میں اور چاند
ادھورے تم ، ادھورے ہم
مگر دونوں چمکتے ہیں
دِلوں میں داغ دونوں کے
مگر یہ لب مہکتے ہیں
بہت ویرانیاں دِل میں
بہت اُجڑی سی بستی ہے
نہ کوئی گونج دونوں میں
نہ کوئی آس دونوں میں
کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں
کوئی بادل برسنے کو
کہاں سے مانگ کر لائیں
کوئی کلیاں مہکنے کو
کہاں پہ چھوڑ آئے ہیں
ہم اپنے مہربانوں کو
کہاں پر کھو گئیں نظریں
جو ہم سے بھی لپٹتی تھیں
کہاں پر ہیں وہ تعبیریں
جو ہم کو لے بھٹکتی ہیں
کوئی تو قدر ایسی ہے
جو ہم میں مشترک ٹھہری
وہ شاید اِک اداسی ہے
وہ شاید اِک کہانی ہے
وہ شاید ایک لمحہ ہے
مقید ہو چکا ہم میں
وہ شاید اِک ادھورا پن
جو ہم کو بس ستاتا ہے
وہ آخر کیا ہے جو ہم میں
مسلسل سرسراتا ہے
مری تکمیل لمحاتی
تری تکمیل لمحاتی
ترے اندر بھی تنہائی
مرے اندر بھی تنہائی
مگر پھر بھی چمکتے ہیں
نجانے کس کے دھوکے میں
ہمارے لب مہکتے ہیں
شازیہ اکبر