ایک بچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔ میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر میں ڈال کر دیئے۔ میں نے سوال پوچھا
” مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟”
کہنے لگے "بچوں کیلئے کیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جب کہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں”
یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔
یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔
ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟
یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجیے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں۔
مراسلہ از صابر رضوی