- Advertisement -

لیکن گومتی بہتی رہی

قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ

لیکن گومتی بہتی رہی
نشاط محل ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں پیانو بہت مدھم سُروں میں بج رہا تھا۔ اوما ریڈیو پر پروگرام ’’ پنکھڑیاں‘‘ کے لیے گرباکی مشق کرواتے کرواتے اچھی طرح تھک چکی تھی۔ سندھ کے کنارے __ اب تو جیون ہارے __ اب تو جیون ہارے __ اکتاہٹ کی انتہا۔ نشاط کا سارا اپرفلور بالکل خاموش تھا۔ نیچے صرف پیانو بج رہا تھا۔ یا مس لینڈرم اپنے کمرے میں ٹائپ میں مصروف تھیں یا بارش کی ترچھی ترچھی پھواریں اور ہوا کے ریلے ہرے گل داؤدی کے پودوں کو جھکائے ڈال رہے تھے۔ اور پھر اسی وقت چیپل کا بھاری سفید دروازہ آہستہ سے کُھلا اور صلیب کے سامنے روشن شمع کی لَو ہوا کے جھونکوں سے ایک ثانیہ کے لیے بھڑکی اور بُجھ گئی۔ لیکن تم ایسے دنیا جہان سے بے زار کیوں بیٹھے ہو __ کہو خوب لکھ رہی ہو__ خوب لکھ رہی ہو۔ ‘‘ ’’ یوں نہیں، واہ ۔ ٹھیک سے تعریف کرو۔‘‘ ’’ ٹھیک سے تعریف کر تا ہوں ۔ سبحان اللہ ۔ اللہم زد فزد ۔ ان اللہ مع الصابرین __‘‘ ’’ جانتا ہوں وہی ہزاروں برس پرانی لغو داستان۔ ابھی چیپل کا دروازہ کھلا ہے۔ یقینا ہیروئن صاحبہ اس میں داخل ہوں گی۔ پھر آپ کچھ میڈوناکی تقدیس، مونا لیزا کے تبسّم یا اسی قسم کا کچھ تذکرہ کریں گی کہ پڑھنے والے بے چارے مرعوب ہوجائیں۔ اس کے بعد کچھ تحلیلِ نفسی ہوگی، کچھ چاندنی کی لہروں پر ایک انگریزی گیت گایا جائے گا۔ ورنہ پھر اوپلے ، بھینس ، کلرک __ بیل گاڑیاں__ بنگال __ کوئی جدّت پیدا کرو اپنی کہانی میں۔‘‘ ’’ تو کہاں سے لاؤں جدّت؟ دنیا ہی اتنی پرانی اور گھسٹی پٹی ہے جو کام یا بات بھی شروع کروں وہ مجھ سے پہلے پچپن کروڑ دفعہ ہوچکی ہوگی۔ اب تمہارے لیے جہانِ نو پیدا کیا جائے۔ بالکل نئے اورانوکھے کردار اس میں آئیں۔‘‘ ’’ جہانِ نو۔ اووف۔ اس سے زیادہ پرانی بات اور کیا ہوگی۔ روز شام کو یار لوگ کافی ہاؤس میں اکٹھے ہو کر ایک جہانِ نو پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، بلکہ اس سلسلے میں تمہاری سلطانہ آپا تو ایک بے انتہا بصیرت افزا مقالہ اپنی پی ۔ایچ۔ ڈی۔ کے لیے لکھ رہی ہیں تعمیر بعد از جنگ __‘‘ ’’ چُپوتو، ابھی اپنی اوریجنیلٹی کا مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ تمہیں منطق بالکل نہیں آتی۔‘‘ ’’ یہی تو کہہ رہا ہوں بھائی__ یہ گومتی تو اسی طرح بہتی رہے گی۔ تمہارا نظام اور تمہارا ماحول تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ تم کتنا ہی اُچھلو کودو، قہوے کی پیالیاں کی پیالیاں ختم کرڈالو مگر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ اس پر یاد آیا کہ عسکری بلگرامی اور عزت کے انتقال پر تم لوگ کتنا کتنا روئی تھیں۔ ہائے اب جلوسوں میں ہماری قیادت کرنے کون آئے گا؟ اللہ ذکیہ کیا کرے گی بے چاری؟ افوہ! عزت کا نتیجہ اس کے مرنے کے صرف ایک ہفتہ بعد نکلا۔ میڈیکل کالج کی برجیوں کی طرف تو دیکھا ہی نہیں جاتا۔ اب تو یہ __ وہ__ کیا__ وہ شعر بھی تو موزوں کیا گیا تھا: ؎ تذکرہ عسکریِ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ اور اگلے سال ہی آپ سب کی سب ذکیہ کے عقدِ ثانی میں نہایت مستعدی سے تشریف لے گئیں اور__ ‘‘ ’’ یہ تم نے کیا ذکر چھیڑ دیا۔ یہی تو طریقہ اظہارِ غم کا ہوتا ہے۔ اور کیا کرتے؟ ‘‘ ’’ جی ہاں۔ اب آپ شعلوں کو بڑے رومان اور افسردگی کے ساتھ ملاحظہ فرما رہی ہیں۔ گویا میں نے عسکری اور عزت کی یاد تازہ کر کے بربطِ دل کے تار لرزاں کردیئے۔ ارے کتنا بنتی ہو تم لوگ؟ ‘‘ ’’ آپ موضوع سے بہت دور ہٹے جارہے ہیں۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں۔‘‘ ’’ پرسوں شکنتلا سے کہا جارہا تھا: ’’ اوہ مس راجپال You were just wonderful last evening. اگر آپ نہ ہوتیں توبس جانے کیا ہوجاتا۔ (یقینا آپ حضرات انتقال فرما جاتے اور یونی ورسٹی میں پولٹری فارم یا گرام سدھار کا محکمہ قائم ہوجاتا۔) اور شکنتلا اس طرح مسکراتی ہے جیسے آپ کے قصیدے کے ایک ایک لفظ کو سچ سمجھ رہی ہے۔ اور اسی وقت حوّا بائی سے التجا ہو رہی تھی: ’’ دیکھیے مس رحمن، مینی فیسٹو پر آپ کے دستخط تو بہت ہی ضروری ہیں۔ بلکہ علی سردار صاحب نے کہا تھا___ _‘‘ ’’ اچھا تم افسانہ شروع کرو اپنا۔‘‘ ’’ ابھی دیباچہ ہورہا ہے۔ چپکے بیٹھے سنتے رہو۔ پٹی ہوئی زندگی میں کچھ تازگی اور ناولٹی کا تجربہ کرنے کے شوقین ہیں۔ لیکن یہ تم لوگوں کی ساری قوم کی قوم ہی__ ‘‘ ’’ بھئی تم خود ہی کہہ رہی تھیں کہ نوولٹی کہاں سے آئے۔ دنیا تو روز بروز زیادہ پرانی ہوتی جارہی ہے۔ لیکن رہنا تو اسی میں ہے۔ یوکلپٹس کے جھنڈ میں چھپا ہوا تمہارا کالج کا چیپل اسی طرح ساکت اور بے حس کھڑا ہے۔ موتی محل برج کے اوپر سے اب تک نہ معلوم کتنے ایک دوسرے کے ساتھی ٹولیاں بنا بنا کر قہقہے لگاتے گزر چکے ہیں جو اب ان ہی حالات میں واپس نہ آئیں گے۔ مگر اس کی محرابوں کے نیچے ندی کا پانی ہمیشہ یوں ہی سکون سے لہراتا ہوا بہتا رہے گا۔ سچ مچ تمہاری یہ بے زاری اور افسردگی کی ادا بھی اب اپنا نیا پن کچھ کچھ کھو چکی ہے۔ تم ہر بات سے جلد اکتا کر پریشان اور غمگین ہوجاتی ہو۔ دنیا میں زندہ رہنا سیکھو بی بی۔‘‘ ’’ بھئی اب اس فلسفے کو چھوڑو اپنے ۔ میں کہانی لکھ رہی ہوں۔ تم کوئی اچھا سا عنوان سوچو اس کے لیے۔‘‘ ’’ ہیروئن کون ہے؟‘‘ ’’ جواب چیپل میں داخل ہونے والی تھی، یعنی ثریا۔‘‘ ’’ مگر ثریا بگڑ جائے گی۔‘‘ ’’ بگڑے گی تو ہم اسے منالیں گے۔‘‘ ’’ اس ’’ ہم‘‘ میں میں بھی شامل ہوں۔‘‘ ’’ جی قطعی نہیں۔ میں اپنی لکھنؤ کی زبان استعمال کر رہی ہوں__ ہائے لکھنؤ۔ آپ صرف عنوان بتا دیجیے۔‘‘ ’’ گویا سارا کام تو میں کروں اور نام آپ کا ہو۔ تم لڑکیاں … ‘‘ ’’ افوہ ، ذرا سی آپ سے مدد جو مانگی تواتر اگئے۔ اب تک جتنے افسانے میں نے لکھے ہیں وہ سب آپ ہی نے _____‘‘ ’’ اوہو ، آپ اور تخیلات ۔ اے فلک کِج رفتار تو کیسی کیسی زیادتیاں روا رکھتا ہے۔ ذرا ٹھہرنا۔ میں ہنس لوں ۔‘‘ ’’ اترائے جاؤ۔ ہم تولکھتے ہیں افسانہ ۔ بیچ کھیت لکھیں گے۔ بلکہ ہم نے عنوان بھی منتخب کر لیا__ جھپا کے __ ‘‘ ’’ خاصا اچھا ہے۔ زیادہ لطافت آمیز ترقی پسند ی کی خواہش ہو تو یہ لو__اور سڑک بنتی رہی__ اور ریل چلتی رہی__ اور گومتی بہتی رہی__ اور بارش ہوتی رہی__ اور بانسری بجتی رہی __‘‘ ’’ خدا کی قسم ۔ افوہ بھئی!‘‘ ’’ دیباچہ ختم ۔ اور کوئی اوریجنل سا عنوان بتاؤ۔‘‘ ’’ اچھا چپ ہوجاؤ۔ دیکھو، ایک دنیا ہے چھوٹی سی، چمکتے سورج، لہکتے سبزے اور مہکتی کلیوں کی بستی – یوکلپٹس اور انجیر کے درختوں سے گھری ہوئی جس میں بڑے بڑے گل داؤدی کے گچھوں پر عنابی اور زردی پروں والی تتلیاں ناچتی رہتی ہیں۔ بس جیسے بیتھون کا نغمۂ مسلسل جو مسز جارڈن کریسنتھ کورٹ کی طرف دیکھتی ہوئی بجاتی رہتی ہیں اور جہاں لمبے لمبے کو ریڈ ورز کے شفاف فرشوں پر سے رنگین پر چھائیاں ہنسی اور قہقہوں کے سُریلے شور کے ساتھ ادھر سے ادھر گزرتی ہیں اور پس منظر میں آرگن کے پردوں سے ایک ملکوتی موسیقی بلند ہوتی ہے اور اس دنیا کے کنارے بوٹ کلب کی ڈھلوان کے نیچے گومتی بہت سی پرانی کہانیاں سناتی ہوئی چلی جارہی ہے__رواں اور مترنّم۔ اس دنیا کے باسی ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔ بہت بھولے، بہت معصوم اور بہت شیریں۔ ان کی ننّھی منی مسرتیں‘ جن کا مقابلہ سارے جہاں کی دولتیں نہیں کرسکتیں۔ ہفتے اور اتوار کی شام کو ’’ کامریڈ ایکس‘‘ یا ’’ بلڈ اینڈ سینڈ‘‘ جیسا ایک اچھا سا فلم۔ نیو انڈیا میں ایک مختصر سی دل چسپ پارٹی۔ ریڈریو پر ’’ پنکھڑیوں‘‘ کا ایک کامیاب پروگرام عشرت رحمانی جی ۔ ایم صاحبان کی تعریفیں اور سعیدہ آپا کی مسکراہٹ ۔ اور پھر یہ بے حد ہنگامہ خیز مصروفیات ۔ اگست کنسرٹ کی گرینڈ ریہرسل، یونین کا مشاعرہ ، فرینڈز آف دی سوویت کا جلسہ، اودے شنکر یا کشور سا ہو کا ایٹ ہوم، مس عزیز یا مس خانم حاجی کاٹینس میچ۔ انہیں زندگی کے بوجھ کو محسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ اس دنیا کے باسی ہمیشہ ہنستے رہتے ہیں۔ ’’ لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ آنسوؤں کے جگمگاتے ہوئے قطرے ان کی آنکھوں میں ناچنے لگتے ہیں اور بیتھون کے نغمے اور گومتی کی لہریں اور لنتھم کورٹ کی تتلیاں __ ان سب پر ایک ٹھنڈا سا دھندلکا چھا جاتا ہے __ اور اس دھندلکے میں چھپی ہوئی یہ دنیا غمگین ہوجاتی ہے۔ ’’ سنو! ایک دفعہ کیا ہوا۔ اسی گومتی کے اس پار سے ، جہاں چاندنی میں گیت بہتے تھے اور موجوں میں رنگ برنگی روشنیاں ناچا کرتی تھیں‘ ایک سرمئی سی گھٹا اٹھی جو آہستہ آہستہ سارے آسمان پر چھا گئی۔ اور پھر آندھی آئی اور بارش کے ریلے میں گل داؤدی کی ٹہنیاں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ اور امرودوں کے باغ میں چھپے ہوئے سفید اور ٹھنڈے چیپل کے اندر مادرِ خدا وند کے مجسمے پر کرنیں برساتی ہوئی سبز قندیل آہستہ آہستہ ہلنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے تھک چکی تھی۔ بھئی ایسا کیوں ہوتا ہے آخر؟ یعنی کوئی بات بھی۔ریشیل خاموشی سے چپکے چپکے التجا کر رہی تھی۔ ہولی میری مدَرَ اور گوڈ۔ ہولی میری مَدر اور گوڈ ۔ ثریا نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ ہولی میری خاور __ خاور __ خاور __ خالد بھئی! تم ہمارے کالج ڈے کے ایٹ ہوم میں ضرور آنا۔ میں تمہارے مرغی میجر بھائی کے لیے دعوت نامے بھجوادوں گی۔ اچھا۔ پچھلے سال ہم نے ’’ کوالٹی اسٹریٹ‘‘ کیا تھا۔ اس کی ہیروئن چندر لیکھا تو آج کل امریکہ میں ٹھاٹ کر رہی ہے۔ اب کی دفعہ ہم ’ لالہ رُخ‘ ایکٹ کریں گے۔ اور معلوم ہے کل ہم مے فیئر میں رام گوپال سے ملے تھے۔ بہت ہی ڈیسنٹ آدمی ہے وہ۔ بہترین تلفظ اور لہجے میں انگریزی بولتا ہے ۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں اسے مدعو کیا گیا تھا۔ وہ بہت دیر تک اسی طرح سیڑھیوںپربیٹھی اپنی دل چسپی کی باتیں کرتی رہی تھی۔ یہ باتیں خاور کے لیے بالکل نئی اورانوکھی تھیں۔ شام ذراخنک ہوتی جارہی تھی۔ جب چپراسی نے خاور کے نام کی سلپ لا کر دی وہ سیدھی کھیل کے میدان سے واپس آکر وہیں نکولس ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی۔ اور خاور پریشان سا ہوگیا۔ فلورنس نکولس ہال کے پورچ کے عظیم الشان یونانی ستون، پام کے بھیگے بھیگے پتّے ، عنابی گلاب کی خوشبو سے بوجھل ہواؤں میں تیرتی ہوئی ’’ لیڈی آو اسپین آئی لویو ‘‘ کی لہریں۔ بارش کے چھینٹوں سے دھلی ہوئی سیڑھیوں کے مرمریں پتھر سرد تھے۔ سرد اور بے حس۔ عنابی گلاب کی کلیوں اور ’’ لیڈی آو اسپین ‘‘ کے نغموں میں گرمی تھی اور کیف، کیوں کہ وہ زندگی کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا۔ ہوا کا ایک جھونکا گل مہر کی ٹہنیوں کو ہلاتا ہوا نکل گیا اور دفعتاً ثریا کو خیال آیا کہ پھوپھی امّاں کی کوٹھی وہاں سے زیادہ دور نہیں اور یہ بھی کہ فرّخ اس کی بہترین دوست ہے __ فرّخ! اس روز کریسنتھ کورٹ پر تتلیاں رقص کر رہی تھیں۔ فرخ کا پرچہ آیا: ’’ ثریا تم مس چاکو سے کہہ کر فوراً آجاؤ ۔ علی گڑھ سے پارے اور زرینہ آئی ہوئی ہیں۔ سلطانہ آپا اوراکرام بھائی بھی صبح ہی کان پور سے واپس آئے ہیں۔ لان پر مزے دار دھوپ پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بیٹھ کر کیرم اور برج رہے گا۔ بس تمہاری کمی ہے ۔ خالہ بی کو فون کردو، بڑا افسوس ہے کہ اس دیک اینڈ پر تم نہیں آسکتیں کیوں کہ فرّخ نے بلایا ہے۔ کیا ہے، ہر ہفتے تو تم جاتی رہتی ہو گھر۔ مسعود بھائی تمہارے قطعی انتقال نہ کرجائیں گے۔ یہ منگیتر لوگ واقعی کس قدر مصیبت ہوتے ہیں۔ خاور صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں آکر ریسرچ میں داخلہ لیا ہے آپ نے ۔ ذرا سوچو تو میری جان کے لیے مستقل مصیبت۔ اچھا تم ابھی آجاؤ، فوراً۔ شام کو طلعت محمود کو بلایا ہے۔ اس سے وہی گیت سنیں گے:’ یہ وجہ کہ فصلِ بہار ہے__، تمہیں مرغی میجر بھائی سے بھی ملوائیں گے۔‘‘ لیکن مسعود بھائی تو منگیتر ہونے کے باوجود مصیبت نہیں تھے ۔ کبھی انہوں نے رومانٹک بننے کی کوشش نہیں کی حالاں کہ یہ چچا زاد اور پھوپھی زاد قسم کے رشتے خواہ مخواہ کچھ افسانوی سا محسوس کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یعنی لوگوں کی پست ذہنیت کی حد ہے ناکہ جہاں بھی لڑکیوں اور لڑکوں کا کسی طرح سے بھی ایک ساتھ ذکر آیا اور فی الفور اوٹومیٹک طریقے سے افسانہ پیدا ہوجاتا ہے۔ توبہ اللہ میرے۔ لیکن وہ فرخ کے یہاں گئی۔ اور خاور سے ملی۔ اور افسانہ تیار ہوگیا: ’یہ وجہ کہ فصلِ بہار ہے۔‘ وہاں برآمدے میں سب جمع تھے: مرغی میجر بھائی، خاور، کامریڈ اکرام، کمال۔ تم نے رنگ برنگے پروں والی تیتریوں کو دیکھا ہے نا! جو سبزے پر نرگس کے پتوں پر جھلملا رہی ہیں۔ یہ تمہارے کسی فلسفے، کسی نظریے یا ایسی ہی کسی تخیلی خرافات کی قائل نہیں۔ دنیا ان کے لیے ایک بہت بڑا ساٹینس کورٹ ہے اور بس۔ جس پر ہم تم ان کے لیے گیندوں کی طرح لڑھکتے پھرتے ہیں۔ زندگی ذرا وسیع پیمانے پر حضرت گنج میں مے فیئر یا بلو ہیون کی ایک شام سمجھ لو۔ خاصیت ان کی یہ ہے کہ ’’ اشتمالی اقدار‘‘ ، ’’ بورژوا ماحول کی تلخیاں‘‘ یا ’’ پرولتاری ادب‘‘ کا کچھ ذکر کرو فی الفور مرعوب ہوجائیں گی۔ پکچرنہ چلنے کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ یونی ورسٹی یا حضرت گنج سے واپسی پر کار میں لفٹ دیے جائیں گے۔ کمال نے خاور سے تعارف کرایا۔ ’’ افوہ ، کس قدر مغالطہ فائڈ معلوم ہوتے ہیں یہ تمہارے کزن لوگ ۔ حد کی حد۔‘‘ پارے نے بے زاری کے ساتھ کہا۔ لان پر بیٹھی ہوئی لڑکیاں برآمدے کی باتیں سُن سُن کر جل رہی تھیں۔ ’’ اس وقت کچھ رومان کی موڈ ہے نہیں، ورنہ تمہارے ان کمال بھائی کا دماغ ٹھیک کردیا جاتا۔ خدا کی قسم ۔‘‘ کمال صاحب کیا کچھ نہ تھے: وجیہ وشکیل ۔ اپنے اندازے کے مطابق جلو میں سینکڑوں ملاحتیں، صباحتیں اور قیامتیں لیے ہوئے، بالکل مثنوی بدرِ منیر و بے نظیر کا جدید آکسفورڈ پمفلٹ ۔ ریڈیو اسٹیشن پر ایک دن اوما سے ملے تو عرض کرنے لگے: آہ مس شیرالے ۔ آپ کے نقرئی گھنگروؤں کی جھنکار کی خواب ناک گونج سے ستارے جھلملا اٹھے۔ شبستانِ حیات کے مدھم اجالے میں ایجنٹا کی __ ،، اوما گھبرا گئی۔ یہ اسی طرح بولتے جائیں گے اور سعیدہ آپ سمجھیں گی کہ ابھی ریہرسل ختم نہیں ہوئی۔ ثریا ، رفعت، فرخ، اوما، ریشیل__ سب سخت جلتی تھیں ان سے ۔ اپنی gallantry کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہرجگہ موجود۔ ہسٹری سوسائٹی کی ہفتہ وار میٹنگ ، کیمسٹری کلب کا جلسہ ، نیولائف یونین کی پارٹی، افوہ! اور پھر خاور __ بہت خاموش، بہت سنجیدہ ، لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا گھبرا جانے والا۔ چائے کے وقت سب کا ایک دوسرے سے پُر تکلّف طریقے سے دوبارہ تعارف کرایا گیا۔ تمہیں یاد ہے ثریا؟ ہمارے دُور کے رشتے کے ایک بھائی تھے جو دہرہ دون میں چھٹیاں گزارنے ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ بے چار سے باتیں بہت کرتے تھے۔ لیچیاں چرانے پر مالی سے پٹ بھی گئے تھے۔ ایک دفعہ ہر بات میں دل چسپی لینے اور دخل دینے کو مستعد رہتے تھے۔ بڑے ہو کر کپتان بننے کی شدید خواہش تھی۔ زو کی سیر کے سخت شوقین تھے۔ ہمارے بھائیوں نے ان کے لیے ایک شعر بھی کہا تھا: کریما بہ بخشائے بر حالِ ما کہ مرغی کا میجر تو مجھ کو بنا رفعت کی بدقسمتی سے آپ انڈین پولس کے مقابلے میں کامیاب ہو کر یکا یک بے حد قریبی عزیز ثابت کر دیے گئے ہیں اور کرسمس بسر کرنے کے لیے انہیں الٰہ آباد سے پکڑ کر منگوا یا گیا ہے۔ ان سے ملو، یہ ہمارے مرغی میجر بھائی ہیں۔ ’’ اخاہ، آپ ہیں ثریا بیگم ۔ آئیے، آئیے۔ فرخ اور رفّی تو آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ثریا بیگم یہ کریم رولز لیجیے۔ ثریا بیگم سبزے پر جھکے ہوئے گلِ داؤدی کے گچّھے کتنے حسین لگ رہے ہیں۔ ثریا بیگم آپ کا پسندیدہ سٹار، روبرٹ ٹائیلر تو نہیں ۔ ثریا بیگم __‘‘ اُف یہ بے چاری لڑکیاں، اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ آپ خود ہی نشانہ بننے کا مکمل ذوق اور صلاحیت رکھتے ہیں اور تیر اندازوں سے احتجاج کیا جاتا ہے کہ اگر آپ اس مشغلے سے باز آئیں تو دنیا میں امن قائم ہوجائے۔ رفعت، مرغی میجر بھائی کی ہمیشہ قصیدہ سرائی کرتی رہتی تھی: ’’ ہمارے کزن، جوالہ آباد میں ہیں، اس قدر مزے دار ہیں کہ کیا بتاؤں۔ گھر آتے ہیں تو لگتا ہے کہ طوفان آگیا۔ ہر وقت قہقہے، ہنسی مذاق۔ کرکٹ بے حد عمدہ کھیلتے ہیں۔ گورنر زالیون میں رہ چکے ہیں۔ ورلڈز اولمپکس میں فیلڈ لفیا گئے تھے۔ اس کے علاوہ بہترین بہترین ادیب ہیں۔ افسانوں کی تعریف میں ان کے پاس لڑکیوں کے اتنے خطوط آتے ہیں کہ افوہ ۔ اور ڈیشنگ تو اس قدر ہیں بھئی۔ بس آل راؤنڈر ہیں بالکل۔ ‘‘ مرغی میجر بھائی گویا قصّہ مختصر کسی اپالو قسم کے یونانی دیوتا کا پنگوئن ایڈیشن تھے__ اے میرے نیل کنول کے دیوتا! اس وقت ثریا کو سچ مچ رونا آگیا۔ اس تمہارے مرغی میجر بھائی نے کیوں بھیجا مجھے عید کارڈ۔ کیا سمجھتے ہیں یہ چغد۔ عید کی رات کو خالہ بی کے گھر سب جمع تھے۔ ثریا بہت دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ طوفانی ندی کے اس ریلے کو روک سکے جو کہیں اس کے اندر اُبل رہا تھا۔ وہ جی میں محض یہی سمجھتا تھا کہ اگر اپنے دوستوں کے ساتھ سائیکلوں پر دل کشا میں مون لائٹ پکنک منانے کے لیے جایا جاسکتا ہے تو__ اووف__ اللہ، اللہ میرے ، ثریا ڈریسنگ روم میں جاکر قالین پر منہ چھپا کر اتنا روئی کہ اس کا جی چاہا کہ سارے ٹب اور ساری بالٹیاں اس کے آنسوؤں سے بھر جائیں اور وہ روتی رہے __ روتی رہے __ خاموشی سے __ یہ برداشت سے باہر تھا۔ برابر کے کمرے میں مرغی میجر نے کیا کہا تھا ابھی ابھی۔ وہ کمرہ قہقہوں کے شور سے اب بھی گونج رہا تھا۔ علی گڑھ سے راز بھائی آئے ہوئے تھے اور اپنی تازہ غزل سنا رہے تھے: چلا ہوں انہیں قصۂ غم سُنا نے مرے ہوش شاید نہیں ہیں ٹھکانے مرے ہوش شاید __ اُف اللہ! ان لوگوں کے سامنے اس کے لیے کہا گیا۔ اکرام بھائی اور فرخ اور یہ راز بھائی جنہوں نے اس کی Definition کی تھی کہ اَماں اس لڑکی میں شعریت کس قدر ہے۔ اور پھر جانتے ہونا یہ ہندوستانی بورژوازی کی ایک Boringسی، بے معنیٰ سی داستان ہے جس میں سماج کا کودنا لازمی اور طے شدہ بات ہے۔ لہٰذا جنابِ عالی ’’ سماج‘‘ بڑے ٹھاٹھ سے عین موقع واردات پر کود پڑا۔ کیوں کہ پھولوں کی اس رنگین وادی میں رہتی ہوئی ثریا نے تاریخی شگوفوں کے تبسّم کی سی آہستگی سے کہا : ’’ آؤ۔‘‘ یہ بھول کر کہ اس کی مری ہوئی فرانسیسی ماں کا ماضی کیا تھا اور یہ بھی کہ معصوم مسرتوں کی یہ ننھی سی بستی اگر اس سخت اور بے حس کرّۂ آب و گل سے ٹکرا گئی تو اس کانتیجہ بہت زیادہ خوش گوار نہ ہوگا__ اور خاور آیا__ یہ جانتے ہوئے کہ __ خیرے__ اور افسانہ ڈولپ منٹ کے تمام مدارج نہایت تیزی سے طے کر کے بہت جلد اینٹی کلائمکس پر اتر آیا۔ اور اینٹی کلائمکس قاعدے کے مطابق ہمیشہ بہت ہی بے مزہ اور ناخوش گوار سی ہوتی ہے۔ وہ دیر تک اندھیرے میں آنکھیں کھولے پڑی رہی۔ آدھی رات کی خنک سی ہوا کے جھونکوں سے دروازوں اور دریچوں کے پردے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ سارا کیمپس سرد چاندنی میں ڈوبا خاموشی کے گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔ اسٹڈی ہال سے واپس آکر برابر کے پلنگ پر آکر ربیکا سونے سے قبل کی دعا میں مصروف تھی: اے ہمارے آسمانی باپ__ تیری مرضی پوری ہو__ تیری بادشاہت آئے __! تیری مرضی پوری ہو۔ اس نے سوچا کہ آسمانی بادشاہت کے دروازے تو اب شاید اس کے لیے ہمیشہ کے واسطے بند ہوجائیں گے۔ اسے ہنسی بھی آگئی کہ وہ کیسی جذباتی بن گئی ہے۔ پھر اسے اپنے اوپر دفعتاً غصہ آگیا۔ تم ہنس کیوں رہی ہو ثریا بیگم؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم صحیح الدماغی سے کام لے رہی ہو۔ صحیح الدماغی، افوہ ، کتنا بڑا لفظ استعمال کیا ہے۔ تم بہت احمق ہو۔لیکن ، ثریا بیگم، مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔ اس نے بے چینی سے دیوار کی طرف کروٹ لے لی۔ تمہیں تو Adventure کی تلاش تھی اور یہاں وہی پامال شدہ پٹے ہوئے واقعات شروع ہوگئے۔ چاندنی کا ایک ترچھا ساراستہ قالین پر بن گیا۔ چاند یو کلپٹس کے جھنڈ پر سے تیرتا ہوا نونہال ہوسٹل کی چھت پر پہنچ چکا تھا۔ نیلے جاپانی واز کے برابر رکھا ہوا وینس ڈی میلو کا مجسمہ کرنوں میں جگمگا اٹھا۔ تم اس سفید مجسمے کی طرح بے حس کیوں نہ رہیں؟ کیا ہوگیا تمہیں، حقیقت خوف ناک طور پر واضح ہوتی چلی گئی۔ وہ کیا کرے؟ وہ کیا کرے__ اللہ! صبح کے دُھندلکے میں لینٹرن سروس میں شامل ہونے کے لیے ہاتھوں میں رنگین کاغذی قندیلیں اور للی کے سفید پھول لیے کرسمس کیرل گاتی ہوئی لڑکیاں سارے کالج کیمپس کا چکر لگا کر چیپل کی طرف بڑ ھ رہی تھیں۔ کرسمس کا مہینہ شروع ہوچکا تھا جس میں خدا کے نقرئی پروں اور گلابی ہونٹوں والے فرشتے رحمتوں اور برکتوں کے خوب صورت تحفے لے کر نیلے آسمانوں سے نیچے اترتے ہیں۔ رحمتیں اور برکتیں ! ثریا اسی طرح بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ رات بھر وہ سوچتی رہی اور جاگتی رہی۔ جاگتی رہی اور سوچتی رہی اور اب اس کے سر میں درد شروع ہو گیا تھا۔ ’’بہترین نسخہ یہ ہے میرے یار کہ فی الفور کمیشن لے لو اور ٹکٹ کٹاؤ یہاں سے ۔‘‘ گومتی کے کنارے آم کے سائے میں بندھی ہوئی ناؤ میں کمال صاحب بیٹھے اپنی زرّیں رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ سرمہاراج سنگھ ابھی نہیں آئے تھے اس لیے ریس شروع ہونے میں دیر تھی۔ کنارے پر بوٹ کلب کے سالانہ Regatta کے ایٹ ہوم کے لیے زور شور سے انتظامات کیے جارہے تھے۔ واٹر پولو کے مجاہدین لڑکیوں کو نہایت بے نیازی کے ساتھ ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھتے ہوئے ریس کے لیے پانی میں کود رہے تھے۔ شکنتلا علی جعفر صاحب سے دماغ کھپاتے کھپاتے تھک گئی اور اپنی ناؤ میں آکر بیٹھ گئی تھی اور بے فکری سے پانی اچھال رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اکرام بھائی اس کے پاس آگئے تھے: ’’ ہلو مس راج پال! کہیے آج کل کی تازہ ترین Gossip کیا ہے؟ ‘‘ شکنتلا کا دل نہ چاہا کہ وہ ثریا کے متعلق اس قسم کی باتیں کرے۔ اکرام بھائی کو مسکراتا دیکھ کر اسے نہ جانے کیوں ناقابلِ برداشت تکلیف ہوئی۔ لیکن کامریڈ اکرام ثریا تو بہت sensible لڑکی تھی۔‘‘ ’’ جی ہاں، قطعی۔ آپ کو معلوم ہے حماقت اور عقل مندی کی حدیں بہت ہی اہم سیاسی مقامات سے پر ملتی ہیں۔‘‘ ’’اچھا چلیے اور باتیں کریں۔ احمد علی دہلی سے آئے ہوئے ہیں، ان سے ملیے۔‘‘ ’’ مجھے نہ بھیجو ندی کنارے __‘‘ یک لخت نہایت تیزی سے لاؤڈاسپیکر پرریکارڈ بجنے لگے۔ فرخ کیمرہ لیے ہوئے سرمہاراج سنگھ سے باتیں کر رہی تھی۔ صوفے کے پیچھے سے مسعود بھائی گزرے۔ وہ بوٹ کلب کے کیپٹن تھے ۔ انہوںنے فرخ کو دیکھا، جیسے کہہ رہے ہوں: ’’ فرخ بی بی جانتی ہو کیا ہورہا ہے ۔’‘ فرخ نے بے چینی سے کیمرے کا فیتہ اپنے ہاتھوں میں لپیٹنا شروع کر دیا اور وائس چانسلر کی میز کی طرف جھک گئی، جیسے اس نے کہا کہ ’’ ہاں مسعود بھائی میں جانتی ہوں۔ سب جان گئے ہیں لیکن یقین کرنے کو تو جی نہیں چاہتا۔‘‘ خالہ بی نے صرف اتنا ہی کہا : ’’ اپنی اصلیت پر گئی۔‘‘ اپنے بھائی کی موت کے بعد یہ دوسرا ناقابلِ بیان، ناقابلِ برداشت دھچکہ تھا جو انہیں اسی بھائی کی اکیلی لڑکی کی طرف سے پہنچا۔ اپنی اصلیت __ پر __ گئی۔ کس قدر خوف ناک اور تلخ تھے یہ چار لفظ ۔ جیسے کالج کی تمام عمارتیں اپنے بھاری بھاری ستونوں اور چھتوں سمیت چاروں طرف سے ثریا پر گر پڑیں۔ سائنس بلاک کے پیچھے ۔ ’’ فورسٹ آو آرڈن‘‘ کے پھاٹک کے اندر ریڈیو کی اسٹیشن دیگن دیر تک ہارن بجاتی رہی۔ رات کے دس بجے رفیع پیر کے ایک ڈرامے میں ثریا کا سب سے لمبا پارٹ تھا اور وہ نہ معلوم کہاں کھو گئی تھی۔ سعیدہ آپا نے جھنجھلا کر اسٹوڈیو سے تیسری مرتبہ فون کیا: ’’ کیسی لاپروا لڑکیاں ہیں، کبھی یاد نہیں رکھتیں کہ ٹھیک وقت پر ریہرسل کے لیے پہنچ جائیں۔‘‘ آج تو ثریا کا گھر جانے کا بھی دن نہ تھا۔ اوما، رفعت، قمر، اندو- سب کو سخت کوفت ہورہی تھی۔ اسی ریہرسل کے مارے انہیں ’’ چوکلیٹ سولجر‘‘ Miss کرنی پڑی- اور اب ثریا صاحب غائب ہوگئیں۔ چوتھی بار پھر فون آیا۔ یہ سعیدہ آپا کی آواز نہیں تھی۔ حفیظ جاوید صاحب کی بھی نہیں۔ اور لڑکیوں میں سنسنی پھیل گئی__ کیوں کہ دوسرے سرے پر کرشن چندر صاحب بول رہے تھے۔ افوہ! اس قدر اکسائٹ منٹ کی وجہ کی حد، یعنی ذرا خیال تو کرو قمر__ کہ کرشن چندر کا تبادلہ لکھنؤ کا ہوگیا ہے اور آج کی تمثیل وہی پیش کریں گے ۔ بھئی نہ معلوم کیسا ہوگا یہ افسانہ نگار۔ بے انتہا رومان آلود اور شعر پرور سا__ اس قیامت خیز، روح افزا خبر کو سن کر ثریا پر خفگی بھی فراموش کردی گئی۔ لیکن ریڈیو اسٹیشن پہنچ کر بہت ہی شدید قسم کا Disappointment ہوا۔ خصوصاً جب یہ معلوم ہوا کہ __ ’’ ذرا رُکنا ایک منٹ __ بہت دل چسپ کہانی ہے لیکن اس نکتہ پر تم پر defamation کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ اس پیرے کو قلمزدنہ کردو۔ اس سے تمہارے پلاٹ پر کچھ اثر نہ پڑے گا۔‘‘ ’’ ہائے اللہ تم اتنی دیر سے چپکے بیٹھے تھے، اب پھر بیچ میں ٹپک پڑے۔‘‘ ’’ میں تو ایک قانونی مشورہ دے رہا تھا۔ خیر چلو آگے۔‘‘ ’’ اب بھئی پتا نہیں میں کہاں تک پہنچی تھی۔‘‘ ’’ ہیروئن کہیں کھو گئی ہے، یعنی بھاگ گئی ہے اور بقیہ خواتین کو کرشن چندر کی طرف سے سخت مایوس ہوئی ہے ۔ چلیے ۔ ‘‘ __ اسٹوڈ یو نمبر ۳ میں گوہر سلطان ڈھولک پر گارہی ہیں: ’’ امبوا تلے ڈولارکھ دے کہاروا ، آئی ساون کی پھوار اور نمبر ا میں مائک کے پاس اپنے پارٹ پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے دفعتاً رفعت کو ایک بدمزہ سا ناخوش گوار سا خیال آیا: زندگی آپ سے آپ پہیلی سی کیوں بنتی جارہی ہے __ آخر؟ یعنی یہ کیا گڑ بڑ سڑ بڑ ہورہی ہے بھئی؟ اللہ کرے مرغی میجر بھائی کوڈا کو پکڑ لے جائیں اور اکرام بھائی __ اکرام بھائی قہوے کی پیالی میں ڈوب کر خودکشی کرلیں__ چُغد کہیں کے۔ دیوار میں سرخ روشنی جل اٹھی اور ریہرسل شروع ہوگئی۔ پکچرز سے واپسی پر مرغی میجر بھائی نے ذرا تنبیہاً اس سے کہا کہ یہ تم لوگ کیسے کیسے فضول افیمچیوں اور لفنگوں سے ملنے لگی ہو تو رفعت کو بہت ہی بُرا لگا۔ اس نے ذرا تیزی سے جواب دیا کہ اکرام بھائی قطعی فضول اور افیمچی اور لفنگے نہیں ہیں حالاں کہ جس روز اکرام بھائی یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ کامریڈ سلطانہ کی بہنوں میں سب سے زیادہ chicلڑکی رفعت ہے۔ باتیں کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے ستار پر ایمن کلیان کا الاپ بج رہا ہے۔ ہنستی ہے تو کلیاں کھل جاتی ہیں۔ جنتا کی بے حد ہمدرد ہے۔ ہر ہفتے قومی جنگ خریدتی ہے۔ وغیرہ __ تو اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی تھی کہ دو تارہ بجاتی ہوئی جنگلوں کو نکل جائے۔ اس روز نیو انڈیا کافی ہاؤس میں یومِ اسٹالین گراڈمنانے کے سلسلہ میں ایک پارٹی تھی، جہاں سلطانہ آپا نے پہلی مرتبہ اس کا تعارف اس سے کرایا تھا۔ اور رفعت کے اندازے کے مطابق وہ اعلیٰ درجے کے Bore ثابت ہوئے تھے جن کی موجودگی یہ احساس دلاتی تھی کہ کہیں سے مار کھا کے یا چوری کر کے آئے ہیں اور اب کورٹ مارشل ہونے والا ہے۔ نہایت خزاں دیدہ، ستم رسیدہ، دنیا جہاں سے بے زار۔ روس و چین میں مبتلا۔ شکل سے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی پٹ کر آئے ہیں یا پٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود قومی جنگ کا پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور اب__ مرغی میجر بھائی نے حضرت گنج کے چوراہے پر کار کی رفتار دھیمی کر کے گیئر بدلتے ہوئے پھر کہا کہ تم نے کبھی ذرا سی عقل بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تو اس نے ایک زبردست سی اونہہ کی اور بارش کی پھوار سے بچنے کے لیے کھڑکیوں کے شیشے چڑھانے میں مصروف ہوگئی۔ مادام حواّ کی بیٹیوں نے ورثے میں کتنی بہت سی بے وقوفیاں حاصل کی ہیں۔ وہ جو آدم کے مغرور بیٹوں کا مذاق اڑانا چاہتی ہیں۔ ’’ ایک آپ کی تقدیسِ مجسّم ثریا صاحبہ ہیں جنہیں میں نے محض یوں ہی تفریحاً عید کارڈ بھیج دیا تو__‘‘ ’’ خدا کے لیے مرغی میجر بھائی خاموش رہیے۔‘‘ بارش تیزی سے ہونے لگی۔ شدّتِ احساس کا بوجھ دبائے ڈال رہا تھا۔ پھر بھی وہ سب خاموش تھے۔ کیا کہیں، کیاکریں؟ زندگی سے کچھ عجیب سی نفرت ہوچلی تھی! بارش اسی طرح ہوتی رہی۔ پانی سے لدی ہوئی ہوائیں چیپل کی یخ بستہ سفید دیواروں سے ٹکراتی ہوئی نکل گئیں۔ لوریٹو کانوونٹ میں مادرِ خدا وند نے خاموشی سے کہا : ’’ افسوس میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکی۔‘‘ اور انہوں نے اپنی بڑی بڑی معصوم آنکھیں جھکالیں اور ان کا مجسّمہ دھندلکے میں ڈوب گیا۔ لیکن سعیدہ آپا نے زیادہ خوب صورت الفاظ میں اس کو خدا حافظ کہا اور جلد ملنے کی امید ظاہر کی اور لندن ہاؤس کے سامنے اسے اتار دیا۔ پھر ان کی سرمئی بیوک چھینٹے اڑاتی ایبٹ روڈ کی طرف مڑ گئی۔ لیکن اصلیت اتنی خوب صورت نہ تھی۔ بارش سے پناہ لینے کے لیے جو امریکن اور گورے لندن ہاؤس میں کھڑے سگریٹ کا بھیگا بھیگا دھواں اڑا رہے تھے ان کی سیٹیاں تیزی سے اس کے کان میں گھس کر کہہ رہی تھیں: ثریا بیگم، مسز داس نے اپنے خط میں تم سے درخواست کی ہے کہ تم مہربانی سے اپنے گھر چلی جاؤ۔‘‘ (کیوں کہ فلسفے ، عمرانیات اور اخلاقیات کی تمام موٹی موٹی کتابیں اپنے دماغ میں ٹھونس لینے کے باوجود تم نے ایک نہایت ناشائستہ حرکت کی ہے۔ لہٰذا تمہیں ایکسپل کردیا گیا ہے، یعنی تمہیں کالج سے نکال دیا گیا ہے۔) پھر وہ دیر تک دکانوں کے آگے کے برآمدے میں ادھر سے اُدھر ٹہلتی رہی اور پھر تھک کر انڈیا کافی ہاؤس کے پہلو کے خالی زینے کی نچلی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ کاش ! کاش! if wishes were horses beggars would ride.اچھا کاش تانگہ ہی مل جائے۔ بس ایک تانگہ۔ ’’ چاند باغ چلیے گا بابا؟ آئیے!‘‘ حالاں کہ اس تانگے والے کو، جو ابھی ابھی ایک امریکن کو کافی ہاؤس پر اتار کر اس کی طرف مڑا تھا، یہ معلوم نہ تھا کہ عام طور پر ایسی بھیگی ہوئی سی خاموش دوپہر کے وقت چاند باغ کی بابا لوگ حضرت گنج میں تنہا نہیں ٹہلا کرتیں۔ اور پھر ہوا کے تھپیٹروں کے سہارے تانگہ چاند باغ کی طرف بڑھنے لگا: آرٹ اینڈ کریفٹس ایمپوریم __ لیلا رام __ پلازا__ نیو انڈیا کافی ہاؤس __ مے فیئر __ ہلو یشیا کورٹ __ فرنچ موٹرز__ جہانگیر آباد پیلیس __ موتی محل برج__ یونی ورسٹی __ اور گھر __ وہ گھر پہنچ گئی۔ لیکن گھر وہاں نہیں تھا۔ یعنی پھوپھی اماں تبدیلِ آب و ہوا کے لیے دہرہ دون چلی گئی تھیں۔ اختلاجِ قلب کی مریض تھیں۔ اور مسعود بھائی کو امپیریل ٹوبیکو میں نوکری مل گئی تھی۔ وہاں سے تار آیا تھا اور وہ کلکتہ چلے گئے تھے۔ پھوپھا جان تو خیر ہمیشہ رہتے ہی دورے پر تھے۔ جاڑے کی مہاوٹیں تھیں، تیزی سے برس کر بہت جلد کھل گئیں اور بادل چھٹ جانے پر دھلا دھلایا نیلا آسمان بہار کی آمد کا پیغام دینے لگا۔ چار باغ کے پلیٹ فارم نمبر ۳پر ٹہل ٹہل کر چوکلیٹ کھاتی ہوئی رفعت یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ پھولوں کا موسم اب زیادہ دور نہیں۔ دہرہ دون میں مالی نے اس کی کوٹھی کے باغ کی بہار کے لیے صفائی ابھی سے شروع کردی ہوگی۔ پھر مرغی میجر بھائی بھی آجائیں گے۔ پھر سب معاملہ ٹھیک ہے ۔ فِٹ __ فٹ__ بالکل __ وہ بہت خوش تھی۔ وہیلر بک سٹال پر ’’ قومی جنگ‘‘ کا تازہ پرچہ خرید کر پھراُسے وہیں پٹختی آئی تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ کامریڈ اکرام نے کامریڈ سلطانہ کے ساتھ شادی کرلی ہے اور دونوں بنگال کے دورے سے واپس آکر بمبئی کی گاندھی جناح مصالحت کو کامیاب بنانے اور ہندوستان کو آزاد کرانے کی فکر میں ہیں۔ جزاک اللہ ! رفعت نے اس پرچے کے بجائے اس مہینے کا ’فلم انڈیا‘ خرید لیا اور سوچنے لگی کہ سودا بُرا نہیں رہا۔ اور چار باغ جنکشن کے شور و غل سے دور، باہر کی طرف ، وہ چھوٹا سا پلیٹ فارم خاموشی اور دھند میں ڈوبا ہوا تھا جہاں سے رات کے اندھیرے میں فوجیوں کی ریلیں اپنی نا معلوم منزل کی طرف روانہ کی جاتی ہیں۔ اور اس پلیٹ فارم پر سے ایک ٹرین ابھی آہستہ آہستہ رینگتی ہوئی دور دھندلکے میں کھو چکی تھی اور بجلی کے کھمبے کا سہارا لیے تین پنجابی سپاہی سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے اور لا یعنی باتیں کر کے یا اپنی پسند کا گیت گنگنا کر اس وقت کو کاٹنا چاہتے تھے جو انہیں اپنی ریل کے انتظار میں وہاں گزارنا تھا۔ ایک بنگالی فوجی مستری بھی وہاں آ بیٹھا تھا۔ ’’ یار ! مگر ہمارے کیپٹن صاحب نے بھی غضب ہی کردیا۔ دل توڑ دیا ظالم نے، ہائے ہائے-‘‘ ’’ ہاں جی تو شادی شودی اس نے کیا کرنی تھی۔ یہ تو ان چھو کریوں سے پوچھو کہ اتنا پڑھ لکھ کر یوں بے قوف بنتی ہیں۔‘‘ ’’ یَس، مگر استری کامن بڑا ونڈر فل چیز ہے۔ چاہے کیسا ہی کالج یا ولایت پاس ہوجائے، چاہے بالکل اَن پڑھ ، پر تم اس کا دل کا بات نہیں سمجھ سکتا۔‘‘ ’’ اماں جاؤ بھی بابو جی۔ یہاں تو یہ جانتے ہیں کہ یہ ہم کو اُلّو بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور خود اُلّو بنتی ہیں۔‘‘ ’’ اور پھر آج کل ایک سے ایک کالج گرلیں ماری ماری پھرتی ہیں خود ہمارے کمانڈنگ صاحب ایک دفعہ __‘‘ اور بہت دور، گومتی کے اس پار، نشاط ہوسٹل کے ڈرائنگ روم میں اوما شیرالے نے ناچتے ناچتے تھک کر گھنگرو اتار کر ایک طرف پھینک دیئے اور خود صوفے پر گر گئی اور گربا کے گیت کی لہریں شام کے سنّاٹے میں کھو گئیں__ سندھ کے کنارے __ اب تو جیون ہارے__ اب تو جیون __ ہے گووندا راکھو شرن۔

قرةالعین حیدر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ