گہری خاموشی میں دیوار پر آویزاں گھڑی کی ٹِک ٹِک کو سنتے ہوئے کبھی کبھی نیند نہیں آتی ہے اور ایسے میں اگر رات کے پچھلے پہر لگاتار ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگے تو خوف کا احساس ہونے لگتا ہے۔ آج میرے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔ میں سونے سے پہلے ٹیلی فون کو اس کمرے میں رکھ دیتا ہوں جہاں عموماً میرے علاوہ کسی کو جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میری خاموشیاں اس کمرے میں بولتی ہیں۔ جہاں تک بیڈ روم کا سوال ہے تو اس کمرے میں میری بیوی ساتھ ہوا کرتی ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ مجھے ڈائننگ ٹیبل پر سجاتی ہے اور پھر متعینہ وقت پر ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو دیکھتی رہتی ہے۔ اس دوران آنے والے ٹیلی فون یا دستک دینے والے کسی بھی شخص کا سیدھے مجھ سے ہی مکالمہ ہوا کرتا ہے۔ بچے جوان ہو چکے ہیں۔ دارین انجینئر ہے اور امریکہ میں بس گیا ہے۔ میری پیاری بیٹی صائمہ اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب میں ہے۔ بہت خوش ہیں دونوں بچے۔ میرا کاروبار بھی پھل پھول رہا ہے۔ بچے میرے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں انہیں منع کر دیتا ہوں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میری بیوی عشاء کی نماز کے بعد فارغ ہو جاتی ہے۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ بڑے شہر کے نوکروں پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ انہیں شام سے پہلے ہی فری کر دیتی ہے۔ دراصل میری تنہائی کا سفر بھی یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ بہرکیف!
رات کے پچھلے پہر لگاتار فون کی گھنٹی سے میں کچھ خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ موبائل کے دور میں بھی میں صرف لینڈ لائن پر ہی اکتفا کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہوں۔بچے ملک کے باہر رہتے ہیں اور ان کا بھی وقت طے ہے۔ انہوں نے ہندوستانی وقت کا بھی ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ مگر انہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہوا ہے؟ سب خیریت تو ہے؟ کہیں صائمہ کی پرانی بیماری! نہیں نہیں، میں بھی کیا سوچنے لگا ہوں۔ اچھا جانے دو بہت ضروری کال ہو گا تو پھر آئے گا ٹیلی فون۔ مگر یہ گھنٹی بھی خوب ہے طے شدہ وقت سے زیادہ بج رہی ہے۔ اب تک تو بند ہو جانا چاہئے تھا اسے۔ مگر ایسانہیں ہوتا ہے۔ گھنٹی لگاتار بجتی جاتی ہے۔ اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ آواز مدھم نہیں ہے۔ کمرہ بند ہونے کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میرے بیڈ روم سے ہی آواز آ رہی ہے۔ میں اندھیرے میں دھیرے دھیرے کمرے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بیوی آسانی سے نہیں جگ سکے گی یہ میں بھی جانتا ہوں مگر پڑوسیوں کی نیند تو خراب ہوہی سکتی ہے۔ گھنٹی بند نہیں ہو رہی ہے۔ میں اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولتا ہوں، اور پھر دوسرے کمرے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے لگتا ہوں۔ ٹیلی فون والے کمرے کا دروازہ کھولتا ہوں۔ گھنٹی اور تیز ہو گئی ہے۔ روشن دان سے کوئی ہلکی روشنی ابھر رہی ہے۔ میں کمرے میں روشنی پھیلانا نہیں چاہتا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کے لئے روشنی کی کیا ضرورت؟ نہ جانے کیوں آج میں، بہت سہما ہوا ہوں۔ مجھے لگ رہا ے یہ کوئی نارمل فون نہیں ہو سکتا۔ رات کے پچھلے پہراتنا اضطراب کیوں ؟پھر اپنے اندر ہمت سمیٹ کر ٹیلی فون اٹھاتا ہوں۔ گھنٹی چپ ہو جاتی ہے۔ مگر کوئی بے چین شخص میرے دھیرے سے ’ہیلو‘ کہنے پر ایک ہی سانس میں بولنے لگتا ہے۔
’عجیب آدمی ہیں آپ؟ میں مستقل آ پ کو ٹیلی فون کر رہا ہوں۔ دیر تک رِنگ ہونے کے باوجود آپ خاموش ہیں ؟ کیوں اتنے خوفزدہ تھے؟ میں کوئی چنگی مانگنے والا نہیں ہوں۔ نہ ہی آپ کو کوئی دھمکی دینے جا رہا ہوں۔ کوئی بری خبر بھی نہیں پہنچانے والا ہوں۔ آپ اتنے بزدل کیوں ہیں۔ بس رات کے پچھلے پہر آپ کو جگا دیا تو بے چین ہو گئے؟ شیم …شیم…!
’بھائی ایسی بات نہیں ہے!‘
’اگر ایسی بات نہیں ہے تو ٹیلی فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟ یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ آپ خود سے خوفزدہ ہیں۔‘
’میں پھر کہہ رہا ہوں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں کبھی خود سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ مگر یہ ٹیلی فون کرنے کا کوئی وقت ہے اور سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ آپ نے اب تک اپنا نام نہیں بتایا۔ مقصد نہیں بتایا۔ میرا خیال ہے کہ میں آپ کو جانتا تک نہیں اور یہ طے ہے کہ آپ بھی مجھے نہیں جانتے۔‘
’سنئے سنئے دھیان سے سنئے آپ کا ٹیلی فون نمبر ہے 2665948۔ آپ کا نام ہے جعفر امام۔ آپ کی بیٹی صائمہ اور بیٹا دارین ہے۔ صائمہ اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب میں ہے۔ دارین امریکہ میں مقیم ہے۔ صائمہ سے آپ بہت پیار کرتے ہیں اور پیار محض اس لئے نہیں کہ وہ آپ کی بیٹی ہے۔ بلکہ اس کے عالمِ وجود میں آتے ہی آپ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا کنٹریکٹ ملا تھا۔ اسی کنٹریکٹ نے آپ کو آسمان کی بلندیاں عطا کر دیں۔ آپ ہر روز صائمہ کا چہرہ دیکھ کر ہی دن کا کام شروع کرتے تھے۔ اسے دمے کا مرض ہے۔ آپ نے بہت علاج کروایا لیکن کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ دارین پر آپ کو ناز ہے۔ اس نے آپ کا نام روشن کیا ہے۔ ہمیشہ آپ کی مرضی کے مطابق ہی کام کیا ہے یہاں تک کہ اس نے آپ کی پسند کو ہی اہمیت دیتے ہوئے اپنی برسوں کی دوستی کو قربان کر دیا۔دارین کی بیوی ایک اچھی بہو ضرور ہے لیکن وہ کبھی اس کی محبوبہ نہیں بن پاتی۔ دراصل آپ رشتوں کا بھی کاروبار کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ مجھے نہیں جانتے، مگر یہ دعویٰ کیوں کئے بیٹھے ہیں کہ کوئی آپ کو نہیں جانتا؟‘
’مگر …مگر… میری بات بھی آپ سن لیں۔ یہ سچ ہے کہ میں آپ کو نہیں جانتا۔ کبھی آپ سے میری گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ آپ میرے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں۔ عجیب شخص ہیں آپ۔ تعارف تو دیجئے۔ میں اپنے سبھی دوستوں کو یاد کرنے کی کوشش کروں گا کہ شاید ان میں سے ہی ہوں آپ۔‘
’تو ٹھیک ہے۔ آپ اپنے سبھی دوستوں کو یاد کیجئے۔ آپ ذہن پر زور دیجئے کہ میں کون ہو سکتا ہوں۔ آپ کے بارے میں اتنا کچھ جاننے والا میں کون ہوں ؟ مگر آپ یہ جان لیجئے کہ میں اور بھی بہت کچھ جانتا ہوں آپ کے بارے میں، آپ کی بیوی کے بارے میں۔ آپ کی محبوبہ روبی کے بارے میں …‘
’شٹ اپ! شٹ اپ! اب تو حد ہو گئی۔ آپ کہیں مجھے بلیک میل تو نہیں کرنا چاہتے؟ اگر ایسی بات ہے تو …‘
’اوہ۔ سنو! میں تم جیسے آدمی کو بلیک میل کروں گا؟ تمہاری اوقات ہی کیا ہے؟ دھیان سے سنو…! تمہیں چوبیس گھنٹے کا وقت دیتا ہوں۔ مجھے پہچاننے کی کوشش کرو۔‘
’ہیلو… ہیلو…!‘
فون ڈسکنکٹ ہو جاتا ہے۔ سخت سردی کے باوجود میرا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا ہے۔ میں نے سگریٹ تلاش کی۔ کب وہ لب تک پہنچی مجھے اندازہ نہیں ہوا۔ میں نے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھول دیں۔ چاند کی کرنیں اور سڑک کے لیمپ پوسٹ کی مدھم روشنیاں میرے کمرے میں آ گئیں۔ دریچے سے باہر سنسان سڑکوں پر کہیں کچھ نہیں تھا بس چاروں طرف خاموشیاں تیر رہی تھیں اور میں ان خاموشیوں میں ڈوبتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ ذہن کے نہاں خانوں سے جھانکنے والے ماضی کے بے شمار چہروں کو دیکھنے اور انہیں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ کوئی چہرہ واضح طور پر دھند سے ابھرتا دکھائی نہیں دیتا۔ گفتگو کا سلسلہ پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ آخر کون ہے وہ شخص؟ میری زندگی کی کتاب میں کہاں ہے اس کا نام؟ وہ مجھے اس حد تک کیسے جانتا ہے۔ اور اگر جانتا بھی ہے تو کریدنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟اچھا… اچھا… وہ فہیم ہو سکتا ہے! میرے بچپن کا دوست میرے دکھ سکھ کا ساتھی۔ ارے ہاں … میں بھی کیا آدمی ہوں۔ فہیم کو ہی بھول گیا؟ مگر اسے اتنی رات گئے فون کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو لگ بھگ ہر ہفتے مجھ سے ملتا ہے۔ ایک طرح سے ہماری فیملی ہی اس کے جینے کا مقصد ہے۔ اس نے بھی دولت اُگاہی تو بہت کر لی ہے مگر کوئی بھوگنے والا نہیں ہے۔ بس بیوی کیا گزر گئی اس کا قدرت سے وشواس ہی اٹھ گیا۔ ہم سبھوں نے بہت ضد کی کہ دوبارہ شادی کر لے لیکن ہمیشہ خوبصورتی سے ٹالتا رہا اور بعد میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس نے جینے کا بہانہ تلاش کر لیا ہے۔ اب اسے کسی ایسے سُکھ کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ چونکہ یہ اس کا نجی معاملہ ہے اس لئے زیادہ ٹوکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ مگر …! ٹیلی فون پر وہ آواز تو فہیم کی نہیں ہو سکتی! اتنی خوبصورت آواز۔ اتنا با رعب لب و لہجہ۔ نپے تلے جملے۔ فہیم تو ہکلاتا ہے اور آواز پر تو گمان ہوتا ہے کہ کوئی خاتون اس کے اندر سے بول رہی ہے۔ نہیں وہ ٹیلی فون فہیم کا تو نہیں ہو سکتا۔ مگر میرے بارے میں کوئی اتنا جانتا بھی نہیں ہے۔ میں تو ہمیشہ سفر میں رہا ہوں۔ ادھر کچھ دنوں سے ایک دفتر کھول کر اس شہر میں مقیم ہوں۔ ہو سکتا ہے روبی نے فون کروایا ہو۔ روبی پھر میری زندگی میں آنے کی کوشش کر رہی ہو۔اس شخص نے میری محبوبہ روبی کا ذکر کیا تھا۔ اسے روبی کے بارے میں جانکاری کیسے ملی؟ میرے اور روبی کے علاوہ تو شاید اور کوئی اس رشتے کے بارے میں نہیں جانتا۔ میں نے شادی کے بعد اس کے سارے خطوط بھی جلا دئیے ہیں۔ کوئی ثبوت باقی نہیں رہنے دیا ہے۔ اور پھر اتنے برسوں بعد کوئی کیوں مجھے پریشان کرے گا؟ میں اپنی شادی کے بعد کبھی روبی سے ملا ہی نہیں۔ اس نے بھی ایسی کوشش نہیں کی بلکہ اپنے گھر سے الگ ہو کر اس نے نوکری کر لی۔ وہ مجھے کیوں پریشان کرے گی؟ اور پھر اسے کمی کس بات کی ہو گی۔ روبی ایسا کر رہی نہیں سکتی۔ اگر وہ اس مزاج کی ہوتی تو میری شادی کے وقت ہی ہنگامہ کرسکتی تھی اب تو اس پر کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔ مگر وہ ہے کون…؟ میں دیر تک سوچتا رہتا ہوں اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پانے کی وجہ سے مجھے نیند بھی آجاتی ہے مگر پھر چونک جاتا ہوں اور صبح کے اُگنے تک سو نہیں پاتا۔
اس روز دن بھر دفتر میں بھی بے چین رہا۔ شام ہونے کا انتظار ہی حاوی رہا۔ پھر دل بہلانے کے لئے کسی ہوٹل میں چلا گیا دیر تک کونے میں بیٹھ کر شغل کرتا رہا۔ جب رات زیادہ ہو گئی اور بار بند ہونے لگا تو مجبوراً مجھے سڑک پر آنا پڑا۔ سڑکیں تنہا ہونے لگی تھیں۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ دھیرے دھیرے بلکہ بہت محتاط ہو کر گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا میں اپنے گھر پہنچا۔ بیوی انتظار کر رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئی۔ کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ نماز ادا کرنے والی عورت کے سامنے میں خود کو مجرم سمجھ رہا تھا اور یہی سوچ کر اپنے نجی کمرے میں یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ ’کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے۔‘
بیوی پہلے بھی یہ سب جھیل چکی تھی اس لئے وہ بیڈ روم میں جا کر سوگئی۔
رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میں اندھیرے میں بیٹھ کر دیر تک سگریٹ پیتا رہا۔ بار بار ٹیلی فون پر نگاہ ٹھہر جاتی ہے۔ پھر ذہن پر زور دیتا ہوں۔ نہ جانے کیوں روبی بار بار سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میری جدوجہد کے ساتھ لگاتار وہ بھی ہم سفر رہی تھی۔ یہ بھی طے ہے کہ اس نے میرے لئے ڈھیر ساری قربانیاں دیں یہاں تک کہ میرے کیریر کو خوبصورت بنانے کے لئے اپنی محبت کو بھی قربان کر دیا۔ میں بھی مصلحتاً خاموش رہا۔ مگر کچھ ایسے رشتے ہیں، جو وقت کی دھند میں ڈوبتے نہیں ہیں۔ روبی سے میرا رشتہ بھی کچھ ایساہی ہے۔ میں روح کی گہرائیوں سے ابھر کر برسوں جسم و جاں کے رشتے سے بھی شدت کے ساتھ وابستہ رہا اور ایسے میں روبی کو بھلایا جانا بھی مشکل تھا۔ مگر اب عمر کی جس دہلیز پر آ کر کھڑا ہو چکا ہوں اس جگہ ماضی کے ایسے قصے کو زندہ کرنے کا کیا حاصل؟ روبی ایسا نہیں کرسکتی؟ اسے اگر ضرورت ہو گی تو مجھے سیدھے کہہ دے گی۔ میں تو آج اس کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔ وہ ایک بار صرف ایک بار خود مجھ سے آ کر مل لے یا ٹیلی فون پر بجائے دوسروں کے ذریعے مجھے دھمکانے کے، سیدھے اپنا مدعا بیان کرے۔عجیب المیہ ہے یہ بھی کہ کوئی اس حد تک پستی کا شکار ہو سکتا ہے؟ اگر اب ٹیلی فون آیا تو میں صاف صاف کہہ دوں گا کہ سیدھے روبی کو بات کرنے کو کہو۔ میں بیچ کے آدمی سے بات نہیں کروں گا۔ دیر تک اسی ادھیڑ بن میں رہا اور نہ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔
آج کمرے کی کھڑکیاں پہلے سے ہی کھلی تھیں۔ رات کے پچھلے پہر پھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ میں چونک کر اٹھ جاتا ہوں۔ گھنٹی بج رہی ہے۔ باہر سے آنے والی روشنی بھی تیز ہو گئی ہے۔ میں اپنے آپ کو تیار کرنے کے بعد ٹیلی فون اٹھا لیتا ہوں۔ پھر وہی آواز۔ اس کے ہیلو کے جواب میں، میں بھی جب ہیلو کہتا ہوں تو وہ اپنے مخصوص با رعب لہجے میں پھر بولنے لگتا ہے۔
’تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہیں بلیک میل کرنے کے لئے فون کر رہا ہوں۔ شرم آنی چاہئے تمہیں۔ اور روبی کے بارے میں تمہارا خیال اتنا گھٹیا اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ یہ تم کس دنیا میں جی رہے ہو؟ تمہارے مستقبل کو تابناک بنانے والی روبی اگر چاہتی تو تمہیں شادی سے روک سکتی تھی۔ اس کے لکھے ہوئے خطوط تو تم نے جلا دئے لیکن تمہارے لکھے ہوئے خطوں اور گزارے ہوئے لمحوں کے ساتھ وہ جی رہی ہے۔ دراصل سفر تو وہ کر رہی ہے۔ کبھی اس شہر میں تو کبھی اس شہر میں۔ وہ تمہارے کاروباری وجود کو مردہ قرار دے چکی ہے۔ مگر اپنے اکلوتے بیٹے کو اس نے تمہارا نام دیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ روبی کا شوہر مر چکا ہے۔ اس نے اپنے بچے کو جوان کیا اور اب وہ اس کی شادی کر رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تم ایک کمزور مرد کے مقابلے ایک تنہا عورت کی تپسیا کی جیتی جاگتی تصویر کو محسوس کرو۔ وہ چاہتی ہے کہ …‘
اور پھر دیر تک اس آواز کو سنتا رہتا ہوں۔ وہ شخص بولتا رہتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ میں اسے دھیان سے سُن رہا ہوں۔ سچ مچ اس کی آواز میں کھو جاتا ہوں۔
ٹیلیفون پر جس آواز کو اب تک نہیں پہچان پا رہا تھا دراصل وہ تو میری اپنی ہی آواز تھی۔
قاسم خورشید