- Advertisement -

مہرو

وقار احمد ملک کا ایک اردو کالم

مہرو 

یہ قصبہ آج بھی اس جدید،پررونق اور مصروف دنیا سے کٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں صدیوں سے اداسی، خاموشی اور ویرانی کی حکومت ہے۔ یہاں کے لوگ بھی دھیمے لہجے میں باتیں کرتے ہیں ۔ وہ بولتے بھی اشد ضرورت کے وقت ہیں۔ عام طور پر معمول کی باتیں اشاروں کے ذریعے سے ہی ادا کر دی جاتی ہیں۔ اس قصبے میں کبھی کسی رنگین پرندے نے بسیرا نہیں کیا۔ اور نہ ہی کبھی کسی مہاجر پرندے کی مدھ بھری سیٹیاں کسی نے سنی ہیں۔ یہاں کی دوشیزائیں الھڑہوتے ہوئے بھی جسم کے پھول کھلتے ہی سگھڑاپے کی چادر اوڑھ لیتی ہیں۔ نہ کوئی کھسر پھسر ، نہ آنکھ مٹکے، نہ تانک جھانک۔ وہ جوانی کو بھی صوفیوں کی طرح گزار دیتی ہیں۔ نوجوان گھروں میں دبکے رہتے ہیں۔ اور کوئی امر مجبوری ان کو اپنے کوٹھوں کچیروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر بھی دے توایسے سر جھکائے چلتے ہیں جیسے جوانی کی اتراہٹ ان کے گرم خون سے کسی نے نچوڑ لی ہو۔ اس قصبے میں سب کچھ چپکے چپکے ہی ہو جاتا ہے۔ بچے خاموشی سے لڑکپن کو عبور کرتے ہوئے بڑے مودب انداز میں جوانی کو خوش آمدید اور پھر الوداع کہہ کر بڑھاپے کی کٹیا میں داخل ہو کر ہلکی اور کپکپاتی ہوئی کھانسی کھانس کھانس کرویران قبروں میں جا پڑتے ہیں۔ یہاں کی فضائیں شادی بیاہ کے بینڈ باجوں سے انجان ہیں تو فوتیدگی کے بین اور آہ و زاریاں بھی ان کے لیئے اجنبی ہیں۔
یہاں سے چند میل دور ریل کی پٹڑی اور صدیوں پرانا ریلوے سٹیشن ہر وقت اونگھتا رہتا ہے۔ تاہم دوگاڑیاں جو دن بھر میں یہاں سے گزرتی ہیں اس اسٹیشن اور قرب و جوارکی خاموشی کے لیئے واحد رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔بھلا ہو سرکار کا جس نے ان گاڑیوں کی آمد ورفت معطل کرکے اس علاقے کی سو فیصد خاموشی کو یقینی بنا دیا ہے۔
اکیسویں صدی کے درجن بھر سال گزرنے کے باوجود یہاں تک پٹرول، ڈیزل اور سی این جی کی بدبو نہیں پہنچی۔ کچھ سائیکل اور چند تانگے باہر کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ ہیں۔ تانگہ سٹینڈ سے جنوب کی طرف جائیں تودو سو قدموں کے فاصلے پرایک کچا راستہ دائیں طرف مغرب کو مڑ جاتا ہے۔ یہ راستہ سیدھا جائیں تو بوڑھے درختوں کا ایک پراسرار سا جھنڈ اور اس سے آگے قبرستان ہے۔جھنڈ سے تھوڑا پہلے دائیں ہاتھ پر دو کچیروں یعنی کچے کمروں پر مشتمل ایک بوسیدہ سا مکان ہے۔ اس مکان میں مہرو نامی خاتون اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔ مہرو کا یہ مکان شاید کبھی گھر ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ ایک گھر کی بنیادی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کچا صحن جس پر شاید برسوں پہلے آخری مرتبہ مٹی کا لیپ دیا گیا تھا اب جا بجا ٹوٹ چکا ہے۔ اس کے ارد گرد چار دیواری کی شکست و ریخت کے آثار موجود ہیں۔ مہرو کے ان کچے کوٹھوں پر وقت کا پہیہ اپنی گردش بھلا بیٹھا ہے۔ مہرو پہلے بھی خاموش تھی آج بھی چپ ہے۔ اسی چپ کے سہارے مہرو اپنی اس جاگیر کے اندر جانے کتنی صدیوں سے سانس کی ڈوری بٹ رہی ہے۔ تنہا لوگوں کی طرح اس نے کبھی خود کلامی کا بھی سہارا نہیں لیا۔ لیٹے، بیٹھے ، چلتے بس اس کچے راستے کو تکے جاتی ہے جو ان کوٹھوں کو باہر کی دنیا سے ملانے کا واحد ذریعہ ہے۔ مہرو کو اپنی سابقہ زندگی کے پر مسرت دن بھی یاد نہیں ورنہ کبھی تو اس کے پھیکے چہرے پر ہلکا سا تبسم دکھائی دے جاتا۔
مہرو کی شادی بخشو سے ہوئی تو وہ بینا تھی۔ گو زیادہ گوری چٹی نہ سہی لیکن قبول شکلی سے بھی کچھ بہتر تھی۔ دراز قد، بھرا ہوا جسم، لامبی زلفیں اور آنکھوں میں اجنبیت اس کو پہلی مرتبہ دیکھنے والے کے لیئے پہلا تعارف تھے۔بخشو قصبے سے کچھ فاصلے پر بٹھے پر اینٹیں تھاپتا تھا۔چند سو روپے بھی اس سستے زمانے کے

لحاظ سے ایک معقول آمدن تھی۔ ایک مرتبہ بخشو شہر گیا تو وہ مہروکے لیئے جلیبیاں لایا۔ مہرو نے جلیبیاں پہلے مرتبہ دیکھی تھیں۔ اس علاقے میں حلوے پر مٹھائی کی دنیا شروع ہوتی ہے اور حلوے پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔اس نے ان کو کنگن جیسی کوئی چیز سمجھ کر کلائیوں میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن بخشو کے منع کرنے پر اس نے جلیبیوں کو پہننے کی بجائے کھانا شروع کیا۔ مہرو نے زندگی میں پہلی مرتبہ بازار کی شے کھائی تھی۔ کتنے ہی دن جلیبیوں کی مٹھاس اس کی زبان پر چپکی رہی۔ بخشو نے شادی کے بعد اپنے اس گھروندے کے ارد گرد چھ فٹ بلند چار دیواری قائم کی تو اس کے دوست احباب سرگوشیاں کرنے لگے کہ دیکھو دیکھو بخشو اپنی حور کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بخشو کی عادت تھی کہ دوپہر کو کام سے لوٹتا تو کھانا کھاکر تھوڑی دیر کے لیئے سو جاتا۔ایک دن بخشوکے ہاتھ بٹھے میںآگ جھلساتے ہوئے جھلس گئے۔ مہرو نے اس دن بخشو کو اپنے ہاتھوں سے روٹی کھلائی۔ان کے گھر میں کھجور کے بان سے بنی دو چارپائیاں تھیں۔ مہرو اس کے آنے سے پہلے اس کی چارپائی پر سرخ رنگ کی چادر بچھا دیتی تاکہ بخشو کے جسم پر کھجور کے بان کی چبھن محسوس نہ ہو۔ ایک روز مہرو چادر بچھانا بھول گئی۔ اس دن بخشو کو بٹھے کے مالک نے کسی بات پر گالیاں دی تھیں۔ بخشو غصے میں تلملا رہا تھا۔ چارپائی کو چادر کے بغیر دیکھ کر اس نے جانے کیسے مہرو کو کہہ دیا کہ کیا اندھی ہو گئی ہو یا تمہارا دماغ کہیں اور ہوتا ہے؟ مہرو نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا۔ لیکن اس کے بعدچادر کا بچھانا اس کے لیئے ایسے ہو گیا تھا جیسے سانس کا لینا۔پھر ایک دن بخشو نے جب اس کو یہ بتایا کہ بہتر روزگار کے لیئے کل میں شہر جا رہا ہوں تو بھی مہرو خاموش رہی۔ لیکن اپنی کم گوئی کے باوجود آنکھوں کو نم ہونے سے نہ بچا سکی۔ بخشو کے جانے کے بعد مکان کی خاموشی دبیز ہو گئی۔
بخشو دراز قدخوبصورت نوجوان تھا۔ لاہور شہر میں باٹا فیکٹری میں ملازمت ڈھونڈنے میں اس کو دیر نہ لگی۔ محنت کے بل بوتے پر بہت جلد افسران کا اعتماد حاصل کر لیا۔ ہر ماہ پہلے ہفتے وہ اپنے گاؤں آتا تو مہرو کے لیئے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتا۔ فیکٹری کے اسسٹنٹ منیجر سہیل صاحب نے اس کو گھر میں رہائش فراہم کی تو بخشو کی بچت بڑھ گئی۔ بخشو نے ڈرائیونگ بھی سیکھ لی اور اب وہ سہیل صاحب کے بچوں کو سکول لانے اور لے جانے کا کام بھی کرنے لگا۔
کے ہاتھ بٹھے میںآگ جھلساتے ہوئے جھلس گئے۔ مہرو نے اس دن بخشو کو اپنے ہاتھوں سے روٹی کھلائی۔ان کے گھر میں کھجور کے بان سے بنی دو چارپائیاں تھیں۔ مہرو اس کے آنے سے پہلے اس کی چارپائی پر سرخ رنگ کی چادر بچھا دیتی تاکہ بخشو کے جسم پر کھجور کے بان کی چبھن محسوس نہ ہو۔ ایک روز مہرو چادر بچھانا بھول گئی۔ اس دن بخشو کو بٹھے کے مالک نے کسی بات پر گالیاں دی تھیں۔ بخشو غصے میں تلملا رہا تھا۔ چارپائی کو چادر کے بغیر دیکھ کر اس نے جانے کیسے مہرو کو کہہ دیا کہ کیا اندھی ہو گئی ہو یا تمہارا دماغ کہیں اور ہوتا ہے؟ مہرو نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا۔ لیکن اس کے بعدچادر کا بچھانا اس کے لیئے ایسے ہو گیا تھا جیسے سانس کا لینا۔پھر ایک دن بخشو نے جب اس کو یہ بتایا کہ بہتر روزگار کے لیئے کل میں شہر جا رہا ہوں تو بھی مہرو خاموش رہی۔ لیکن اپنی کم گوئی کے باوجود آنکھوں کو نم ہونے سے نہ بچا سکی۔ بخشو کے جانے کے بعد مکان کی خاموشی دبیز ہو گئی۔
بخشو دراز قدخوبصورت نوجوان تھا۔ لاہور شہر میں باٹا فیکٹری میں ملازمت ڈھونڈنے میں اس کو دیر نہ لگی۔ محنت کے بل بوتے پر بہت جلد افسران کا اعتماد حاصل کر لیا۔ ہر ماہ پہلے ہفتے وہ اپنے گاؤں آتا تو مہرو کے لیئے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتا۔ فیکٹری کے اسسٹنٹ منیجر سہیل صاحب نے اس کو گھر میں رہائش فراہم کی تو بخشو کی بچت بڑھ گئی۔ بخشو نے ڈرائیونگ بھی سیکھ لی اور اب وہ سہیل صاحب کے بچوں کو سکول لانے اور لے جانے کا کام بھی کرنے لگا۔
مہینہ کی پہلی تاریخ سے مہروکے کان بخشو کی چاپ کا انتظار شروع کر دیتے۔بخشوچکر لگا جاتا تو باقی دن اچھے گزر جاتے کیونکہ اس کو انتظار کی کوفت سے تو نجات مل جاتی۔ اس چین اوربے چینی کے امتزاج نے مہروکی صحت پر برا اثر ڈالا اور وہ کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ پھر آہستہ آہستہ بخشو کے قصبے آنے کے وقفے بڑھتے گئے۔ مہرو کمزور ہوتی گئی۔پھر اچانک کسی دن جب بخشو آ جاتا تو مہرو کے اس خزاں رسیدہ چمن میں چپکے سے بہارآ جاتی اور کئی مہینوں کے بیمارجسم کو قرار سا آ جاتا۔ بخشو کا آنا گو اب ایک تکلف بنتا جا رہا تھا لیکن مہرو ان تکلفات سے بہت دور زندگی گزار رہی تھی۔
مریم اپنے والدین کی حادثاتی موت کے بعد اپنے چچا سہیل کے پاس رہائش پزیر تھی۔ مریم کا والد ورثے میں بیٹی کے لیئے کافی کچھ چھوڑ گیا تھا جس میں ضلع قصور میں ایک وسیع و عریض زرعی فارم بھی تھا۔ مریم اکثر اپنی سیاہ رنگ کی گاڑی پربخشو کے ساتھ اس فارم پر جایا کرتی۔ مریم ایک پڑھی لکھی اور تصوراتی دنیا میں زندگی گزارنے والی لڑکی تھی۔ رومانویت کی ساری خصوصیات مریم میں موجود تھیں۔ لیکن دیہی اور ویران علاقوں کی زندگی نے تو اس کو مغلوب کر رکھا تھا۔ رومینٹک ہونے کے باوجودشیلے اور بائرن اس کو پسند نہ تھے۔ وہ اکثر والٹر سکاٹ اور ورڈزورتھ کی کتابوں میں گم رہتی۔ بخشو کو جب وہ خدا بخش کہتی تو بخشو کو یوں لگتا کہ وہ کسی اور سے مخاطب ہے۔ مریم اب بخشو کو صرف ڈرائیور نہیں سمجھتی تھی بلکہ انتہائی عزت اور احترام سے برتاؤ کرتی۔یہ سب کچھ ان سے منسلک سارے لوگ کب سے محسوس کر رہے تھے۔
جب مریم نے ایک دن چچا کو یہ خبر دی کہ میں نے خدا بخش کو اپنا جیون ساتھی چنلیا ہے تو سہیل صاحب کو کوئی حیرت نہ ہوئی۔ پچھلے چند ماہ سے ان کے تال میل کو وہ بصیرت کی نگاہوں سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اورآج ان کا اندازہ سو فیصد ٹھیک ثابت ہوا تھا۔
مریم کی شادی کی خبر ملک خدا بخش نے سرسری طور پر اولاد نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے مہرو کو دی تو مہرو نے کوئی خاص رد عمل ظاہر نہ کیا۔ اس نے صرف ایک گزارش کی کہ مجھے اپنے اس گھر سے نہ نکالنا اورمہرو کو اپنے نام سے جدا نہ کرنا۔ خدا تجھے خوش رکھے ،میں اپنی زندگی گزار لوں گی۔ ملک خدا بخش کو آج پہلی مرتبہ مہرو پر دل سے پیار آیا۔
مہرو کا گاؤں ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اس کا مکان بھی جوں کا توں ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ اس میں گراوٹ کی گنجائش نہیں تھی۔ صرف یہی کچھ ہوا کہ اس کے کچیروں کے ارد گرد کچی دیوار گر گئی اور گاؤں کے مریل لوگوں نے مردوں کو گورستان لے جانے کے لیئے اس کے صحن کو رستہ بنا لیا۔
یہاں کی زندگی ابھی بھی ٹھہری ٹھہر ی سی ہے۔ نہ پرندوں کے گیت، نہ جانوروں کی آوازیں، نہ بچوں کا رونا، نہ جوانوں کے قہقہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ مہرو کب کی بڑھاپے کی سلطنت میں داخل ہو چکی ہے۔پتھریلی آنکھیں ، کھچڑی بال، سوکھا جسم لیکن سانس پھر بھی رواں دواں ہے۔ غربی سمت میں بوڑھے درختوں میںآ ج جانے کہاں سے طوطوں کا جوڑا اڑ کر آ گیا ہے اور ٹیں ٹیں کر کے اس علاقے کی اداس خوبصورتی کو خراب کر رہا ہے۔نومبر شروع ہو چکا ہے۔ سرد ہوائیں چلنا شروع ہو چکی ہیں۔ تتر بتر سوکھیپتوں نے مہروکے آنگن میں رقص شروع کر دیا ہے۔ مہرو اپنے صندوق کے ساتھ کونے میں زمین پر اکڑوں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس صندوق کی چابی پچھلے سال کہیں گم ہو گئی تھی ۔ نظر نہ ہونے کے باوجود اس نے کئی دن کمروں اور صحن میں ٹٹول ٹٹول کر چابی ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن چابی کا نہ ملنا تھا نہ ملی۔اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو مہرو کے صندوق کی نئی چابی بنوا دیتا۔ صندوق کی چند چیزیں جو اصل میں یادوں کا خزانہ تھیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ مہرو کی بے نور آنکھوں کو دیکھ کر کبھی ڈر لگتا ہے تو کبھی ہنسی آتی ہے۔ کبھی حیرت تو کبھی افسوس۔ بصارت ہی اس کی کل کائنات تھی ۔ وہ بھی نہ رہی۔ طوطی اور طوطے کی اٹھکیلیاں مہرو کو غمگین کر رہی ہیں۔ اگر اس کی آنکھیں ہوتیں تو وہ کب کا پتھر مار مار کر ان پرندوں کو اڑا چکی ہوتی۔
اچانک دور سے کسی موٹر کے آنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ مہرو کے دل میں طوطوں کے ملاپ کا دکھ اچانک ختم ہو جاتا ہے۔ بھاں بھاں کرتی ایک بھاری بھرکم گاڑی مہروکے آنگن میںآرکتی ہے۔ ہلکے گرے رنگ کے سوٹ میں ملبوس کالی عینک لگائے ملک خدا بخش اپنی میم مریم اور دو بیٹوں کے ساتھ گاڑی سے نیچے اترتا ہے۔ گاڑی کے چار دروازوں کے ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ کی چار آوازیں اس پر سکون خاموشی کے خاتمے کے لیئے کافی ہیں۔ ننھا مبشر امی کیانگلی پکڑ کر چیخ کر کہتا ہے” امی امی وہ دیکھو بکس کے ساتھ کمرے میں ایک چڑیل بیٹھی ہوئی ہے۔” دوسرا بھائی احسن بھائی کی درستگی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ چڑیل نہیں بلکہ کوئی بھکارن فقیرنی ہے۔ ملک خدا بخش کو ننھے فرشتوں کی معصوم بولیاں سن کرہنسی آ جاتی ہے۔ وہ چاروں موہنجو دڑو کے کھنڈرات سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ مہروبخشو کی آواز پہچان چکی ہے۔ مہرو کی زبان جلیبیوں کی مٹھاس سے لپڑ گئی ہے۔ مہرو کو اپنی کالی کالی سوکھی کلائیوں پر سرخ سرخ موٹی موٹی رسیلی جلیبیاں لپٹی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔مہرو چشم تصور میں بخشوکے مونہہ میں مکئی کی روٹی کے چھوٹے چھوٹے نوالے ساگ اور مکھن میں ڈبو ڈبو کر ڈال رہی ہے۔ مہرو سوچوں میں گم چڑیل، فقیرنی اور منگتی بنے صندوق کے پاس کونے میں لپٹی بیٹھی ہے۔اس چڑیل، فقیرنی اور منگتی کو کچھ مانگنا ہے۔ لیکن یہ اندھی بڑھیا آج گونگی بھی ہو چکی ہے۔
ملک خدا بخش اپنے بچوں کو موہنجو دڑو کی سیر کراتے کراتے دوسرے کمرے میں لے آتا ہے۔ اندر کا منظر دیکھ کر اس کا کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے۔ دائیں طرف دیوار کے ساتھ بان کی دو چارپائیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی پڑی ہیں۔ ایک چارپائی پر سرخ رنگ کی چادر بغیر سلوٹوں کے بچھی پڑی ہے۔ یہ سرخ رنگ اس گھرکا واحد رنگ ہے اور اس کے علاوہ ہر طرف بے رنگ اور پھیکی دنیا آباد ہے۔ مریم اس پر سکون رومانوی ماحول سے بہت متاثر ہوئی ہے۔اس خاموش پرستانی ماحول میں وہ معروف انگریز جوا نمرگ شاعر john keatsکی شہرۂ آفاق نظم ode to autumn کے اشعار گنگنانا شروع کر دیتی ہے۔ وہ اپنے پرس سے چند سرخ رنگ کے نوٹ نکال کر اندھی فقیرنی کے ہاتھ میں دے کر اپنے بچوں اور سہاگ کی سلامتی کا صدقہ اتارتی ہے۔
تھوڑی دیر میں یہ چھوٹاسا قافلہ اپنی آرام دہ گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لیتا ہے۔ فقیرنی ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ بے نور آنکھوں سے بخشو کو الوداع کہہ کر اپنے عروسی کمرے میں آ کر سرخ چادر کو لپیٹ لیتی ہے۔ دوپہر کے بعدچادر کا چارپائی پر پڑارہنا اسیاچھا نہیں لگتا۔ طوطی اور طوطا مہرو کے کچیرے کی منڈیر پر آبیٹھے ہیں۔ ان کی ٹیں ٹیں نے اس پر سکون اور خاموش مکان کو پھر سے ایک گھر بنا دیا ہے۔

وقاراحمد ملک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
حیات عبد اللہ کا اردو کالم