اردو غزلیاتسعود عثمانیشعر و شاعری

ہاتھ بڑھتا ہے فون کی جانب

سعود عثمانی کی ایک اردو غزل

ہاتھ بڑھتا ہے فون کی جانب

اور میں اس کو روک لیتا ہوں

کوئی زنجیر کھل نہیں پاتی

دل کسی کام میں نہیں لگتا

کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

پھر وہی تیز دھار نوک سعود

قاش در قاش مجھ میں پھرتی ہے

پھر وہی چھن کی آشنا آواز

بوند تپتے توے پہ گرتی ہے

کوئی لکڑی سی جیسے چِرتی ہے

رنج کے بے امان آرے پر

عمر کے آخری کنارے پر

زندگی کیسے روگ پالتی ہے

برف پر آگ دھرتی جاتی ہے

سانس میں ریت بھرتی جاتی ہے

کوئی آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

کسی ملبے سے زندہ حالت میں

یاد آ کر مجھے نکالتی ہے

لوگ کہتے تھے زیر آب کبھی

کوئی آواز بھی نہیں آتی

دل کے گہرے سمندروں کے تلے

پھر یہ آواز کیسے گونجتی ہے

جو کہیں باز بھی نہیں آتی

 

سعود عثمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button