مری آبائی تلواروں کے دستے بیچ ڈالے ہیں
بہت مہنگے تھے یہ ہیرے جو سستے بیچ ڈالے ہیں
وہ جن پہ چل کے منزل پر پہنچنا تھا غریبوں کو
امیرِ شہر نے وہ سارے رستے بیچ ڈالے ہیں
مرے دریاؤں کا پانی اٹھا ڈالا ہے ٹھیکے پر
وہ بادل تھے جو کھیتوں پر برستے بیچ ڈالے ہیں
بھرے گھر کے لئے مشکل تھی فاقوں کی خریداری
بالآخر باپ نے بچوں کے بستے بیچ ڈالے ہیں
انور مسعود