کھٹملوں کا نام مچھر کا نشاں کوئی نہ ہو
معرکے رشوت کے ہم ہر روز سر کرتے رہے
خدمت علم و ہنر ہم عمر بھر کرتے رہے
اور سب اعزاز حاصل بے ہنر کرتے رہے
دوپہر تک وہ ادھر آرام سے سوتا رہا
انتظار یار شب بھر ہم ادھر کرتے رہے
درد تو محسوس کرتا تھا میں اپنے پاؤں میں
ڈاکٹر لیکن علاج درد سر کرتے رہے
ہم نے سوچا تھا بنیں گے پائلٹ ہم کبھی مگر
زندگی بھر بیل گاڑی میں سفر کرتے رہے
نیاز سواتی