- Advertisement -

خانہ بدوش

ڈاکٹر وحید احمد کی ایک اردو نظم

خانہ بدوش

نا مُشت میں میری مُشتری، نا پاؤں میں نیلوفر
نا زُہرہ میری جیب میں، نا ہُما اُڑے اوپر
نا دھڑکا ہے سرطان کا، نا زُحل کا کوی ڈر
نا کوئی میرا دیس ہے نا کوئی میرا گھر

نا ماتھے چمکے چندرما، نا تارا چھنگلی پر
پر دیکھ گلوب ہے گھومتا، میری میلی اُنگلی پر

نا الکھ جگا سنسار میں، جب ماں کی کوکھ ہٹی
ناپستک کھولی باپ نے، جب میری ناف کٹی
نا عمل کیا رمال نے، نا دھن خیرات بٹی
نا بڑوں نے منتر تان کے، کوئی پاک زبان رٹی

میں آپ ہوں اپنا زایچہ، میں آپ ستارہ ہوں
میں آپ سمندر ذات کا، میں آپ کنارہ ہوں

مرا محد کجاوہ اُنٹ کا، مری لوری بانگِ درا
جھنکار جو چھڑکیں گھنٹیاں، تو رستی جائے ہوا
ہے اُوپر گولا ڈولتا، چمکیلے سورج کا
اور اُسکے اُوپر آسماں، ہے گیلا نیل بھرا

مری بھور کٹی ہے کوچ میں تو سانجھ پڑاوؑ میں
دن ڈھور سِموں کی ٹاپ میں تو رین الاؤ میں

ہے وقت چھنکتی چال میں، پگ لمحوں کی پایؑل
ہے چولا چھاؤں دھوپ کا، سر سَت رنگی آنچل
مرا مکہ چمکے آنکھ میں بہے دل میں گنگا جل
میں وایو، اگنی، سوریہ، میں بے ساحل جل تھل

مرا ساتھی صبح و شام کا، مری ماں کا کنگن ہے
ہیں تکیہ اس کی چھاتیاں، تو گود سنگھا سن ہے

میں بالا بیلے دشت کا، صحرا میں ہوا جوان
مرا جسم چھریرا سانولا، مری سیدھی تیر اُتھان
میری کالی آنکھ دراوڑی، متجسس اور حیران
مرے نیند میں ہلتے پاؤں ہیں، میرے جذبے کی پہچان

اِک مشعل راہ نورد ہےِ جو جلتی رہتی ہے
مرے ہاتھ پہ ایک لکیر ہے، جو چلتی رہتی ہے

او دبی دبی سرگوشیو! لو سنو دراوڑو دھاڑ
ہم آسمان کا پارچہ، اک پھونک سے ڈالیں پھاڑ
ہم کالے کوس اُجال دیں، سنگلاخ پہاڑ پچھاڑ
ہم چلیں جو پورے پاؤں سے، تو دھرتی کھائے دراڑ

ہر اِک نشیب فراز کو، ہم ٹھوکر دیتے ہیں
جو خواب خیال گمان ہے، ہم وہ کر دیتے ہیں

انگشت بدنداں راستے، دل پاش کلیجے شق
تن سم ضربوں سے نیلگوں، اور چہرہ چہرہ فق
ہوں شیشہ شیشہ دھاریاں، یا ریگ کدے لق دق
میں اکبرِ اعظم راہ کا، میں منزل کا تغلق

مرا تن ہمزاد الاوؑ میں دربار لگاتا ہے
ہر رستہ جسم سنبھال کے تسلیم کو آتا ہے

او مانگ بھری مری کامنی مرے ساتھ جقانی چکھ
یہ جگ تیری جاگیر ہے تُو کُھل کے پاؤں رکھ
اس ورق ورق سنسار کو، تُو کھول پھرول پرکھ
رہیں سدا یہ دشت نوردیاں، ہے جیون نقش الکھ

آ پاوؑں پہ مٹی باندھ لیں، آ ہوا ہتھیلی پر
آ اسمِ سم سم پھونک، اس جنم پہیلی پر

سنسار سفارت گاہ میں، مرے ڈھوڑ ڈنگر مندوب
ہیں دلدل دشتی راستے، تو تیز ہوا پاروب
ہوں اونچی شرق شمالیاں، یا گہرے غرب جنوب
انہیں ساری سمتیں ایک ہیں انہیں سب راہیں مرغوب

بے جان زمین پہ زندگی کی ٹاپ جو پڑتی ہے
تو سہمے سہمے راستوں کی سانس اُکھڑتی ہے

او دھرتی کھول ہتھیلیاں، میں پاؤں سے کھینچوں ریکھ
مرے کٹے پھٹے پاپوش ہیں، پر نقش نگاری دیکھ
میں کنڈلی ہوں تاریخ کی، میں جنم جنم کا لیکھ
میں بانجھ زمین کا سنبلہ، میں زرد رتوں کا میکھ

اک خیرہ خیرہ روشنی، مری چھاوں میں ہوتی ہے
یہ دنیا جس کا نام ہے مرے پاؤں میں ہوتی ہے

میں سنگ نہیں انسان ہوں، کیوں گھر تعمیر کروں
جب پاؤں لگے ہیں جسم کو، تو کیوں نہ چلوں پھروں
جب عجلت میں ہے زندگی، تو کاہے دھیر دھروں
میں کیسے اینٹیں جوڑ دوں، میں کیوں بنیاد بھروں

اس دھرتی کی بنیاد پر، میں جسم اُٹھاتا ہوں
گھر سایہ بن کر ساتھ ہے، میں جہاں بھی جاتا ہوں

میں پِگمی، بدؔو، نیگرو میں ہوں منگول، افغان
اس صبح بحیرہ روم تھا، اس شام ہوں راجھستان
ہے سڈنی قرب و جوار میں، کبھی پہلو میں ایران
دریاے زرد میں کشتیاں، ڈنیوب میں کبھی پڑان

اک نقش پا رومانیہ، تو اک قفقاز میں ہے
اک سانس ہے مالا بار میں، تو ایک حجاز میں ہے

میں شاعر ساندل بار کا، مری سوچیں خانہ بدوش
جب کرے سلیماں معجزہ، تو دنیا سے روپوش
پی ساوی بری امام کی، تو من موجی مدہوش
کبھی سارا دھارا آیؑینہ، کبھی پورن ماشی جوش

یہ چہرے سورج دار ہیں لشکارا ہوتے ہیں
یہ لوگ جو ہیں بے خانماں، مرا سارا ہوتے ہیں

(ڈاکٹر وحید احمد)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منٹو کی ایک مشہور افسانہ