اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ

میر تقی میر کی ایک غزل

کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ

دل نہیں جمع چشم تر سے اب
پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ

شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو
شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ

ویسے ظاہر کا لطف ہے چھپنا
کم تماشا نہیں یہ پردہ کچھ

خلق کی کیا سمجھ میں وہ آیا
آپ سے تو گیا نہ سمجھا کچھ

یاس سے مجھ کو بھی ہو استغنا
گو نہ ہو اس کو میری پروا کچھ

کچھ نہ دیکھا تھا ہم نے پر تو بھی
آنکھ میں آئی ہی نہ دنیا کچھ

اب تو بگڑے ہی جاتے ہیں خوباں
رنگ صحبت نہیں ہے اچھا کچھ

کچھ کہو دور ہے بہت وہ شوخ
اپنے نزدیک تو نہ ٹھہرا کچھ

وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button