اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

کرتے ہیں جوکہ جی میں ٹھانے ہیں

میر تقی میر کی ایک غزل

کرتے ہیں جوکہ جی میں ٹھانے ہیں
خوبرو کس کی بات مانے ہیں

میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں
پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں

جا ہمیں اس گلی میں گر رہنا
ضعف و بے طاقتی بہانے ہیں

پوچھ اہل طرب سے شوق اپنا
وے ہی جانیں جو خاک چھانے ہیں

اب تو افسردگی ہی ہے ہر آن
وے نہ ہم ہیں نہ وے زمانے ہیں

قیس و فرہاد کے وہ عشق کے شور
اب مرے عہد میں فسانے ہیں

دل پریشاں ہوں میں تو خوش وے لوگ
عشق میں جن کے جی ٹھکانے ہیں

مشک و سنبل کہاں وہ زلف کہاں
شاعروں کے یہ شاخسانے ہیں

عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button