خود یہ فاقہ کش و نادار کہاں بولتے ہیں
دکھ تو جتنے ہیں بااندازِ فغاں بولتے ہیں
گونگے جذبے جو محبت میں رواں بولتے ہیں
ہائے کیوں تیغ و تبر، تیر و کماں بولتے ہیں
وہ بہتّر میں سے ہیں جو سرِ دربارِ شہاں
بولتے ہیں تو سرِ نوکِ سناں بولتے ہیں
عشق والوں کو فقط حُسن سے نسبت اور بس
عشق والوں کے کہاں سودو زیاں بولتے ہیں
ایک اِک کھیت کی شاداب گواہی برحق
کب یہ خود سادہ و معصوم کساں بولتے ہیں
تُو نے دیکھی ہے یہ خاکسترِ جاں ہی تو فقط
راکھ ہوتے ہوئے ہم شعلہ بجاں بولتے ہیں
چاند تارے بھی جو ہوتے ہیں گریزاں مجھ سے
کتنے جگنو ہیں جو اُمید رساں بولتے ہیں
اکرم کنجاہی