے پہ ان کے اس جادے سے راہ نہ کر
کل سے دل کی کل بگڑی ہے جی مارا بیکل ہوکر
آج لہو آنکھوں میں آیا درد وغم سے رو روکر
چھاتی جلی ہے کیسی اڑتی جو یہ سنی ہے
واں مرغ نامہ بر کا کھایا کباب کر کر
سبد پھولوں بھرے بازار میں آئے ہیں موسم میں
نکل کر گوشۂ مسجد سے تو بھی میر سودا کر
میرے ہی خوں میں ان نے تیغہ نہیں سلایا
سویا ہے اژدہا یہ بہتیرے مجھ سے کھا کر
آپ غور فرمائیں کہ محض دو صفحوں کو سرسری دیکھنے پر یہ لفظ ہاتھ آئے ہیں، گھاس، کل (بمعنی مشین)، مرغ کے کباب، بازار میں پھولوں بھرے سبد، تیغہ، اژدہا جو اپنے شکار کو کھا کر غنودگی کے عالم میں ہے۔ اس بات کو الگ رکھئے کہ کسی بھی غزل گو کے یہاں صرف دو صفحوں کے اندر اس طرح کے الفاظ اتنی تعداد میں نہ ملیں گے۔ آپ ان کے اقسام پر غور کیجئے،
نباتات (گھاس، پھول)
غیر انسانی اشیا (کل، پھولوں کی ٹوکریاں، تیغہ)
جانور (مرغ، اژدہا)
اجتماعی جگہیں (مے خانہ، مسجد، بازار)
خوردنی اشیا (کباب)
ہم لوگ عام طور پر میر کے کلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ چہل پہل اور متحرک زندگی سے بھرا پرا کلام ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ایک وجہ اشیا کی فراوانی بھی ہے۔ کرشن چندر نے منٹو کے بارے میں لکھا ہے، ’’منٹوز مین کے بہت قریب ہے، اس قدر قریب کہ اکثر گھاس کے خوشے میں رینگنے والے کیڑے بھی اپنے تمام اوصاف کے ساتھ اسے نظر آ جاتے ہیں۔‘‘ غور کیجئے کہ میر کے سوا اور کس اردو شاعر کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے؟
یہاں تک تو غزلوں کا نہایت مختصر ذکر تھا، لیکن میر کی یہ صفت صرف غزلوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ مثنویوں اور دیگر منظومات میں بھی یہی انداز ملتا ہے اور نہایت تنوع اور رنگارنگی کے ساتھ۔ خصوصاً جانوروں، ماحول کے تنوع اور نامانوس لیکن نہایت معنی خیز الفاظ کی کثرت نے میر کے کلام کو تمام اردو شاعری، بلکہ فارسی شاعری میں بھی ممتاز کر دیا ہے۔
میر کی غزلوں کی شہرت نے ان کی عشقیہ مثنویوں کو دبا لیا ہے اور عشقیہ مثنویوں کی شہرت نے ان کی ہجوؤں اور مختلف طرح کی خودنوشتی یا گھریلو نظموں کو تو بالکل ہی کنج خمول میں ڈال دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کلام ملتا نہیں ہے۔ بہت اچھے ایڈیشنوں میں نہ سہی، لیکن میر کا رثائی کلام بھی ملتا ہے اور مثنویوں، ہجوؤں وغیرہ کو تو کوئی شخص کہیں بھی حاصل کر سکتا ہے۔ بہر حال، کوشش کی گئی ہے کہ میر کا سارا معلوم کلام ممکن حد تک صحیح صورت میں قومی کونسل براے فروغ اردو کی شائع کردہ کلیات میر کی جلد اول اور جلد دوم میں سامنے آ جائے اور متد اول رہے۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ میر نے جانوروں پر، یا جانوروں کے بارے میں کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ ان میں ’’اژدرنامہ‘‘ اس وقت سے مشہور ہے جب محمد حسین آزاد نے اس کا ذکر کیا، کہ میر نے اس مثنوی میں خود کو اژدہا اور دوسرے تمام شعرا کو حشرات الارض فرض کیا ہے۔ مولانا آزاد نے اس باب میں جو روایت ’’آب حیات‘‘ میں درج کی ہے وہ قدرت اللہ قاسم کے تذکرے ’’مجموعۂ نغز‘‘ کی متلعقہ عبارت کا تقریباً ترجمہ ہے۔ لہٰذا میں آزاد ہی کی عبارت نقل کرتا ہوں،
’’دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعراے عصر میں کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کنکھجورا، وغیرہ وغیرہ ٹھیرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدہا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہوکر اس سے لڑنے گئے۔ جب سامنا ہوا تو اژدہے نے ایسا دم بھرا کہ سب فنا ہو گئے۔ اس قصیدے (کذا) کا نام جگرنامہ (کذا) قرار دیا اور مشاعرے میں لاکر پڑھا۔ محمد امام نثار، شاہ حاتم کے شاگردوں میں ایک مشاق موزوں طبع تھے۔ انھوں نے وہیں ایک گوشے میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اسی وقت سر مشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی یہ بات کسی کو پسند نہ آئی تھی، اس لئے قطعے پر خوب قہقہے اڑے اور بڑی واہ واہ ہوئی۔ اور میر صاحب پر جو گذرنی تھی سو گذری۔ چنانچہ مقطع قطعۂ مذکور کا یہ ہے،
حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثار
ایک دم میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کر۔‘‘
قدرت اللہ قاسم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مثنوی، ’’بلکہ اس کے کہنے والے [میر] پر فی الحقیقت صد ہزار نفرین تھی۔‘‘ مولانا آزاد نے اس بات کو ذرا نرم کر کے لکھا ہے اور یہ میر پر ان کی مہربانی ہی کہی جائےگی۔ لیکن ظلم انھوں نے یہ کیا ہے کہ ’’اژدرنامہ‘‘ کو شاید خود انھوں نے پڑھا نہیں۔ اس کا نام وہ ’’اجگر نامہ‘‘ لکھتے ہیں اور ایک ہی سانس میں اسے مثنوی اور پھر قصیدہ بتاتے ہیں۔ بہر حال عام تاثر یہی ہے کہ ’’اژدرنامہ‘‘ میر کی بدمذاقی اور ان کے یہاں حس مزاح کی کمی کا پکا ثبوت نہیں تو خام نمونہ ضرور ہے۔
خیر، میر کی حس مزاح تو غالب سے بھی بڑھ کر تھی، لیکن اس باب میں بھی ان کی شہرت یہی ہے کہ بقول مولوی عبدالحق یا مجنوں گورکھپوری، میر کو گریہ وزاری کے سوا کوئی فن آتا ہی نہ تھا۔ اب رہی بدمذاقی، تو اٹھاون (58) شعروں کی اس مثنوی میں میر نے بہت سے بہت پندرہ شعر ہجویہ لکھے ہیں اور کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مثنوی کے اختتام میں وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ’’گزندے‘‘ ہیں اور میرا مقابلہ نہیں کر سکتے اور مجھے ان لوگوں کی داد مطلوب نہیں، میں ان سب سے الگ رہتا ہوں۔ میں سب سے آخری تین شعر نقل کرتا ہوں،
تو کیا ہو انھوں سے بہت دور میں
ہوں اپنی جگہ شاد ومسرور میں
مری قدر کیا ان کے کچھ ہاتھ ہے
جو رتبہ ہے میرا مرے ساتھ ہے
کہاں پہنچیں مجھ تک یہ کیڑے حقیر
گیا سانپ پیٹا کریں اب لکیر
لہٰذا پہلی بات تو یہ کہ اس نظم میں مدعیا نہ قسم کی محض ہجو نہیں لکھی گئی ہے۔ میر نے اپنے معاصروں کو چھوڑ کر گوشہ گیر ہو جانے کی بات بھی کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنا مرتبہ خود جانتا ہوں، کسی کی رسائی اس تک نہیں ہو سکتی۔ ان مضامین میں بدمذاقی نہیں، اپنے غم واندوہ کی طرف اشارہ، دوسروں سے بیزاری، معاصروں کے استخفاف، اور اپنی بڑائی کے پہلو ضرور ہیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں جسے خاص میر کا قصور ٹھہرایا جائے۔ نئی بات تو یہ ہے کہ پوری مثنوی جانوروں کے نام اور ان کے عادات و خواص کے ذکر سے بھری ہوئی ہے، بلکہ لگتا ہے کہ یہ مثنوی لکھی ہی اس لئے گئی تھی کہ انھیں باتوں کو نظم کیا جائے۔ چند شعر دیکھئے،
کہاں چھپکلی اژدہے سے لڑی
کس اژدر پہ ایسی قیامت پڑی
ہزار اجگر اندوہ سے جائے لٹ
ولے ایسے کیڑے مکوڑے ہیں چٹ
جہاں شور اژدر سے ہے دھوم دھام
کوئی کن سلائی سے نکلے ہے کام
کہ تھا دشت میں ایک اژدر مقیم
درندوں کے بھی دل تھے اس سے دو نیم
نکلتے نہ تھے اس طرف ہو کے شیر
پلنگ ونمر، واں نہ رہتے تھے دیر
جہاں شیر کا زہرہ ہوتا ہو آب
شغال اور روبہ کا واں کیا حساب
گئے جان لے لے وحوش وطیور
کوئی رہ گیا موش ومینڈک سا دور
گئی لومڑی ایک سوکھی ہوئی
کسی اور جنگل میں بھوکھی ہوئی
خراطین و خرموش و موش وشغال
اس اژدر کو کر جنس اپنی خیال
وہ گرگٹ کہ جس میں تھی گردن کشی
ہوئی خوف سے اس پہ طاری غشی
قدم غوک سے گرد کا جل گیا
بھروسا تھا گیدڑ پہ سو ٹل گیا
ایک سرسری گنتی کے مطابق (مکررات کو چھوڑ کر) میر نے اس نظم میں تیس (30) جانوروں کے نام لئے ہیں۔ چونکہ ’’اژدرنامہ‘‘ کا مرکزی کردار (یا مرکزی جانور) اژدہا ہے، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ’’مورنامہ‘‘ کے بھی کچھ شعر دیکھ لئے جائیں کہ اس مثنوی میں بھی اژدہوں کا ذکر بہت ہے۔
’’مورنامہ‘‘ اپنی طرح کی انوکھی داستان یوں بھی ہے کہ اس میں ایک مور اور ایک رانی کے عشق کا بیان ہے۔ جانوروں اور ننھی منی اشیا سے میر کو کس قدر دلچسپی ہے، اس کے ثبوت میں پہلے تو اس بات کو ملحوظ رکھئے کہ میر اس امکان کے قائل ہیں کہ اگر انسان کو جانور سے محبت ہو سکتی ہے توجانور کو بھی انسان سے محبت ہو سکتی ہے اور یہ محبت اس طرز وطور کی ہے جسے انسانوں کی زبان میں ’’عشق‘‘ کہتے ہیں۔ بہر حال، مور اور رانی کے باہمی انس یا عشق کا راز عام ہو جاتا ہے تو راجا کو بھی اس کی خبر لگتی ہے اور مور اچانک پر اسرار طور پر غائب ہو جاتا ہے اور بالآخر ایک دشت ہولناک میں جا رہتا ہے۔ کچھ منتخب شعر ملاحظہ ہوں،
راہ میں ان سب کو یہ آئی خبر
جس بیاباں میں ہے وہ تفتہ جگر
خار کا جنگل نہیں ہے دشت مار
روز روشن میں بھی ہے تیرہ وتار
دم کش اژدر نکلے ہے گر سیر کو
دور سے کھینچے ہے وحش و طیر کو
جلتے ہیں آتش زبانی سے بہت
پتلے ہو جاتے ہیں پانی سے بہت
ہے عجب ماروں میں مور آکر رہے
مار بھی پھر کیسے اژدر اژدہے
مرغ کر جاتے ہیں مرغ انداز دس
کیا کریں اک مور کے کھانے سے بس
(مرغ انداز کرنا = گھونٹ جانا)
ہے زمانے سے بھی دھیمی ان کی چال
جن سے ہیں کیڑے مکوڑے پائمال
جیب کو اپنی گزوں تک دیں ہیں طول
خشت وسنگ وخاک تک کھاویں اکول
ہر قدم خطرہ کہ ہیں شیر وپلنگ
اس پہ سر ماریں کہ رہ پر خار وسنگ
ہاتھی ارنے خوک کی واں باش وبود
کرگدن کی دھوم سے اکثر نمود
جنگ حیوانات سے ہے بیش تر
ہیں طرف اژدر نمر شیراں شتر
آئے ہاتھی بھی اتر گر کوہ سے
ہو سکےگا پھر نہ کچھ انبوہ سے
ہو گیا باراہ سد راہ گر
لیویں گے جا کر نفر راہ دگر
(باراہ=جنگلی خنزیر)
ہو اگر جاموش دشتی سے مصاف
تو کوئی دم ہی کو ہے میدان صاف
ہو گئی گر خرس سے استادگی
درمیاں آ جائےگی افتادگی
منہ اگر گرگ بغل زن آ گیا
دیکھیو پیٹھ اک جہاں دکھلا گیا
پوری مثنوی میں جانوروں کے ناموں اور آگ اور موت کے متعلق پیکر ہیں، وہ بھی اس طرح، کہ رعایتوں اور مناسبتوں کا بھی ایک جنگل سا بنا دیا ہے۔ اوپر کے اشعار سے قطع نظر کر کے نظم کے آخری حصے سے کچھ متفرق شعر نقل کرتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جانوروں سے شدید محبت اور شغف اور ان کی تفصیلات سے دلچسپی کے بغیر ’’باراہ‘‘ جیسا لفظ میر جیسے بڑے شاعر کو بھی نصیب نہ ہوتا۔ سری وشنو جی کا ایک روپ جنگلی سور کا ہے۔ چونکہ سنسکرت میں سور کو varaha کہتے ہیں، اس لئے وشنو جی کا ایک نام varahamira بھی ہے اور اس روپ میں ان کی صفت شفائے امراض ہے۔ میر نے کہیں سے varaha سنااور اسے ’’باراہ‘‘ میں بدل دیا۔
یہ لفظ ’’لغت نامۂ دہخدا‘‘ میں ہے، لیکن وہاں اس کے معنی غلط لکھے ہیں، اور ’’دہخدا‘‘ کا وجود میر کے زمانے میں نہ تھا۔ ’’باراہ‘‘ انھوں نے جہاں سے بھی دریافت کیا ہو، اسے اعجاز سخن گوئی ہی کہیں گے۔ اسی طرح، ’’مرغ انداز کرنا‘‘ یعنی بے چبائے ہوئے لقمہ گھونٹ جانا بھی طرفہ پیکر ہے کہ محاورے کا محاورہ ہے، رعایت کی رعایت، اور ’’مرغ‘‘ اور ’’مرغ انداز‘‘ کا ایہام اس پر مستزاد۔
اس جملۂ معترضہ کے بعد ہم ’’مورنامہ‘‘ کے کچھ اور اشعار نقل کرتے ہیں جن میں رعایت اور مناسبت کی بہت لطیف کارفرمائی ہے اور آسانی سے نظر نہیں آتی،
جدول ان کی تیغ کی جاری رہے
ان کی تر دستی سے وہ عاری رہے
’’جدول‘‘ بمعنی ’’نہر‘‘ (تلوار کی آب کی مناسبت سے اسے جدول کہتے ہیں)، ’’جدول‘‘ کی مناسبت سے ’’جاری‘‘ اور ’’جاری‘‘ کی مناسبت سے ’’تردستی‘‘ اور پھر ’’تیغ‘‘ کی مناسبت سے ’’عاری [آری]‘‘ کہ جب تلوار کی دھار میں دندانے پڑ جاتے ہیں تو کہتے ہیں، ’’تلوار آری ہو گئی۔‘‘
آگ پھیلی ان بنوں میں دور تک
جل گئے حیواں کئی لنگور تک
لنگور کو ہنومان جی کی اولاد کہتے ہیں اور ہنومان جی نے تو لنکا پھونک دی تھی لیکن خود ان پر آگ نے صرف اتنا اثر کیا تھا کہ ان کا منہ جھلس گیا تھا۔ لہٰذا یہاں لنگوروں کے جل جانے میں مزید لطف اور لطافت ہے۔
یعنی رانی نے سنی جو یہ خبر
آتش غم سے جلا اس کا جگر
کھینچ آہ سرد یہ کہنے لگی
عشق کی بھی آگ کیا بہنے لگی
بن جلا کر بستیوں میں آ لگی
پھیل کر یاں دل جگر کو جا لگی
آتش غم اور آہ سرد اور عشق کی آگ کے لئے ’’بہنا‘‘ کا لفظ استعمال کرنا پر لطف ہے، کہ کیا آگ پانی طرح بہتی ہے جو جنگل سے بستیوں تک آ گئی۔ ’’لگی‘‘ خود آگ کے لئے روزمرہ ہے، چنانچہ کہتے ہیں، ’’لگی بجھانا‘ اور ’’آ لگنا‘‘ کی مناسبت سے ’’بہنا‘‘ اور ’’پھیلنا‘‘ کس قدر خوب ہیں۔
میر کا کلام اس قدر متنوع ہے کہ اس میں ’’مورنامہ‘‘ کوئی انوکھی مثنوی نہیں ہے۔ لیکن اس کی شاعرانہ نزاکتوں سے قطع نظر بھی کیجئے (کیونکہ وہ میر کے تمام کلام میں موجود ہیں) تو دو بنیادی باتیں نظر آتی ہیں۔ ایک کا ذکر میں پہلے ہی کر چکا ہوں، یعنی تمام طرح کے جانوروں اور عام اشیا سے میر کی غیر معمولی دلچسپی اور دوسری بات یہ کہ میر کی نظر میں جانور بھی انسانوں کی کئی صفات سے متصف ہیں۔ یعنی جانوروں میں نزاکت طبع، شائستگی اور جرأت کردار بھی ہے اور وہ جذبہ اور احساس کی دولت سے بھی مالامال ہیں۔ یعنی بات صرف اتنی نہیں کہ عشق کی آگ میں سب کھپ جاتے، جیسا کہ میر نے ’’مورنامہ‘‘ کے خاتمۂ کلام میں کہا ہے،
عشق سے کیا میر اتنی گفت و گو
خاک اڑا دی عشق نے چار سو
طائر و طاؤس وحیواں اژدہے
سب کھپے کیا عشق کی کوئی کہے
سرسری طور پر میر کا ’’مورنامہ‘‘ ہمیں شاید نظیر اکبر آبادی کے ’’قصۂ ہنس‘‘ کی یاد دلا سکتا ہے۔ ’’قصۂ ہنس‘‘ میں تمام چڑیاں ایک نو آمدہ ہنس پر عاشق ہو جاتی ہیں۔ نظیر نے چڑیوں کے نام اس کثرت سے جمع کئے ہیں کہ خیال ہوتا ہے جرأت کو اپنے شہر آشوب میں استعمال کرنے کے لئے یہ ترکیب یہیں سے ذہن میں آئی ہوگی۔ لیکن نظیر کی فہرست بھی جرأت کی طرح فہرست ہی ہے، اس سے کوئی معنوی بعد نہیں پیدا ہوتا۔ اور ہنس دراصل روح انسانی کی تمثیل ہے کہ جب ہنس اپنے مرجع کو واپس جاتا ہے تو کچھ دیر تو اس کی چاہنے والی چڑیاں اس کے ساتھ چلنے کا دعویٰ رکھتی ہیں، پھر فانی کے مصرعے کے مصداق تھک تھک کر اس راہ میں آخر ایک اک ساتھی چھوٹ گیا۔ ’’قصۂ ہنس‘‘ کے آخری دو بند ہیں،
تھی اس کی محبت کی جو ہر ایک نے پی مے
سمجھے تھے بہت دل میں وہ الفت کو بڑی شے
جب ہو گئے بے بس تو پھر آخر یہ ہوئی رے
چیلیں رہیں کوے گرے اور باز بھی تھک گئے
اس پہلی ہی منزل میں کیا سب نے کنارہ
دنیا کی جو الفت ہے تو اس کی ہے کچھ راہ
جب شکل یہ ہووے تو بھلا کیوں کے ہو نرباہ
ناچاری ہو جس میں تو وہاں کیجئے کیا چاہ
سب رہ گئے جو ساتھ کے ساتھی تھے نظیر آہ
آخر کے تئیں ہنس اکیلا ہی سدھارا
نظیر کی نظم میں وہ سب خوبیاں اور عیب ہیں جو نظیر کا خاصہ ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ان کے جانور یا تو جانور ہیں یا تمثیلیں ہیں، ان میں نہ پورا جانور پن ہے نہ پورا انسان پن۔ اور دوسری بات یہ کہ ہنس پر عاشق ہونے والے سب اس کے ہم جنس ہیں۔ ’’مورنامہ‘‘ ایک رانی [یعنی ایک انسان [اور ایک مور [یعنی ایک حیوان] کے عشق کی داستان ہے اور بالآخر دونوں جل مرتے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت دونوں میں المیہ کی شان ہے جس کے سامنے نظیر کی تمثیل پھیکی معلوم ہوتی ہے۔
میر کی نظر میں جانور اور اجناس و اشیا سب قابل ذکر ہیں۔ اس بات کی تفصیل کے لئے ہمیں کچھ مثنویاں اور دیکھنی ہوں گی۔ مثلاً عنوان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’کپی کا بچہ‘‘ نظیر اکبر آبادی کے طرز کی نظم ہوگی۔ لیکن میر کے یہاں بندر کا بچہ کم وبیش انسان نظر آتا ہے،
اس کے پردادا نے یہ حرف دی
ایک دم لابہ میں لنکا پھونک دی
(دی=گذشتہ پچھلا دن، دیروز)
ایک چنچل ہے بلاے روزگار
ہاتھ رہ جائے تو پا سرگرم کار
ہے تو بچہ سا ولیکن دور ہے
پست اس کی جست کا لنگور ہے
کیا کوئی انداز شوخی کا کہے
ہو معلق زن تو آدم تک رہے
(معلق زن ہونا=اچھلنا)
اچپلاہٹ اس کی سب معلوم ہے
معرکوں میں چوک کے اک دھوم ہے
ہوتے ہیں اس جنس میں بھی ذی خرد
آدم و حیواں میں برزخ ہیں بد
(بد= سب سے الگ)
طنز ہے یہ بات اگر چہ ہے کہی
جو کرے انسان تو بو زینہ بھی
لیکن اس جاگہ تو صادق ہے یہ قول
سارے اس کے آدمی کے سے ہیں ڈول
میر کی نطم میں اس مربیانہ احساس برتری سے مملو رویے کا شائبہ تک نہیں جو ہمیں نظیر اکبر آبادی کی نظموں اور سید رفیق حسین کے افسانوں میں ملتا ہے۔ ان دونوں کے یہاں جانور صرف جانور ہیں۔ اور جہاں ایسا نہیں ہے مثلاً سید رفیق حسین کے افسانے ’’گوری ہو گوری‘‘ میں، تو وہاں تصنع صاف جھلکتا ہے۔ اور نظیر کی نظم ’’ریچھ کا بچہ‘‘ میں متکلم مداری ہے اور ریچھ کا بچہ تفریح کا سامان۔ اگر چہ وہ سج دھج میں پری جیسا تھا لیکن تھا وہ جانور ہی، اور وہ بھی قیدی جانور،
تھا ریچھ کے بچے پہ وہ گہنا جو سراسر
ہاتھوں میں کڑے سونے کے بجتے تھے جھمک کر
کانوں میں در اور گھنگھرو پڑے پاؤں کے اندر
وہ ڈور بھی ریشم کی بنائی تھی جو پر زر
جس ڈور سے یارو تھا بندھا ریچھ کا بچہ
جھمکے وہ جھمکتے تھے پڑے جس پہ کرن پھول
مقیش کی لڑیوں کی پڑی پیٹھ اپر جھول
اور ان کے سوا کتنے بٹھائے تھے جو گل پھول
یوں لوگ گرے پڑتے تھے سرپاؤں کی سدھ بھول
گویا وہ پری تھا کہ نہ تھا ریچھ کا بچہ
کہا جا سکتا ہے میر نے جانور کو انسان کی سی صفات سے متصف کر کے کچھ کمزوری کا ثبوت دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر جانور کو مر بیانہ اور برتری کی نظر سے دیکھنا غلط ہے تو اسے انسان صفت (Anthropomorphic) بتانا بھی غلط ہے۔ یہ بات صحیح ہے، لیکن یہ نکتہ ملحوظ رکھئے کہ جانوروں سے دلچسپی رکھنا، ان کے وجود کو وجود ماننا، ان کے حقوق کا قائل ہونا، ان کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرنا، یعنی ان کے ساتھ یک دردی (Empathy) رکھنا، مربیانہ دلچسپی، یا کارآمد ہونے کے باعث ان کو اپنا مطیع بنانے سے بدرجہا بہتر ہے۔ دوسری بات یہ کہ جانوروں سے میر کا یہ شغف در اصل اشیا اور دنیاے انسان کے مختلف مظاہر سے دلچسپی کے باعث ہے۔ میر کی یک دردی (Empathy) اشیا ومظاہر سے ان کی محبت کی دلیل ہے اور اس صفت میں اردو کا کوئی شاعران کا ہمسر نہیں۔ مزید مثال کے طور پر ’’موہنی بلی‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،
بلیاں ہوتی ہیں اچھی ہر کہیں
یہ تماشا سا ہے بلی تو نہیں
گرد رو باندھے تو چہرہ حور کا
چاندنی میں ہو تو بکا نور کا
(گرد رو = پھولوں یا موتیوں وغیرہ کا گلوبند)
بلی کا ہوتا نہیں اسلوب یہ
ہے کبودی چشم یک محبوب یہ
دیکھے جس دم یک ذرا کوئی اس کو گھور
چشم شور آفتاب اس دم ہو کور
(چشم شور=چشم بد)
داغ گلزاری سے اس کے تازہ باغ
اس زمان تیرہ کی چشم وچراغ
کیا دماغ اعلیٰ طبیعت کیا نفیس
کیا مصاحب بے بدل کیسی جلیس
یہ نفاست یہ لطافت یہ تمیز
آنکھ دوڑے ہی نہ ہو کیسی ہی چیز
یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ میر کی بلی انسانوں کے اعلیٰ صفات سے متصف ہے۔ جانوروں پر نظمیں دنیا کے بہت سے شعرا نے لکھی ہیں۔ یہاں بودلئیر (Charles Baudelaire, 1821۔ 1867) کی نظمیں فوراً یاد آتی ہیں۔ بودلئیر نے بلی (یا بلیوں) پر تین نظمیں لکھی ہیں اور تینوں میں وہ بلی کے مزاج میں کسی نہ کسی طرح کا انسان دیکھتا ہے۔ پہلی نظم میں وہ کہتا ہے،
جب میری انگلیاں آزادا نہ تمھارے سر
اور لچک دار کمر کو سہلاتی ہیں
تو میرے ہاتھ میں تمھارے بر قیلے بالوں
کے لمس سے ایک ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے
اور مجھے اپنی معشوقہ یاد آنے لگتی ہے، اس کی نگاہ
سرداور گہری، جیسے تمھاری آنکھیں۔۔۔
دوسری نظم میں بودلئیر ایک قدم آگے جاکر کہتا ہے،
ایک بلی میرے ذہن میں
بل کھاتی ہوئی محو خرام ہے، جیسے
وہی یہاں کی مالک ہو،
چکنی، سڈول، رعونت سے بھری ہوئی لیکن
اپنی مرضی جتانے میں نہایت محتاط
اس درجہ، کہ جب وہ میاؤں کرتی ہے تو مجھے
موسیقی سنائی دیتی ہے۔
بودلئیر کی تیسری نظم کے یہ مصرعے تو لگتا ہے میر نے لکھے ہوں،
عشاق اور علما، یعنی جو شیلے جذبات والے لوگ اور
خشک، ریاضت پسند لوگ، ان سب کو
بلیوں سے محبت ہو جاتی ہے، بلیاں، ان کے گھروں کا افتخار،
دونوں ہی کی طرح انھیں بھی سردی زکام بہت جلد لگ جاتے ہیں،
دونوں ہی کی طرح یہ بھی چلت پھرت میں کم، لیکن
چکنی، سڈول اور قوت مند
عرب تہذیب کے ساتھ طویل ربط ضبط کے باعث فرانس اور مشرق میں بعض باتیں مشترک ضرور ہیں، (مولانا ابوالکلام آزاد کا قول تھا کہ نیپولین کے قوانین جو Napoleonic Code کے نام سے مشہور ہیں اور آج بھی فرانسیسی قانون کی بنیاد ہیں، فقہ شافعی پر مبنی ہیں) لیکن میر اور بودلئیر میں جانوروں اور خاص کر بلی کے بارے میں یہ مطابقت بہرحال حیرت انگیز ہے۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ میر کے پیکر زیادہ تر بصری اور حرکی ہیں اور بودلئیر کے پیکر اس کی اپنی افتاد مزاج کے مطابق لمسی اور شامی ہیں۔ بلی کے بارے میں میر کو پھر سنئے اور فیصلہ کیجئے کہ بودلئیر اگر اردو میں کہتا تو اس سے بہتر کیا کہتا۔ یہ ’’تسنگ نامہ‘‘ کے اشعار ہیں۔ اوپر جس بلی کا ذکر تھا اس کا نام موہنی تھا۔ یہ بلی جوتسنگ کے سفر میں کھو گئی، سوہنی کے نام سے موسوم تھی،
رنگ جیسے کہ وقت گرگ و میش
یعنی سرخی تھی کم سیاہی بیش
جن سے مالوف تھی وہیں رہتی
ان سے کچھ کچھ نگاہوں میں کہتی
کیا نفاست مزاج کی کہئے
ستھری اتنی کہ دیکھ ہی رہئے
خال جوں پھول گل کترتے ہیں
یا کہ نقشوں میں رنگ بھرتے ہیں
بلیوں کے اس قدر ذکر سے آپ کو یہ گمان نہ ہونا چاہئے کہ میر کے عجائب گھر میں کچھ ہی جانور اور کچھ ہی اشیا ہیں۔ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ میر کو تمام اشیا و مظاہر سے دلچسپی ہے۔ مرغ اور مرغ باز بھی ان کی دلچسپی کا مرکز ہیں، بکریاں بھی اور کتے بھی اور چھوٹے موٹے جانوروں اور چیزوں کا تو شمار ہی کیا ہے۔ اسی ’’تسنگ نامہ‘‘ کے چند شعر ہیں،
بیچ میں ہوتے کچھ اگر اسباب
منہ اٹھانے کی جی میں ہوتی تاب
سو تو کمل نہ پٹو نے لوئی
سایہ گستر نہ ابر بن کوئی
ابر ہی بے کسی پہ روتا تھا
ابر ہی سر کا سایہ ہوتا تھا
کیچ پانی میں کپڑے خوار ہوئے
وہیں گاڑی میں جا سوار ہوئے
رہروی کا کیا جو ہم نے میل
بھینس چہلے کے تھے بہل کے بیل
(چہلا=دلدلی کیچڑ)
آسماں آب سب زمیں سب کیچ
خاک ہے ایسی زندگی کے بیچ
ان اشعار میں ظرافت بھی ہے، اپنی بےچارگی پر غصہ بھی ہے، روز مرہ کے سامانوں کا ذکر بھی ہے اور وہ مناسبات لفظی بھی ہیں جن کے بغیر میر لقمہ نہیں توڑتے تھے۔ ’’منہ اٹھانا‘‘ بجاے ’’قدم/پاؤں اٹھانا‘‘؛ ابر کی طرح سایہ گستر بھی کوئی نہیں اور ابر ہی ہماری بے کسی پر گریہ کناں بھی ہے؛ ابر کی طرح کی سایہ گستری کی تلاش اور سر پر وہی ابر سایہ بن کر گریہ کناں اور آخری شعر تو شاہکار ہے،
آسماں آب سب زمیں سب کیچ
خاک ہے ایسی زندگی کے بیچ
میر کی دنیا میں سمندر اور سیلاب بھی ہیں، لیکن ان کا ذکر میں یہاں اس لئے نہیں کرتا کہ غزلوں پر بحث کرتے ہوئے ایسے کئی شعر میں نے ’’شعر شور انگیز‘‘ میں جگہ جگہ نقل کئے ہیں۔ برسات کے بھی اچھے اور برے مناظر میر کے یہاں بے شمار ہیں۔ لیکن اب چونکہ پانی کا ذکر آ گیا ہے تو ’’شکارنامۂ اول‘‘ سے کچھ شعر سنئے۔ پہلا بیان چڑھے ہوئے دریا (غالباً گھاگھرا) کا ہے،
ہوا حائل راہ بحر عمیق
کہ ہو وہم ساحل پہ جس کے غریق
قریب آکے اتری یہ خائف تھی فوج
کہ بے ڈول اٹھتی تھی ہر ایک موج
مہیب اور آلودۂ خاک و آب
بعینہ پھٹی آنکھ تھا ہر حباب
غضب لجہ خیزی بلا جوش پر
تلاطم قیامت لئے دوش پر
چلے بس تو کچھ کوئی چارہ کرے
مگر دیکھ کر ہی کنارہ کرے
یہاں بھی میر نے روز مرہ کی چیزوں کا لحاظ رکھا ہے۔ ’’بے ڈول موج‘‘ اور ’’پھٹی آنکھ تھا ہر حباب‘‘ تعریف سے مستغنی ہیں لیکن مندرجہ بالا اقتباس کا آخری شعر تو اعجاز سخن گوئی ہے، ’’مگر‘‘ بمعنی ’’لیکن‘‘ اور بمعنی ’’مگر مچھ‘‘ اور پرشور ساحل دریا کے اعتبار سے ’’کنارہ کرے‘‘، یہ رعایتیں اسی کو سوجھ سکتی ہیں جو زبان کا سچا نباض اور اس کے خلاقانہ امکانات کے اعماق میں پوری طرح اترا ہوا ہو۔ اب ذرا سردی میں برسات کا ایک رنگ دیکھئے۔ یہ بھی ’’شکارنامۂ اول‘‘ میں ہے،
ہوا ایک ابر اس جبل سے بلند
ہوا پر بچھے اس کے یزدی پرند
(یزدی = شہر یزد کی بنی ہوئی؛ پرند = چادر، دوشالہ)
پہر دن سے بارش لگی ہونے زور
رہا ساری وہ رات طوفان کا شور
ہوئے خیمے پانی کے اوپر حباب
سب اسباب لوگوں کا تھا زیر آب
نہ پوچھ اور اسباب مردم کا حال
نہ چادر رہی خشک نے کوئی پال
بھرا پانی لشکر میں پھیلا ہوا
اگر فرش بستر تھا تھیلا ہوا
ہوا سرد از بس ہوئی ایک بار
کلیجوں کے ہوتی تھی برچھی سی پار
پھرے باد سے لوگ منہ ڈھانپتے
جگر چھاتیوں میں رہے کانپتے
رہا ایسی سردی میں کیدھر شکار
ہوئے لوگ خیموں کے اندر شکار
مندرجہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہوا ہوگا کہ میر کے شکارنامے دراصل جنگل کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان ہیں۔ لوگ عموماً شکایت کرتے ہیں کہ اردو کے شاعر مناظر قدرت سے دور ہیں، عام زندگی سے دور ہیں، معمولی درجے کے لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں، وغیرہ۔ لیکن میر کی مثنویاں اور ہجویں ایک نگاہ غلط انداز سے بھی دیکھ لی جاتیں تو جھوٹ کا یہ طلسم شکست ہو جاتا۔ نظیر کے بارے میں ہم نے بہت سنا ہے، لیکن نظیر اپنے شہر کے باہر کم، بہت ہی کم جاتے ہیں۔ میر تو گاؤں گاؤں گھومتے ہیں اور وہاں کے حالات میں خود کو شریک کرتے ہیں۔ وہ ہنستے بھی ہیں، مذاق بھی اڑاتے ہیں، لیکن یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہم بھی اسی زندگی کا حصہ ہیں۔ ’’تسنگ نامہ‘‘ کے یہ اشعار دیکھئے،
ہم کو کھانے ہی کا تردد ہے
صبح بقال کا تشدد ہے
بنیا منہ کو چھپائے جاتا ہے
روٹی کا فکر کھائے جاتا ہے
تم کہو دال ماش کی ہے زبوں
یاں بہم پہنچے ہے جگر ہو خوں
تم کہو آٹا کسکسا کھایا
یاں کلیجا چھنا تو ہاتھ آیا
ماش کی دال کا نہ کریے گلہ
گوشت یاں ہے کبھو کسو کو ملا
جی اگر چاہے کوئی ترکاری
گول کدو ملے بصد خواری
بھنڈی بینگن کے ناؤں ڈھینڈس تھا
اروی توری بغیر جی بس تھا
گھانس ہی گھانس اس مکاں میں تمام
تس میں لساع جانور اقسام
(لساع=ڈسنے والے)
جیسے زنبور زرد ایسے ڈانس
کاٹ کھاویں تو اچھلو دو دو بانس
پشہ و کیک اور کھٹی تھی
جن کے کاٹھے اچھلتی پتی تھی
ننھے منے جانوروں کا کچھ حال سنانے کے بعد مناسب تھا کہ میں شکارناموں سے کچھ اشعار ایسے نقل کرتا جن میں بڑے جانوروں کا ذکر ہے۔ لیکن طوالت کے خوف سے اشعار نہیں لکھتا، صرف چند اشعار سے منتخب کر کے کچھ جانوروں کے نام لکھتا ہوں۔ کبھی کبھی ایک ہی جانور کے لئے ایک سے زیادہ لفظ ہیں، میں نے انھیں ترک نہیں کیا ہے تاکہ شاعر کے ذخیرۂ الفاظ کا کچھ اندازہ ہو سکے، شیر؛ پلنگ؛ شیرنر؛ نمر[تیندوا]؛ ببر؛ ہاتھی؛ بکری؛ نہنگ؛ نرہ شیر؛ چیتل؛ پاڑھا؛ ارنا [بھینسا]؛ شیرژیاں؛ پیل دماں؛ بھیڑ؛ شترمرغ؛ گوزن؛ ہرن؛ کتا؛ گرگ؛ آہو؛ ہرن؛ فیل؛ گور [خر]؛ شغال؛ روباہ؛ ریچ؛
مندرجہ بالا فہرست ’’شکارنامۂ اول‘‘ کے اولین چالیس اشعار سے اخذ کی گئی ہے۔ اب ’’شکار نامۂ دوم‘‘ سے ایک فہرست دیکھتے ہیں۔ غزلوں کو چھوڑ کر یہ فہرست اس مثنوی کے اولین پچپن (۵۵) اشعار پر مبنی ہے، پلنگ؛ شیرببری؛ چکارا؛ گرگ؛ شیر؛ اسد؛ بادخور[=ہما]؛ کلنگ؛ باز؛ جرہ؛ مرغابی؛ بزا [=بکرا]؛ ارنا [بھینسا]؛ غضنفر؛ ہاتھی؛ اژدر؛ گوزن؛ گور [خر]؛ قرقرہ؛ عقاب؛ زغن؛ تغدار؛ خار [=قاز]؛ زاغ؛ کلاغ؛ شتر مرغ؛ پلنگان مردم در؛ ہزبران خوں خوار؛ غرندہ شیر؛ فیلان مست؛ گینڈا؛ بھینسا؛ عصفور؛ کپی؛ کپی؛ لنگور؛ شاہین؛ بکری؛ گرگ کہن؛ کلنگ؛ قوچ [=مینڈھا]؛ ایل [=بارہ سنگھا]؛ رنگ [=جنگلی بیل]؛ جرہ؛ سرخاب؛ لگ لگ؛ تیتر؛ غمخوارک [=بگلا]؛ سارس؛ قاز؛ حواصل؛ طاؤس
اگر آپ کو یہ گمان گذرے کہ یہ سب نظیر اکبر آبادی کی طرح محض فہرستیں ہیں، تو میں چند شعر ادھر ادھر سے حاضر کر دیتا ہوں۔ یہ انھیں اشعار میں ہیں جن سے فہرستیں اخذ کی گئی ہیں،
سن آواز شیران نر ڈر گئے
پلنگ و نمر خوف سے مر گئے
جہاں ببر آیا نظر صید تھا
بیاباں اسی پہن سے قید تھا
پلنگان صحرا کے دل خوں کئے
نہنگان دریا ہوئے مرجئے
گئے باد خور آسماں میں پلٹ
کلنگوں کی صف باز نے دی الٹ
کلنگ ایسے بازوں سے آئے ستوہ
کہ کابل سے آگے گئے صد کروہ
(ستوہ = اول مضموم، عاجز)
غضب کر گئے جرے نواب کے
اڑا کھا گئے خیل سرخاب کے
حواصل کو ہوتا اگر حوصلہ
تو گرتا نہ کھیتوں میں ہو دہ دلہ
اب میں مثنوی ’’سگ وگربہ‘‘ اور ’’مرثیۂ خروس‘‘ کا ذکر چھوڑ کر مثنوی ’’درہجوخانۂ خود‘‘ اور مثنوی ’’درمذمت برشگال‘‘ کا ذکر کرتا ہوں کہ معماری کی اصطلاحیں اور گھر کے مختلف حصوں اور ان کے مکینوں کے نام بھی ذرا معلوم ہو جائیں۔ مندرجۂ ذیل متفرق اشعار ’’درہجو خانۂ خود‘‘ کے آغاز سے لئے گئے ہیں،
لونی لگ لگ کے جھڑتی ہے ماٹی
آہ کیا عمر بے مزہ کاٹی
جھاڑ باندھا ہے مینھ نے دن رات
گھر کی دیواریں ہیں گی جیسے پات
باؤ میں کانپتی ہیں جو تھر تھر
ان پہ ردا رکھے کوئی کیونکر
کہیں گھونسوں نے کھود ڈالا ہے
کہیں چوہے نے سر نکالا ہے
کہیں گھر ہے کسو چھچھوندر کا
شور ہر کونے میں ہے مچھر کا
کہیں مکڑی کے لٹکے ہیں جالے
کہیں جھینگر کے بے مزہ نالے
کڑی تختے سبھی دھوئیں سے سیاہ
اس کی چھت کی طرف ہمیشہ نگاہ
کبھو کوئی سنپولیا ہے پھرے
کبھی چھت سے ہزار پائے گرے
کوئی تختہ کہیں سے ٹوٹا ہے
کوئی داسا کہیں سے چھوٹا ہے
دی ہیں اڑو اڑیں پھر جو حد سے زیاد
چل ستوں سے مکان دے ہے یاد
کنگنی دیوار کی نپٹ بے حال
پدڑی کا بوجھ بھی سکے نہ سنبھال
اچھے ہوں گے کھنڈر بھی اس گھر سے
برسے ہے اک خرابی گھر در سے
اکھرے پکھڑے کواڑ ٹوٹی وصید
زلفی زنجیر ایک کہنہ حدید
(وصید = چوکھٹ، زلفی زنجیر = دروازے کی کنڈی)
جی تو چاہتا ہے پوری مثنوی نقل کر ڈالوں لیکن طوالت مانع ہے۔ ’’وصید‘‘ اور ’’حدید‘‘ قافیوں کی داد تو سامنے کی بات ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھر کا اس سے بہتر بیان، اور وہ بھی مزاحیہ، اردو شاعری میں تو نہ ملےگا۔ معماری اصطلاحات سے واقفیت کا یہ عالم ہے کہ لگتا ہے مہندس کی کتاب سامنے کھلی رکھی ہے۔ مثنوی ’’درمذمت برشگال کہ باراں در آں سال بسیارشدہ بود‘‘ محض ایک عمدہ نظم نہیں، استعاروں، نئے الفاظ اور انوکھے پیکروں کا شاہکار ہے۔ چند متفرق شعر درج کرتا ہوں،
لے زمیں سے ہے تا فلک غرقاب
چشمۂ آفتاب ہیں گرداب
خشک بن اب کی بار سبز ہوئے
موش دشتی کے خار سبز ہوئے
(موش دشتی=ساہی)
لڑکوں نے کی زمانہ سازی ہے
خاک بازی اب آبا بازی ہے
(خاک بازی=ریت یا مٹی میں کچھ چھپا کر ڈھونڈنے کا کھیل، آب بازی = تیراکی)
آدمی ہیں سو کب نکلتے ہیں
مردم آبی پھرتے چلتے ہیں
کتے ڈوبے گئے کہاں ہیں اب
سگ آبی ہی ہیں جہاں ہیں اب
(سگ آبی=Beaver)
غرق ہے چڑیا اور گلہری ہے
خشکی کا جانور بھی بہری ہے
جیسا کہ میں نے ابھی کہا، یہ چند متفرق اشعار مثنوی کے شروع میں ہیں۔ ان سے پوری نظم کی خوبصورتی، ظرافت، تحرک، تنوع اور بارش کی کثرت کا لمسی احساس نہیں ہو سکتا۔ پوری مثنوی پڑھئے تو آپ کو لگےگا کہ آپ خود پانی میں بھیگ گئے ہیں، لیکن ان چند اشعار سے یہ تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ جانوروں سے میر کا شغف یہاں بھی واضح ہے۔ چند اور شعر نقل کئے بغیر یہاں چارہ نہیں، ان میں اشیا کا بیان دیکھئے،
شعر کی بحر میں بھی ہے پانی
بہتی پھرتی ہے اب غزل خوانی
لائی بارندگی کی چالاکی
آب خشک گہر پہ نم ناکی
ہے زراعت جو پانی نے ماری
ہو گئی آب خست ترکاری
آب ہےگا جہاں کے سرتا سر
خوف سے سوکھتا ہے میوۂ تر
پانی عالم کے تا بہ سر ہےگا
خشک مغزوں کا مغز تر ہےگا
خضر کیونکر کے زیست کرتا ہے
آب حیواں میں پانی مرتا ہے
یہ آخری شعر تو تحسین اور تجزیے سے بےنیاز ہے، جیسے کسی بلند آبشار کی خوبصورتی اور موسیقیاتی شان الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میر کے تقریباً ہم عمر یا عمر میں کچھ بڑے ہم عصروں میں نظیر کی استثنائی حیثیت کو نظر انداز کریں تو سودا، درد، قائم، میر سوز ہیں۔ قائم کے سوا کسی کے یہاں جانوروں اور موسموں کا ذکر نہیں۔ اور قائم کی بھی بس ایک مختصر مثنوی موسم سرما کے بارے میں ہے جس میں مضمون آفرینی بہر حال بہت خوب ہے۔ میر کے وہ معاصر جو میر سے عمر میں چھوٹے تھے، ان میں مصحفی اور جرأت نمایاں ہیں۔ جرأت نے ایک زبردست ہجویہ شہر آشوب ضرور لکھا ہے جس کے ہر بند میں چڑیوں یا جانوروں کا ذکر ہے۔ لیکن وہ صفت اس ہجو میں لزوم مالا یلزم کا حکم رکھتی ہے، یعنی چڑیوں اور جانوروں کے نام لینا ہجو کے نفس مطلب کے لئے ضروری نہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس التزام نے جرأت کی ہجو کو نئی اور انوکھی شان بخش دی ہے۔ لیکن اسے ’’جانوروں کے بارے میں نظم‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔
فارسی میں شیخ عطار کی شاہکار مثنوی ’’منطق الطیر‘‘ تقریباً ساری کی ساری چڑیوں کی زبان سے ہے۔ لیکن عطار کی مثنوی اور ان کے بعد مولاناے روم کی مثنوی میں جانوروں کے بارے میں خال خال حکایتیں بھی اس لئے میر کی طرح کی نظمیں نہیں ہیں کہ انھیں کسی اور مطلب کے ادا کرنے، مثلاً سبق آموزی، یا مثال وتمثیل کے لئے نظم کیا گیا ہے۔ فارسی ہی میں انوری اور عبید زاکانی نے جانوروں کے بارے میں حکایتیں یا حکایت نما نظمیں کہی ہیں۔ انوری کی نظمیں طنز اور ظرافت اور مختصر لفظوں میں بات پوری کرنے کے فن کا عمدہ نمونہ ہیں۔ عبید زاکانی کی فحشیات سے قطع نظر کریں تو اس کے یہاں کچھ ٹھٹھول، کچھ طنزیہ لطیفے ضرور ہیں لیکن اسے جانوروں سے کچھ محبت نہیں، جانور اس کے لئے اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور بس۔
فرانسیسی میں ہم بودلئیر (Charles Baudelaire) کا ذکر کر چکے ہیں۔ فرانسیسی شاعر ژاں دَلافونتیں (Jean de la Fontaine, 1621۔ 1695) دنیا کا شاید واحد شاعر ہے جس کا بہت سا کلام جانوروں کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ اس کی نظمیں بظاہر بچوں کے معیار کی معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کی لطیف ظرافت، باریک نکتہ سنجی اور نکتہ آفرینی، برہمی اور طنز کی تیزی سے اس کی نظموں کا خالی ہونا، یہ صفات ایسی ہیں کہ اس کی ہر نظم ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ اکثر نظمیں تو اس قدر لطیف ہیں کہ انگریزی میں بھی ان کا ترجمہ بے مزہ لگتا ہے۔ لیکن یہ نظمیں اس صنف کی ہیں جسے انگریزی میں Fable کہتے ہیں۔ اس میں جانوروں کو انسانوں کی طرح بات چیت کرتے دکھایا جاتا ہے۔ یہ نظمیں در اصل حیات انسانی کے بارے میں تمثیلیں ہیں، جانوروں کے بارے میں نظمیں نہیں ہیں۔
مصحفی کے یہاں البتہ بعض مثنویاں جانوروں اور اشیا اور موسموں کے بارے میں ہیں۔ بلکہ یوں کہیں کہ ان کی ایک مثنوی اجوائن کی مدح میں ہے جو بہت خوب ہے۔ اس کے سوا جانوروں کے بارے میں کچھ مثنویاں ہیں جو زیادہ تر انھوں نے اپنے گھر میں کام کرنے والی عورت بی بولن کی خاطر کہی ہیں۔ کچھ مثنویاں اور بھی ہیں جو موسموں کے بارے میں ہیں۔ ایک مثنوی کھٹملوں پر ہے۔ مصحفی کے دیوان دوم کی اس مثنوی سے چند اشعار نقل کرتا ہوں، کیونکہ میر نے بھی کھٹملوں کا ذکر کیا ہے۔ مصحفی کہتے ہیں،
آخر شام سے ہو شب بیدار
کھیلتا ہوں میں کھٹملوں کا شکار
مارے جو موٹے موٹے چن چن کر
چھینٹ کا تھان بن گئی چادر
گھسے دیوار پر جو کر کے تلاش
کر دیا گھر کو خانۂ نقاش
نہیں مرتے ہیں تو بھی یہ بدذات
کیا انھوں نے پیا ہے آب حیات
اس میں کوئی شک نہیں کہ ظرافت، جھنجھلاہٹ، بے چینی کی مضمون آفرینی، ہر چیز کے اظہار کے لئے یہ شعر اس وقت تک اعلیٰ نمونہ قرار دیے جا سکتے ہیں جب تک آپ نے میر کو نہ پڑھا ہو۔ اب میر کی مثنوی ’’در ہجوخانۂ خود‘‘ کے یہ متفرق شعر ملاحظہ کریں،
جنس اعلیٰ کوئی کھٹولا کھاٹ
پائے پٹی رہے ہیں جن کے پھاٹ
کھٹملوں سے سیاہ ہے سو بھی
چین پڑتا نہیں ہے شب کو بھی
شب بچھونا جو میں بچھاتا ہوں
سر پہ روز سیاہ لاتا ہوں
کیڑا ایک ایک پھر مکوڑا ہے
سانجھ سے کھانے ہی کو دوڑا ہے
ایک چٹکی میں ایک چھنگلی پر
ایک انگوٹھا دکھاوے انگلی پر
گرچہ بہتوں کو میں مسل مارا
پر مجھے کھٹملوں نے مل مارا
اور بھی شعر ہیں لیکن طوالت کے خوف سے نظر انداز کرتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میر کے یہاں خوش طبعی اور طباعی زیادہ ہے اور مناسبت الفاظ بھی مصحفی سے بڑھی ہوئی ہے۔ لیکن ان معاملات میں میر کے حریف مصحفی بہرحال ہیں۔ اب میر کے ’’شکار نامۂ اول‘‘ سے برسات اور سردی کے جو شعر میں اوپر نقل کر آیا ہوں، انھیں ذہن میں لائیے اور مصحفی کو سنئے۔ (دیوان دوم)،
طرفہ سردی ہے ان دنوں یارب
جس کے ڈر سے گلیم پوش ہے شب
سنگ و آہن جو اب بہم ہوں دو چار
برف ان سے جھڑے بجاے شرار
دیکھیو شدت شب سرما
بن بجھائے چراغ ہے ٹھنڈا
جس طرف دیکھو آگ کی ہے پکار
آگ کیا اک خدا کا ہے دیدار
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مصحفی کے ان شعروں میں مضمون آفرینی، بلکہ خیال بندی بہت خوب ہے، لیکن سردی کا وہ احساس نہیں جو میر کے دو ہی شعروں میں جاگ اٹھتا ہے،
پھرے باد سے لوگ منہ ڈھانپتے
جگر چھاتیوں میں رہے کانپتے
رہا ایسی سردی میں کیدھر شکار
ہوئے لوگ خیموں کے اندر شکار
قائم چاند پوری کی مثنوی ’’درہجوشدت سرما‘‘ میں بھی مضمون آفرینی مصحفی جیسی ہے،
ان دنوں چرخ پر نہیں ہے مہر
گود میں کانگڑی رکھے ہے سپہر
پانی پر جس جگہ کہ کائی ہے
سبز وہ شال کی رضائی ہے
بس کہ یخ بستہ بحر بیچ ہے آب
برف کی ہے رکابی ہر گرداب
یہ شعر بھی مصحفی کے اشعار کی طرح پر لطف ہیں لیکن محسوسات کی جگہ خیال، یعنی کیفیت کے انبساط کی جگہ عقل کا پھیلاؤ ہے۔ خیال بندی میں انبساط اور فرحت ممکن ہے، لیکن غزل میں۔ غالب، ناسخ، آتش، ذوق، شاہ نصیر، نسیم دہلوی، امان علی سحر لکھنوی وغیرہ کے اشعار اس کی دلیل ہیں۔ لیکن جہاں براہ راست محسوسات کا معاملہ ہو، اور وہ بھی روز مرہ زندگی کے مناظر اور تجربات کے بیان میں، وہاں خیال بندی تعقلاتی لطف تو پیدا کرتی ہے لیکن کیفیت اور جذباتی انبساط کم ہو جاتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا، میر کے اشعار میں جانور جب روزانہ زندگی کا حصہ بن کر آتے ہیں تو ان میں انسانی صفات اور خصائص کا بھی رنگ آ جاتا ہے۔ جانوروں کے بیان میں میر کے اتباع میں مصحفی کچھ بہت دور نہیں جا سکے ہیں۔ لیکن وہ جانور کو کار آمد شے بھی سمجھتے ہیں، یعنی جانور میں اگر کچھ شخصیت یا انسان پن ہے تو بھی وہ انسان کے لئے کارآمد ہونے کی سطح سے برتر نہیں ہے۔ مثلاً اپنی مثنوی ’’درصفت بز‘‘ (دیوان چہارم) میں مصحفی یوں رطب اللسان ہوتے ہیں،
ہر ادا میں ہے اس کی محبوبی
بز میں دیکھی نہیں بہ ایں خوبی
کیا شجاعت کی اس کے لکھوں بات
ہے مقابل وہ شیر کے دن رات
لیکن مثنوی کے ختم ہوتے ہوتے مصحفی اپنا ’’انسان پن‘‘ ظاہر ہی کر دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں،
مثل پور خلیل لاثانی
مستعد ہے براے قربانی
ہے فداے وہ خنجر تسلیم
ذبح ہونے سے اس کو کیا ہے بیم
بےشک دونوں شعر اچھے ہیں۔ لیکن جس کی ہر ادا میں محبوبی ہو، اس کی گردن کٹنے کی بات کرنے، بلکہ گردن کٹنے کی توقع رکھنے کو ’’انسان پن‘‘ نہ کہیں تو کیا کہیں گے؟ اب مصحفی کے بر خلاف میر کو دیکھئے، مثنوی ’’در بیان بز‘‘ میں کہتے ہیں،
کہتے ہیں جو غم نہ داری بز بخر
سو ہی لی میں ایک بکری ڈھونڈ کر
شعر زور طبع سے کہتا ہوں چار
دزدی بز گیری نہیں اپنا شعار
(بزگیری = چوری، مکروحیلہ کرنا)
دزد ہے شائستہ خوں ریزی کا یاں
بلکہ بابت ہے بز آویزی کا یاں
(بز آویزی = ذبح کرکے الٹا لٹکانا، جس طرح قصاب کرتے ہیں۔)
میں پڑھوں ہوں اس کے آگے شعر کہ
اپنے ہاں گویا بز اخفش ہے یہ
نظم کی اٹھان دیکھئے، میں نے ایک بکری خریدی ہے، چرائی نہیں۔ چوری، حیلہ گری اپنا شعار نہیں۔ بلکہ میری نظر میں تو چور واجب القتل ہے، بلکہ اس لائق ہے کہ اسے بکرے کی طرح ذبح کر کے الٹا لٹکایا جائے۔ میں اس کے سامنے اپنے شعر پڑھتا ہوں، جس طرح اخفش کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب کے اوراق اپنے بکرے کو سناتا، اور جب بکرا سر ہلا دیتا تب وہ ان اوراق کو کتاب میں باقی رکھتا۔ اگلا شعر سنئے،
بکروں کی داڑھی کے تیں جانے ہیں سب
تکہ ریشی بکری کی ہے بوالعجب
(تکہ = بضم اول، بکرا)
اب الفاظ ملاحظہ ہوں، بزگیری، بز آویزی، تکہ ریشی، ایسے الفاظ مصحفی تو کیا سودا کو بھی نہ سوجھ سکتے ہوں گے۔ اب سراپا دیکھئے،
رنگ سر سے پاؤں تک اس کا سیاہ
چکنی ایسی جس پہ کم ٹھہرے نگاہ
چار پستان اس کے آئے دید میں
دو جہاں ہوتے ہیں دو ہیں جید میں
(جید = گردن)
’’دید‘‘ کا قافیہ ’’جید‘‘ مولانا روم جیسے مثنوی نگار کو سوجھتا تو وہ بھی خوش ہوتے۔ خیر، اس کے دو بچے ہوئے اور بڑے ناز سے پالے پوسے گئے،
زور وقوت سے حریفوں کے ہیں ڈھینگ
آہوے جنگی کو دکھلاتے ہیں سینگ
(ڈھینگ = لمبا، زور آور۔ جنگی = بے وجہ جھگڑنے والا)
ٹکر ان کی کیا جگر مینڈھا اٹھائے
قوچ سر زن سامنے ہر گز نہ آئے
تیس ان کی دھاک سن کر مر گیا
غم گوزنوں کو انھوں کا چر گیا
(تیس = اول مفتوح = بکرا یا نر آہو جو اپنے گلے کا نگہبان ہوتا ہے)
ان خوبیوں کے باوجود میر کو ان کا ذبح ہونا گوارا ہے، کیونکہ ان کی خوبیاں سب جانورانہ ہیں۔ بکری کے زبح ہونے کا البتہ کوئی مذکور نہیں۔ اور ان بکروں کے لئے بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ اب میں نے ان کے پاس جانا چھوڑ دیا ہے، کاش وہ اس طرح میری آغوش کے پروردہ نہ ہوتے،
پاس جانا ان کے اب مسدود ہے
ذبح کرنے کو ہر اک موجود ہے
میر کے برخلاف مصحفی کی بکری، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، مستعد ہے براے قربانی۔
مصحفی کا مینڈھا بھی بچارا اسی تقدیر کا مارا ہوا ہے۔ ’’مثنوی قوچ کہ بزبان ہندی مینڈھامی گویند‘‘ (دیوان چہارم) میں مصحفی کہتے ہیں کہ اس میں سب خوبیاں ہیں، وہ بھی بچپن سے مصحفی کے گھر میں پلا ہوا ہے اور آزاد پھرتا ہے۔ مصحفی اس کی پیدائش کو ’’نزول فرشتۂ رحمت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس کی تقدیر یہ ہے کہ،
ہے یہ وصف دویم کہ یہ حیواں
نہیں کرتا بوقت ذبح فغاں
یعنی شکوے کے لب ہیں اس کے بند
نہیں بانگ اس کی بز کی طرح بلند
ہے زبس واقف مقام رضا
جی سے عاشق ہے اس کی تیغ قضا
بچارے مینڈھے میں انسانی صفت صرف ایک ہے، اس نے آپ اپنا خوں کیا ہے بحل۔
مصحفی کی مسماۃ بولن نے طوطا پالا تو وہ بھاگ نکلا، یعنی بےوفا ثابت ہوا۔ دوسری مثنوی میں جو طوطا ہے وہ بھی بی بولن نے پالا تھا اور وہ مثنوی کے اختتام تک موجود تھا لیکن اس میں طوطے کی جتنی توصیف ہے وہ اس کی جانورانہ حیثیت کو پیش نظر رکھ کر نظم کی گئی ہے۔ (دونوں مثنویاں دیوان چہارم میں ہیں۔) اس کے برخلاف، میر نے جو مرغا پالا تھا وہ عام مرغوں سے بالکل مختلف جگردار تھا،
بجز کنارہ نہ سیمرغ کو بنا چارہ
کہ فیل مرغ کو بکری کی طرح سے مارا
خصومت اس کی تھی یک مادہ سگ سے شام و سحر
کبھو وہ لات اسے مارتا کبھو شہپر
قضا جو پہنچی تھی نزدیک وہ بھی جھنجھلائی
حریف ہو کے دلیرانہ سامنے آئی
بالآخر مرغا موت کے گھاٹ اتر ہی گیا۔ لیکن اس کے غم میں،
ہوا کے مرغ ہوئے داغ اس کے ماتم سے
سیاہ پوش رہے طائر حرم غم سے
وہاں جو نوحۂ مرغان قدس باز ہوا
کہ مرغ قبلہ نما کا بھی دل گداز ہوا
خروس عرش ہی اس بن نہیں ہے سینہ فگار
(خروس عرش = وہ مرغا جو آسمان پر قیام پذیر ہے اور سب سے پہلی بانگ سحر وہی دیتا ہے۔ دوسرے مرغے اس کی بانگ سن کر پکارنا شروع کرتے ہیں۔ ہزار مرغ کا اب گھر خروس پر ہے۔ بار خانہ بر خروس باربودں = ویران ہونا)
مثنوی کا آخری شعر ہے،
خموش میر تجھی کو نہیں یہ رنج وتعب
کباب آتش غم میں ہیں مرغ وماہی سب
اس جنگجو مرغے کے بیان میں مناسبات لفظی کی کثرت کا ذکر نہ کر کے میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ اس چوبیس شعر کی مثنوی میں اکتیس جانوروں کے نام یا ان کے تلازمے آئے ہیں، خروس؛ خروس عرش؛ مرغ انداز کرنا؛ مرغ مصلی؛ مرغ خیال؛ مرغ زریں بال؛ مرغ آتش خوار؛ بطخ؛ مرغ سبزوار؛ قاز؛ کلنگ؛ شتردلی؛ شترمرغ؛ مرغا؛ حواصل؛ سیمرغ؛ فیل مرغ؛ بکری؛ گربہ؛ سگ؛ مادہ سگ؛ ہد ہد؛ ہوا کے مرغ؛ طائر حرم؛ مرغان قدس؛ مرغ قبلہ نما؛ مرغ قفس؛ طیور؛ مرغ دست آموز؛ مرغ خانگی؛ ماہی۔
بھلا سوچئے، کیا سودا، کیا نظیر، کیا قائم، کیا جرأت، کیا مصحفی، ان میں سے کس کو مناسبات لفظی، رعایت لفظی و معنوی، معنی کے وفور، اور نادر الفاظ پر اس قدر دسترس ہے۔ اس بات کو تو الگ ہی رکھئے کہ جانوروں کے تئیں میر کا رویہ کس قدر روشن دلانہ اور یک دردی (Empathy) سے کس قدر بھر پور ہے۔ صرف شکار ناموں میں میر نے جانوروں کو محض شکار، یا انسانی اقتدار اور اہلیت کے سامنے صیدزبوں دکھایا ہے اور ان کی موت یا بے گھری پر کسی ناپسندیدگی یا رنج کا اظہار نہیں کیا ہے۔
لیکن شکارنامہ پھر شکارنامہ ہے۔ وہاں جانوروں کا قتل عام تو لازم ہی ہے، بلکہ یہ اس کی رسومیات میں داخل ہے۔ لہٰذا میر یہاں اپنے جذبۂ یک دردی کو معطل رکھتے ہیں۔ ابھی تو آپ یہ دیکھئے کہ دیہات ہو یا شہر، میر کی نظر جانوروں اور ان کی حرکتوں پر بے محابا پڑتی ہے اور ان کے یہاں جانور، انسان، اشیا، یہ سب ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ’’تسنگ نامہ‘‘ میں کتوں، انسانوں، اور اشیا کے بارے میں معجز کلامیاں دیکھئے،
پانی پانی تھا شور سے طوفان
دیکھ دریا کو سوکھتی تھی جان
ہمرہ موج سینکڑوں گرداب
ساتھ تھی صدتری کے چشم حباب
ناؤ میں پاؤں ہم نے بارے رکھا
خوف کو جان کے کنارے رکھا
جزر و مد سب حواس کھوتا تھا
خضر کا رنگ سبز ہوتا تھا
مناسبت اور استعاروں کو کہاں تک واضح کروں، یہاں طوفان (بمعنی سیلاب) پانی پانی ہوتا ہے، دریا کو دیکھ کر جان سوکھتی ہے، حباب کی آنکھ تر ہے، یہاں پر لوگ ڈوب کر جان دینے کے خوف کو دریا کنارے رکھتے ہیں، یا جان بوجھ کر خوف کو کنارے پر رکھتے اور جان کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ یہاں پانی کے خوف اور sickness sea یعنی ناخوشی دریا کے باعث حضرت خضر (خضر کے معنی ’’سبز‘‘ ہیں) کو گرانی سر اور متلی ہے اور ان کا رنگ سبز پڑ گیا ہے، یعنی سیاہی مائل ہو گیا ہے۔ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ یہ تجربے انسانی ہیں، یعنی متکلم کے ہیں، یعنی یہاں انسانی احساس کا بیان ہے، ’’حقیقت‘‘ یہاں بہت اہم نہیں۔ خیر، اب دریا کے پار کا منظر دیکھتے ہیں،
سو نہ جاگہ تھی نے مکان مبیت
چار دوکانیں ایک پھوٹی مسیت
(مبیت = رات گذارنے کے لائق)
جا کے حیراں ہوئے کدھر جاویں
سر گھسیڑیں جو ٹک جگہ پاویں
تگ و دو ہر طرف لگے کرنے
تس پہ پڑتے تھے مینھ کے بھرنے
(بھرنے پڑنا = زور کی بارش ہونا)
کوئی میداں میں کوئی چھپر میں
کوئی در میں کوئی کسو گھر میں
گھر ملا صاحبوں کو ایسا تنگ
جس سے بیت الخلا کو آوے ننگ
میرا خیال تھا کہ میں اشیا کا ذکر کروں گا کہ میر کی نگاہ کتنی بار یک ہے، لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ گھر کے لئے ’’بیت الخلا‘‘ کا لفظ لانا، جس کے لغوی معنی ہیں، ’’تنہائی کا گھر‘‘، اور پھر ’’ننگ‘‘ کا لفظ رکھنا، کہ بیت الخلا میں لوگ کپڑے اتارتے ہیں، زبان پر ایسی خلاقانہ قدرت کا مظاہرہ ہے کہ اس پر شیکسپئیر بھی رشک کرتا۔ خیر، اب اشیا کو دیکھئے، مکان بمعنی جگہ، اور مکان بمعنی گھر؛ چار یعنی بہت کم؛ دوکانیں؛ مسجد (لفظ ’’مسیت‘‘ داد سے مستغنی ہے)، وہ بھی ٹوٹی پھوٹی؛ سر گھسیڑنے کے لئے جگہ؛ بارش کی بھرن؛ میدان؛ در؛ چھپر؛ ان چند چھوٹی موٹی باتوں میں سارا منظر بیان ہو گیا ہے۔ اب ذرا اس بستی کے کتوں سے مل دیکھئے،
کتوں کے چاروں اور رستے تھے
کتے ہی واں کہے تو بستے تھے
دو کہیں ہیں کھڑے کہیں بیٹھے
چار لوگوں کے گھر میں ہیں پیٹھے
ایک نے پھوڑے باسن ایکو نے
کھود مارے گھروں کے سب کونے
گلہ گلہ گھروں میں پھرنے لگے
روٹی ٹکڑے کی بو پہ گرنے لگے
ایک نے آ کے دیگچہ چاٹا
ایک آیا سو کھا گیا آٹا
ایک نے دوڑ کر دیا پھوڑا
پھر پیا آ کے تیل اگر چھوڑا
باہر اندر کہاں کہاں کتے
بام و در چھت جہاں تہاں کتے
جھڑ جھڑاوے ہے کان کو کوئی
رووے ہے اپنی جان کو کوئی
یک طرف ہے چیڑ چیڑ کی صدا
یعنی کتا ہے چکی چاٹ رہا
ایک چھنے کو منھ میں لے آیا
ایک چولھے کو کھودتا پایا
ایک کے منھ میں ہانڈی ہے کالی
ایک نے چلنی چاٹ ہے ڈالی
تیل کی کپی ایک لے بھاگا
ایک چکنے گھڑے سے جا لاگا
کتوں کو فی الحال نظر انداز کیجئے، لیکن پطرس کا مضمون ’’کتے‘‘ ضرور ذہن میں لائیے کہ پطرس اور میر ایک ہی رشتے میں پروئے ہوئے ہیں۔ اب اشیا کو شمار کیجئے، رستے؛ گھر؛ باسن؛ گھروں کے کونے؛ روٹی؛ ٹکڑا؛ دیگچہ؛ آٹا؛ دیا؛ تیل؛ بام؛ در؛ چھت؛ جھڑجھڑاتا ہو اکان؛ چکی؛ چھنا؛ چولھا؛ کالی ہانڈی؛ چلنی؛ تیل کی کپی؛ چکنا گھڑا۔
ان اشعار میں کئی طرح کی چالاکیاں بھی ہیں، مثلاً حرکی اور سمعی پیکروں کی فراوانی، تجنیس حرفی، تجنیس صوتی وغیرہ، لیکن ان پر گفتگو کا موقع اس وقت نہیں، صرف اشارہ کافی ہے۔ یہاں اس بات پر غور کریں کہ بارہ شعر اور اکیس اشیا، اور سب کی سب معمولی گھریلو چیزیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ظرافت کے ساتھ ہلکی سی جھنجھلاہٹ یا بیزاری ضرور ہے، لیکن کتوں کے خلاف کوئی کینہ یا برہمی نہیں۔ کم وبیش ایسا انداز ہے گویا کسی ڈھیٹ بچے کی شرارتیں بیان ہو رہی ہوں۔ کچھ ایسا ہی انداز پطرس کے مضمون میں بھی ہے۔ یہ فیصلہ نقادان فن پر چھوڑتا ہوں کہ میر جدید ہیں یا پطرس قدیم؟
اب مثنوی ’’کد خدائی بشن سنگھ‘‘ سے کچھ بہاریہ اشعار پر اپنی بات ختم کرتا ہوں،
چل ہوائی سے شعلہ خیزی دیکھ
آسماں کی ستارہ ریزی دیکھ
متصل چھوٹتے جو ہیں گے انار
راہ ورستے ہوئے ہیں باغ و بہار
عشق ہے تازہ کار آتش باز
پھول گل میں ہے رنگ رنگ اعجاز
دیکھ صنعت گری صنعت گر
گل کاغذ ہے غیرت گل تر
پیکر، استعارہ، مناسبت الفاظ، چھوٹی چھوٹی اشیا سے شغف اور ان کو بڑی چیز بنا دینا (مثلاً عشق کو ’’آتش باز‘‘ کہنا، کہ آتش بازی معمولی بات ہے اور عشق بڑی بات، لیکن یہاں ان کا جوڑ کس قدر خوبصورت ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔) جانور، اشیا، زندگی سے شغف، زبان پر ایسی مہارت کہ حد سحر کو بھی پار کر جائے، ان سب باتوں میں شیکسپیئر اور میر ہم پلہ ہیں۔
مثنوی کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی میر کے یہاں بہت کچھ ہے۔ ہجویں اور خودنوشتی نظمیں بھی ہماری توجہ کی طالب ہیں۔ نادر الفاظ (خواہ فارسی عربی، خواہ اردو) کی جلوہ گری دیکھنا ہو تو مرثیے ملاحظہ ہوں۔ جزئیات سے میر کا شغف بھی ہر جگہ نمایاں ہے۔ لیکن میری گفتگو یوں ہی بہت طویل ہو چکی ہے۔ بقول میر (دیوان پنجم)،
اس صنائع کا اس بدائع کا
کچھ تعجب نہیں خدائی ہے
شمس الرحمن فاروقی