کیا ہے اس اجڑی ہوئی منزل میں
میرے دشمن رہیں میرے دل میں
وہم آنے لگے کیا کیا دل میں
رک گیا قافلہ کس منزل میں
سوچتا کچھ ہے تو کرتا کچھ ہے
آدمی ہوتا ہے جب مشکل میں
موج جو آتی ہے لٹ جاتی ہے
کون سی بات نہیں ساحل میں
جانے کیا دل کو ہوا ہے باقیؔ
جی نہیں لگتا کسی محفل میں
باقی صدیقی