اردو نظمستیا پال آنندشعر و شاعری

خاکِ شِفا

ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم

خاکِ شِفا

(ڈاکٹر امجد حسین سے کے توسط سے پشاور کی ایک مٹھی خاک ملنے پر)

سجدہ ریز ہوا میں
قشقہ کھینچا اپنے شہر کی اس مٹی سے
جس نے مجھ کو جنم دیا ہے
کیا سوندھی خوشبو ہے، کیسا لمس ہے، کیا ٹھنڈک ہے اس کی!
مٹی جو سڑکوں،بازاروں
گلیوں، کوچوں
اور گھروں کے کچے صحنوں اور چھتوں سے
اڑتی اڑتی سات سمندر پار کئی برسوں سے مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی
اب میرے گھر تک پہنچی ہے
ا س مٹّی میں رچی بسی ہے
میرے پرکھوں کی جانی پہچانی خوشبو
اس مٹّی میں بول رہے ہیں
گھر، گلیاں ، روزن، دروازے
دیواریں، چھجے ، پرنالے
سب کہتے ہیں
ہم تو نصف صدی سے اپنی آنکھیں کھولے جاگ رہے ہیں
رام بھی بنباسی تھے، لیکن
چودہ برس گذ رنے پر وہ اپنی اجدھیا لوٹ آئے تھے
تم کیسے بنباس سدھارے
نصف صدی تک لوٹ نہ پائے!
اور میں بدقسمت پردیسی
ہجرت مار ا
پاؤں شکستہ، اک بنجارہ
اپنی مجبوری کی زنجیروں میں بندھا ہوا زندانی

سات سمندر پار کی اس بے رحم زمیں پر
بے گھر بیٹھا سوچ رہا ہوں
خاکِ شفا کی پڑیا کو ٹکیہ میں ڈھالوں
گرہ میں باندھوں
اور اپنا دمساز بنا لوں!

ستیا پال آنند

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button