آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاقرا جبین

‘لا’ سے ‘کن ‘کا سفر

اقرا جبین کا اردو کالم

‘لا’ سے ‘کن ‘کا سفر

از خود بینی

"جس نے خود کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا”

انتہائی آسان اور سادہ لفظی جملہ لیکن اس ایک جملے میں کائنات کی تسخیری اور اسکے راز پنہاں ہیں۔امام غزالی کا یہ قول ہماری زندگیاں بدل سکتا ہے گر اس ایک جملےکو کو سمجھنے کی مسافت کو طے کرنے میں وقت نہ لگے۔مجھے بھی یہ جملہ اب سمجھ آیا زندگی کے پانچ سال انتہائی دشوار اور پریشان کن گزارنے کے بعد۔جب خود کو ہی نہیں پہچانا تو کر کیا سکوں گی۔اور جب جب مشکل اور کڑا وقت مزید چلتا گیا معلوم پڑا وہ خدا تو خود تک پہنچے کا راستہ دکھانا چاہتا ہے کے خودی کو پہچان کے چل اور مجھ تک آ۔میں ہی ہوں "کل”
خدا جب بھی اپنے بندے کو کن کا سفر دکھانا چاہتا ہے اسے لا سے گزارتا ہے۔وہ کہتا ہے جب تک تو اپنی کرتا رہے گا لا ہے جب میری مان کے چلے گا تو کن ہے۔ایک طرف تو کڑی آزمائشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو دوسری طرف یہ بھی بتاتا ہے
"ان اللہ مع الصابرین”
بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔

ہماری زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ہمارے لئیے ہمارے رشتے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔اور ہم انہی کی خاطر بہت کچھ کر گزرتے رہتے ہیں۔دل توڑ دیتے ہیں۔گستاخیاں کر دیتے ہیں۔خدا کی نا فر مانیاں چلتی رہتی ہیں۔اسی وجہ سے ہم پریشان حال اور ‘لا’ کی گرداب میں پھنسے چلے جاتے ہیں۔
جبکہ خدا کا فرمان ہے
مجھ سے معافی مانگنے سے پہلے اس انسان سے معافی مانگو جس کا دل دکھایا۔اگر وہ معاف کردے تو سمجھنا میں نے معاف کیا’
یعنی یہ بتایا گیا کے اپنی میں کو مار کے ہر انسان سے جس سے غلطی یا زیادتی کی گئی معافی ما نگو تبھی مجھ سے ملے گی۔کیونکہ خدا کا رستہ تو اس کی مخلوق سے ہوکر گزرتا ہے۔
تو جناب والا اگلی بات ہے کن کے سفر کی تو ہمارے لئیے ہر شے تب تک لا ہی رہتی ہے جب تک ہمیں لگتا ہے ہمیں اپنی مرضی سے نہیں ملا۔جو ہم نے چاہا یا مانگا وہ نہیں ملا۔حالانکہ اگر دیکھا جائے اللہ نے ہر انسان کو اسکی اوقات سے زیادہ نواز رکھا ہے۔صرف پیسہ رزق نہیں ہوتا۔اولاد، مال، دولت، محبت، شہرت ،عزت، دوست یہ سب
نعمتیں ہیں۔اور اگر اللہ نے تمہاری تقدیر میں کلرک بننا لکھا ہے تو تم مینجر نہیں بن سکتے۔ہاں بن سکتے ہو گر تم ارادہ کر لو خود کو پہچان لو اور مخنت اور ایمانداری سے کرو کام تو خدا تمہیں وہ عطا کرے گا جس کا تم سوچ نہیں سکتے۔

خودی کی یہ ہے منزل اولین
مسافر یہ تیرا نشمین نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں

اور یہاں خود کا سفرانسان کے سوچنےکے پہلو سے شروع ہوتا ہے۔اسے اندر سے آواز آگئی جس دن ہاں میں نے یہ درست کیا اور یہ غلط اس دن اس نے خودی کے منزل پر پہلا قدم دھر لیا۔صرف اس خودی میں اپنی پہچان کے بعد اپنے نفس کو قابو میں کرنا ہے۔ہم ہر عمل سے واقف ہوتے ہوئے غلط اقدام اٹھاتے ہیں اور خدا سے شکوہ کرتے ہیں یہ تو بے جا ہے
فرمان ہے
"اے ابن آدم ایک تیری چاپت ہے اور اک میری چاہت۔تو وہ کر جو میری چاہت ہے ۔میں وہ کروں گا جو تیری چاہت ہے”
یہ جہاں صرف اور صرف اک راز ناآشنا ہے جسکو صرف اور صرف باطنی آنکھ اور خودی کے سفر پر مامور انسان سمجھ کر تسخیر کر سکتا ہے۔
ہمار ےپاس ہر چیز کا حل موجود ہے۔(قرآن)تو کیوں ہم در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس تک پہنچتے ہیں۔فرمایا گیا ہے
‘اس میں عقل والوں کے لئیے نشانیاں ہیں’
ہم دنیا میں دنیا کی دوڑ میں صرف بھاگے جارہے ہیں۔پیسے اور عزت بنانے کی خاطر کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتے اور اگر اسی دوراں سانس ناچلی تو؟؟؟
اور ہمیشہ مطمئن وہی رہتے ہیں جو دین اور دنیا دونوں سنوارتے ہیں۔دین میں دنیا کی دنیا کو ترک نہیں کیا جا سکتا اور دنیا کے لئیے دین کو۔ہم جو بھی کمائیں گے یہی رکھ جائیں گے قبر میں ہمارے ساتھ بس ہمارے اعمال جائیں گے اور اچھے برے کارنامے سو آدھا نہیں پورا سو چئیے۔
واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
اگر آپ سیدھے رستے آ گئے تو ٹھیک ہے ورنہ آپ کو غم کے رستے سے لائیں گے۔اس سے پہلے کے آپ کو غم کا رستہ دیا جائے آپ اپنی خوشی سے سیدھے رستے پر آجائیں۔ورنہ آپکو تو پتا ہے کے خدا کے نہ ماننے والوں کے منہ سے بھی مشکل میں یا اللہ ہی نکلتا ہے۔

اور یہ طے ہے کے خدا کی طرف جانے والا رستہ مسافر منزل خودی کے بغیر طے نہیں ہو سکے گا۔یا آپ خدا کو پہچانو گے تو بھی آپ خود کو پہچان لو گے یا آپ خود کو پہچان گئے تو خدا کی حکمت سمجھ آنے لگے گی۔

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کے ہم خدا کی نا مانیں مگر ہم جو چاہیں وہ ضرور مانے کیوں بھئی کیا وجہ ہے؟؟جب کائنات کا سارا نظام حکم خداوندی کا پابند ہے تو انسان کیوں نہیں؟؟؟ انسان کو صرف اتنا اختیار دیا گیا ہے کے اچھائی اور برائی سے اپنا رستہ منتخب کرے اور جو جیسا رستہ منتخب کرے گا ویسا پھل پائے گا۔دوسرے لفظوں میں جو بوئے گا کاٹے گا۔

اقرا جبین

Loading...
سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button