کتبہ
یہاں پہ وہ لڑکی سو رہی ہے
کہ جسکی آنکھوں نے نیند سے خواب مول لے کر
وصال کی عمر رتجگے میں گزار دی تھی
عجیب تھا انتظار اسکا
کہ جس نے تقدیر کے تنک حوصلہ مہاجن کے ساتھ
بس اک دریچۂ نیم با ز کے سکھ پہ
شہر کا شہر رہن کروا دیا تھا
لیکن وہ ایک تارہ
کہ جس کی کرنوں کے مان پر
چاند سے حریفانہ کشمکش تھی
جب اس کے ماتھے پہ کھلنے والا ہوا
تو اس پل
سپیدۂصبح بھی نمودار ہو چکا تھا
فراق کا لمحہ آ چکا تھا۔۔۔
پروین شاکر