کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے
اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے
مصطفیٰ تو برسرِ اِمداد ہے
عفو تو کہہ کیا ترا اِرشاد ہے
بن پڑی ہے نفس کافر کیش کی
کھیل بگڑا لو خبر فریاد ہے
اس قدر ہم اُن کو بھولے ہائے ہائے
ہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے
نفسِ امارہ کے ہاتھوں اے حضور
داد ہے بیداد ہے فریاد ہے
پھر چلی بادِ مخالف لو خبر
ناؤ پھر چکرا گئی فریاد ہے
کھیل بگڑا ناؤ ٹوٹی میں چلا
اے مرے والی بچا فریاد ہے
رات اندھیری میں اکیلا یہ گھٹا
اے قمر ہو جلوہ گر فریاد ہے
عہد جو اُن سے کیا روزِ اَلست
کیوں دلِ غافل تجھے کچھ یاد ہے
میں ہوں میں ہوں اپنی اُمت کے لیے
کیا ہی پیارا پیارا یہ اِرشاد ہے
وہ شفاعت کو چلے ہیں پیشِ حق
عاصیو تم کو مبارک باد ہے
کون سے دل میں نہیں یادِ حبیب
قلبِ مومن مصطفیٰ آباد ہے
جس کو اُس دَر کی غلامی مل گئی
وہ غمِ کونین سے آزاد ہے
جن کے ہم بندے وہی ٹھہرے شفیع
پھر دلِ بیتاب کیوں ناشاد ہے
اُن کے دَر پر گر کے پھر اُٹھا نہ جائے
جان و دل قربان کیا اُفتاد ہے
یہ عبادت زاہدو بے حُبِّ دوست
مفت کی محنت ہے سب برباد ہے
ہم صفیروں سے ملیں کیوں کر حسنؔ
سخت دل اور سنگدل صیاد ہے
حسن رضا بریلوی