اردو افسانےاردو تحاریرسعادت حسن منٹو

مہتاب خاں

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

مہتاب خاں

شام کو میں گھر بیٹھا اپنی بچیوں سے کھیل رہا تھا کہ دوست طاہر صاحب بڑی افرا تفری میں آئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ نے مینٹل پیس پرسے میرا فونٹین پن اُٹھا کر میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کے نام ایک چٹ لکھ دیجیے۔ ‘‘

مجھے کچھ پوچھنے کی فرصت بھی نہ دی گئی اور میں نے ایک ڈاکٹر کے نام رقعہ لکھنا شروع کر دیا۔ مضمون طاہر صاحب نے لکھوایا جس کا مطلب یہ تھا کہ حامل رقعہ خطرناک طور پر علیل ہے اس لیے اسے فوراً ہسپتال میں داخل کر لیا جائے۔ مجھ سے جو لکھوایا گیا۔ میں نے لکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد طاہر صاحب پھر تشریف لائے۔ مجھے تشویش تھی کہ جس مریض کی میں نے سفارش کی ہے وہ ہسپتال میں داخل ہوسکا ہے یا نہیں لیکن وہ بڑے مطمئن تھے۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا

’’جہنم میں جائے۔ میں نے آپ کی چٹ اُس کے لواحقین کو دے دی ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر میں خاموش ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان سے پوچھا کہ

’’یہ مہتاب خاں کون ہیں جن کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے آپ اتنے بے تاب تھے؟‘‘

طاہر صاحب مسکرائے

’’اوّل درجے کا حرامی ہے‘‘

اگر مہتاب خاں تیسرے درجے کا حرامی بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا لیکن مجھے اس سے فوراً دلچسپی پیدا ہو گئی چنانچہ میں نے اپنے دوست سے پوچھا

’’اسے عارضہ کیا تھا؟‘‘

طاہر صاحب نے جواب دیا

’’عشق کا‘‘

اس کے بعد اُنھوں نے خلاف معمول باتونی ہو کر مہتاب خاں کی داستان عشق سنانا شروع کر دی۔ آپ نے بتایا کہ مہتاب خاں کی عمر اٹھارہ اُنیس برس کے قریب ہے۔ جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے پٹھان ہے کافی ہٹا کٹا۔ مگر اس کی دونوں انکھوں میں لاسالگا ہوا ہے۔ چوبرجی کے قریب اس کے بڑے بھائی کی چائے کی دکان ہے جہاں اُس سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ طاہر صاحب نے اُس نوجوان کے متعلق مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا۔

’’منٹو صاحب یہ شخص عجیب و غریب ہے۔ مزاج اس قدر عاشقانہ ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہر وقت اپنے بھائی کے ہوٹل کے چولھے میں پنکھے سے کوئلے سلگاتا رہتاتھا مگر بازار میں ہر آنے جانے والی لڑکی کو ایسی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اس پر اگر اُسی وقت نہیں تو تھوڑے عرصے میں ضرور عاشق ہو جائے گی اوربہت ممکن ہے گھر میں جا کر خودکشی کر لے‘‘

اس تمہید کے بعد طاہر صاحب نے مجھے بتایا کہ مہتاب خاں ہوٹل سے باہر لوگوں کے لیے چائے لے جایا کرتا تھا ایک دن اُسے اسکول کی ایک استانی نے جو فزیکل انسٹرکٹرس تھی اور ہوٹل کے پاس ہی رہتی تھی چائے کی ٹرے لانے کے لیے کہا۔ اُس کے ہاں پہنچتے ہی وہ اس لڑکی پر عاشق ہو گیا لیکن مہتاب خاں کا بیان اس سے جدا ہے۔ اس نے طاہر صاحب اور اُن کے دوستوں سے ٹھیٹ پٹھانی لہجے میں کہا۔

’’خو وہ رن جو اسکول میں پڑھاتی ہے، مجھے دیکھتے ہی گرم ہو گئی۔ خوام خربرو ہے جواں ہے۔ دیکھو اب کیا ہو۔ جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ ‘‘

اُس کی جان کے لالے پڑے۔ وہ یوں کہ اس نے اپنے بھائی کے ہوٹل کے گلے سے پچاس روپے اڑا لیے اور کسی اور ہوٹل میں ٹھاٹ سے بیٹھ کر اپنے دوستوں کو یہ بات سنائی کہ مس مراد ( یہ اس لڑکی کا نام ہے ) بہت بڑی پیلے رنگ کی موٹر میں انار کلی سے گزر رہی تھی وہ ایک دکان پر کھڑا نسوار لے رہا تھا کہ عین اُس کے قریب اپنی موٹر رکوائی۔ باہر نکل کر سر بازار اُس سے ہاتھ ملایا اور اپنے پرس سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اُس کو دیئے اور یہ جا وہ جا۔ مہتاب خاں کا بیان تھا کہ جب مس مراد نے اُس سے ہاتھ ملایا تو وہ محبت کے شدید جذبے سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اُسی رات جب مہتاب خاں چوری کے پچاس روپے، کچھ ہوٹلوں میں باقی کے ہیرا منڈی میں خرچ کر چکا تھا اس کے بڑے بھائی نے جانے کس جگہ اُس کی گردن ناپی اور ایسے زور سے ناپی کہ وہ دو دن تک بِلبلاتا رہا لیکن اُس نے کسی پر یہ ظاہر نہ کیا ( حالانکہ حقیقت کا علم ہوٹل میں ہر آنے جانے والے کو تھا ) کہ اُس نے روپے چرائے تھے۔ وہ برابر یہی کہتا رہا کہ اُس کی جوانی اور اس کے حسن سے متاثر ہو کر وہ اُسے روپے دیتی رہتی ہے۔ دوسری مرتبہ اُس نے ساتھ والے دکاندار کے سو روپے چرائے اور انارکلی کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے دوستوں سے کہا کہ مس مراد نے اُسے یہ رقم عیش کرنے کے لیے دی ہے۔ وہ بہت مرعوب ہوئے لیکن دوسرے روز مہتاب خاں پکڑا گیا۔ چند روز حوالات میں رہا پھر مقدمہ چلا چونکہ ثبوت کوئی نہ تھا اس لیے بری ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد مس مراد کا اس سے عشق اور زیادہ بڑھ گیا بلکہ یوں کہیے کہ اب وہ اپنی روایتی عاشقانہ بے اعتنائی ترک کر کے اس کو ہر وقت یاد کرنے لگا۔ چولھا سلگاتے وقت یا صبح کو جھاڑو دیتے ہوئے وہ مس مراد کا نام لیتا۔ خومس مُراد۔ تو ہی اماری مراد پوری کرے گی۔ اب اُس نے روپے پیسے کا سرقہ بند کر دیا، لیکن مکھن کی چوری شروع کر دی ہر روز وہ اپنے بھائی کے ہوٹل سے کم از کم مکھن کی دو ٹکیاں اڑالیتا آس پاس کے جو اور ہوٹل تھے ان سے بھی وہ صرف مکھن ہی چراتا اور کھاتا تھا۔ ہر روز اس قدر مکھن کھانے کا یہ اثر ہوا کہ مہتاب خاں اچھا خاصا ڈیری فارم بن گیا۔ اُس کے بدن سے اُس کے منہ سے اس کے لباس سے مکھن ہی کی بو آنے لگی۔ وہ اپنی صحت بنا رہا تھا اس کا یہ کہنا تھا کہ ہر عورت صحت اور جوانی پر مرتی ہے لیکن طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ ہر مکھن چور ٗ کرشن کنہیا نہیں بن سکتا ٗ اس کی آنکھیں ویسی کی ویسی چُنھی تھیں۔ اب کچھ مس مراد کے متعلق سُن لیجیے۔ طاہر صاحب نے جب ان کے حدوداربعے کے متعلق اِدھر اُدھر پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ اس کی ماں بھنگن ہے اور ابھی تک کوٹھے کماتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کا بول و براز اٹھاتی ہے۔ چونکہ وہ اور اس کا خاوند عیسائی ہو گئے تھے اس لیے اُن کی لڑکی مس مراد نے تھوڑی سی تعلیم حاصل کی اور ایک اسکول میں فزیکل انسٹرکٹرس ہو گئی۔ خوش شکل تھی اس لیے اس کے کئی چاہنے والے پیدا ہو گئے جو اُس کی تمام آسائشوں کا خیال رکھتے تھے۔ مہتاب خان اُس کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ ہوٹل میں کوئلے جلاتا اور آہیں بھرتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے یارو دوستوں سے باتیں کرتا تو بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کرتا کہ مس مراد اُس پر بہت بری طرح مرتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ مس مراد جو بے شمار عاشقوں کے درمیان گھری رہتی تھی اس کو مہتاب خاں کی موجودگی کا علم ہی کیا ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس بے چارے کی حقیقت ہی کیا تھی۔ ایک دن مہتاب چائے کی ٹرے کر مس مراد کے یہاں گیا۔ جس جگہ وہ رہتی تھی وہاں ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ اس میں لوکاٹ کے بوٹے تھے۔ مہتاب کو یہ پھل بے حد پسند تھے۔ معلوم نہیں کیوں۔ ٹرے لے کر اندر گیا تو وہاں مس مراد کے دوست احباب بیٹھے لوکاٹیں کھا رہے تھے۔ مس مراد نے اسے چار پانچ دانے شاید اس لیے دئیے کہ موسم کا پہلا میوہ تھا۔ وہ خوش ہوا۔ واپس ہوٹل آیا تو اُس کا بڑا بھائی لوکاٹیں کھا رہا تھا۔ جو مس مراد کی دی ہوئی لوکاٹوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی اور رسیلی تھی لیکن مہتاب یہ ماننے سے منکر تھا۔ قریب قریب چخ ہو گئی۔ اس کے بڑے بھائی نے تاؤ میں آ کر کہا: اگر تمھیں اپنی مس مراد کی لوکاٹیں پسند ہیں اور جیسا کہ تم کہتے ہو وہ تم پر مرتی ہے تو ایک بوٹا وہاں سے لے آؤ اور ہوٹل کے سامنے لگا دو‘‘

رات بھر مہتاب خاں غائب رہا۔ اُس کے دوستوں کا خیال تھا کہ مس مراد نے بلالیا ہو گا۔ اُس نے سوپچاس روپے بھیج دئیے ہوں گے۔ جس سے عیاشی کر رہا ہو گا۔ مگر صبح سڑک پر آنے جانے والے یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ اُس کے ہوٹل کے ساتھ جہاں ایک گڑھا تھا۔ لوکاٹ کا درخت لگا ہوا ہے۔ یہ اُس نے رات رات، وہاں سے جہاں مس مراد رہتی تھی اکھاڑا تھا۔ معلوم نہیں کتنی مشقت کرنی پڑی ہو گی اسے۔ اپنے دوستوں سے مگر اُس نے یہی کہا کہ مس مراد نے اُسے یہ بوٹا خود اپنے ہاتھوں سے عنایت کیا ہے اس لیے کہ وہ اس پر سوجان سے فریفتہ ہے۔ یہ بُوٹا چند دنوں کے اندر مرجھا گیا، لیکن اس کا چرچا کافی دیر تک رہا۔ طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ وہ مہتاب خاں کی اس مداری پُنے سے خاصے متاثر ہوئے تھے، لیکن انھوں نے جب اپنی روایتی محکم پسندی سے کام لیتے ہوئے مہتاب سے کہا:

’’تم بکواس کرتے ہو۔ ذرا آئینے میں اپنی شکل دیکھو، مس مراد کیا، تمھیں ایک ٹکھیائی بھی کبھی منہ نہیں لگا سکتی۔ ‘‘

یہ سُن کر اُس نے اپنا مکھن کھایا ہوا سینہ تان کر جواب دیا۔

’’خو۔ تم کیسا بات کرتا ہے۔ خو تم نے وہ فلم نہیں دیکھا۔ نام تھا پر کھائیں۔ نہیں، پرچھائیں۔ خو، اُس میں ایک خوبرو لڑکی، ایک اندھے سے محبت کرتی تھی۔ ام اندھا نہیں ہے۔ آنکھیں توڑی سی خراب ہیں۔ پر اس سے کیا ہوا۔ مس مراد ام سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘

جیسا کہ طاہر صاحب کا کہنا ہے، یار لوگوں کی مہربانی سے مس مراد تک آخر یہ بات پہنچ گئی کہ مہتاب خاں، جس کی آنکھ میں پھولے ہیں اس سے بے پناہ عشق کرتا ہے۔ اس کا ردِ عمل خلاف توقع یہ ہوا کہ وہ اپنا مکان چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی اس لیے کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے دوسرے چاہنے والے جو مہتاب کے مقابلے میں، آنکھوں کے نہیں عقل کے اندھے تھے، اس کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیں۔ جب مہتاب کو معلوم ہوا کہ مس مراد چلی گئی ہے تو اس کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس روز اس نے ہوٹل میں جتنی مکھن کی ٹکیاں تھیں سب کھا لیں۔ اس کے بعد اس کا غم جب اور زیادہ بڑھا تو مکھن کھانے کی مقدار بڑھ گئی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کی توند بڑھ گئی۔ بڑا کاہل ہو گیا۔ چولھے میں کوئلے سلگاتے سلگاتے اونگھنے لگتا۔ بعض اوقات ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتا کہ لوگوں کو یہ احساس ہوتا کہ وہ ماؤف الدماغ ہو گیا ہے۔ طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اُسے ہوا ہوایا کچھ نہیں تھا۔ کشمیریوں کی زبان میں محض

’’ڈام‘‘

لگاتا تھا۔ جب کچھ دن گزرے تو اس نے شعر کہنے شروع کر دئیے مگر یہ شعر اُس کی اپنی تخلیق نہیں ہوتے تھے۔ اِدھر اُدھر فلمی گانوں کے بول توڑ مروڑ کر گنگنا دیتا، جس سے سننے والوں پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جذب کی حالت تک پہنچ چکا ہے، یا بہت جلد پہنچنے والا ہے۔ اُس کا ایک شعر طاہر صاحب کو یاد تھا جو اُنھوں نے مجھے سُنا دیا۔ ؂ دو دلوں کو یہ دنیا جینے ہی نہیں دیتی میری پھٹی شلوار کو سینے ہی نہیں دیتی اُس کی شلوار جو کافی گھیرے دار تھی، یوں تو ہمیشہ پھٹی رہتی، پر جب سے اُس کی مس مراد آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو وہ بالکل لیر لیر ہو گئی لیکن اُس کی مکھن خوری دن بدن بڑھتی گئی۔ اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ ہو گیا۔ ایک دن طاہر صاحب نے اُس سے کہا۔

’’تمہاری رگوں میں اتنا خون جمع ہو گیا ہے۔ کیوں نہیں اس میں چند اونس بلڈ بنک میں دے دیتے۔ ‘‘

وہ فوراً مان گیا۔ ڈاکٹروں نے اُس کا خون لیا جو بڑا صحت مند تھا۔ اُس کے بعد وہ ایک مرتبہ اور ہسپتال گیا۔ اُس کا خون لینے کے لیے سب ڈاکٹر ہر وقت تیار تھے۔ ایک مرتبہ اُسے خاص طور پر بُلایا گیا کہ اُس کے تازہ تازہ خون کی ضرورت تھی۔ جب وہ ہسپتال پہنچا تو اُسے معلوم ہوا کہ ایک مریض کے لیے اُس کے خون کی ضرورت ہے۔ اُسے کوئی عذر نہیں تھا۔ جب اسے فی میل وارڈ میں لے جایا گیا اور اُس کا خون مریض کے اندر داخل ہونے کا اہتمام کیا گیا تو اُس نے بستر پر دیکھا کہ مس مراد نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی ہے۔ مہتاب خاں کو معاً خیال آیا کہ شاید اسے چائے لانے کے لیے بُلایا گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے خود کو خالی ہاتھ محسوس کیا۔ لیکن جب اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے میز پر لٹایا گیا اور اُس کے خون کے کئی اونس مس مراد کے جسم میں داخل کیے گئے تو وہ کسی قسم کی نقاہت محسوس کیے بغیر اٹھا اور کہنے لگا

’’خو، یہ امارا بہن ہے۔ اَم چلا۔

سعادت حسن منٹو

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button