کوئی ان کی خبر نہیں آتی
بات بنتی نطر نہیں آتی
تلخیٔ شب نہ جس میں شامل ہو
کوئی ایسی سحر نہیں آتی
کس سے پوچھیں بہار کی باتیں
اب صبا بھی ادھر نہیں آتی
اٹھ گئی ہے وفا ہی دنیا سے
بات اک آپ پر نہیں آتی
زندگی ہے وہ آئنہ جس میں
اپنی صورت نظر نہیں آتی
دل پہ کھلتی ہے جب حقیقت غم
پھر ہنسی عمر بھر نہیں آتی
کون سی شے کی ہے کمی باقیؔ
زندگی راہ پر نہیں آتی
باقی صدیقی