- Advertisement -

کامیابی دراصل آپ کی ”سوچ ”ہے !

عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم

کامیابی دراصل آپ کی ”سوچ ”ہے !

نماز ،زکوٰۃ ، روزہ، حج ، صدقات اور قربانی کے علاوہ اسلامی تہواروں کے اجتماعات اسلامی معاشرتی زندگی کی انمول حکمتوں سے لبریز ہیں۔ انکے ذریعے روز مرہ زندگی میں جسمانی پاکیزگی اورصفائی کے علاوہ سلیقے، میانہ روی، تحمل وبرداشت،صبر،ایثار، عاجزی،اطاعت، مثبت سوچ اور انسانی ہمدردی کا درس دیا گیا ہے۔اسلامی تعلیمات کے احکامات کی روشنی اور فطرت انسانی کے رویوں کیخلاف اگر کوئی شخص مثبت کردار کی بجائے دقیانوسی پن اور انتہا پسندی کا رویہ اپناتا ہے تو وہ نہ صرف خود مصائب وآلام کو دعوت دیتا ہے بلکہ معاشرے کے عدم استحکام کا بھی باعث بنتا ہے۔
یہ معاشرہ افراد کا معاشرہ ہے اور تمام افراد کی سوچ، خیالات، رویے،جذبات، علم، فہم وفراست، شعور، ادراک، عمل، طریقہ ، صلاحیتیں، قوت فیصلہ ایک جیسے نہیں ہوسکتے مگر منفی سوچ اپنانے والے افراد کے رویوں کے سبب پورے معاشرے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جس کو قرآن پاک نے فتنہ اور فساد کا نام دیا ہے۔کامیاب زندگی کے لئے اپنی سوچ تعمیری رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ تعمیری سوچ اور مثبت رویہ سر اسر خیرکا باعث ہے ۔اپنی صفوں میں مثالی اتحاد و اتفاق پیدا کرلیں تو غیر اسلامی معاشرے بھی اسلامی معاشروں کی تقلید شروع کردیں گے۔ جن افراد اور معاشروں میں رویوں کا فقدان پایا جاتا ہے افراتفری اور خانہ جنگی انکے اندر موجزن رہتی ہے تو دوسری طرف بد قسمتی، تباہی و بربادی اور مفلوک الحالی ایسے معاشروں کا مقدر بنتی ہے۔
بغص، کینہ اور اس قسم کے دیگر خیالات انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کے لیے بھی نہایت نقصاندہ ہیں۔مبثت سوچ کس قدر انسانی زندگی کا دھار پلٹ سکتی ؛ایک دفعہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام تشریف فرما تھے، ایک صحابی آئے اور تھوڑی دیر بعد چلے گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا ، دُنیا میں جس نے چلتا پھرتا جنتی دیکھنا ہے اسے دیکھ لیں ، تین دن ایسا ہوتا رہا، تو صحابہ کرام تجسس میں اُن کے گھر تک گئے ، واپس آکر عرض ِبحضور ﷺ کی کہ ؛ ہمیں تو ان میں کوئی ایسا معمول نہیں نظر آیا جو ہم سے زیادہ ہو ، فرمایا کہ اس میں یہ بات ہے کہ جب بھی سوچتا ہے مثبت سوچتا ہے ۔ یہ ہے اسلامی فضلیت ، آج سائنس تحقیق بھی اس بات کی معترف ہے کہ سوچ کا انسانی زندگی پر گہرا اثر ہے ۔
امریکا سے تعلق رکھنے والی شاعرہ امیلی ڈکنسن نے کہا تھا، ’اس جہان میں کچھ ایسا نہیں جو لفظوں سے زیادہ طاقتور ہو۔ بعض اوقات میں ایک لفظ لکھتی ہوں اور اسے تکتے رہتی ہوں یہاں تک کہ وہ چمکنے لگتا ہے‘۔ لفظوں کی طاقت اور ان کا اثر ایک حقیقت ہے، لفظوں میں زندگی ہوتی ہے۔ ان کا ایک مزاج ہوتا ہے اور یہ جس کے کانوں سے ٹکرائیں، نظروں سے گزریں اپنا اثر چھوڑے بنا نہیں رہتے۔جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی گئی انسانی عظمت اور کمالات افشا ہوتے گئے۔ تحقیقات نے ثابت کیا کہ انسان پر بھی اُس کے ماحول، حالات اور سوچ کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
انسانی سوچ نہ صرف جسمانی اور ذہنی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات دوسرے لوگوں پر بھی ہوتے ہیں۔ اچھی اور مثبت سوچ کے حامل افراد کے جسم میں سے مثبت لہریں نکلتی ہیں جو آس پاس کے ماحول، افراد اور چیزوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جبکہ منفی سوچ، خیبت، اضطراب، حسد،
ایک اندازے کے مطابق یہ مثبت یا منفی شعائیں 8 میٹر تک کے علاقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسانی رویوں کا مشاہدہ کیا جائے تو بھی یہ بات سامنے آتی ہی کہ جو افراد مثبت سوچ اور خیالات کے حامل ہوتے ہیں اُن کی ذاتی زندگی نہایت خوشگوار اور قابل رشک ہوتی ہے۔ وہ زندگی زیادہ اچھے انداز میں جیتے ہیں، اُن کی صحت بہتر رہتی ہے، ان کے رشتوں میں زیادہ پائیداری ہوتی ہے اور وہ ہر مشکل، پریشانی پر جلد قابو پالیتے ہیں۔کامیاب زندگی، مثبت سوچوں اور رویوں ،جب کہ ناکام زندگی منفی سوچوں اور رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سوچ انسانی ذہن پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے۔ زندگی کا ہر منظر سوچ سے جنم لیتا ہے اور سوچ پر ہی ختم ہوتا ہے۔ ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل شخص تعمیری فعل انجام دیتا ہے۔
ہماری زندگی پر ہماری سوچ اور خیالات مستقل طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔‘‘ یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں تو آپ کر سکیں گے اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے تو کچھ بھی کر لیں آپ وہ کام نہیں کر سکیں گے۔
مثبت اور منفی خیالات انسان کے ذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور انسان کی زندگی کے بیشتر زاویے اس کی ذہنی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے اور ان جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ سوچ سے خیال، خیال سے نظریہ، نظریہ سے مقصد، مقصد سے تحریک، تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ ہمارے ذہن کے سوچنے کا انداز دو طرح کا ہوتا ہے۔
ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو خوشی یا فائدہ دے مثبت سوچ ہے، اور وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو پریشانی یا نقصان پہنچائے وہ منفی یا غلط سوچ ہے۔
مثبت سوچ یا عمل سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے ترقی ہو، بلندی کی جانب پیش قدمی ہو، منزل کا حصول ہو، بہتری ہو، فلاح و بہبود ہو، تعمیر ہو۔ اس کے برعکس منفی عمل سے مراد ہر وہ فعل ہے جس میں حقیقی نقصان ہو، تنزلی ہو، منزل سے دوری ہو۔مثبت اور منفی عمل ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے یعنی منفی یا مثبت خیالات کے ذریعے ہی انسان سے مختلف عمل سرزد ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ سے انسان کے اندر مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ذہن میں خیالات کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے مگر ان خیالات کو عملی جامہ پہنانا تو انسان کے اپنے اختیارمیں ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مثبت سوچ ہی کسی فرد کی شخصیت کو ابھارنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثبت سوچ کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس پر قدم رکھنے والا انسان کامیابی کی منزل پا لیتا ہے۔ مثبت طرز فکر وعمل کا انجام کامیابی اور منفی کا انجام ناکامی ہے خواہ اس کا تعلق دُنیا سے ہو یا آخرت سے ہو۔یقیناً کامیاب لوگ کسی فوق العقل چیز پر یقین کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے افعال کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ہر وقت مثبت سوچتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں اور دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں۔ غلطی ہو جائے تو بہت جلد معذرت کر لیتے ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ مثبت سوچ زندگی کا رخ موڑ سکتی ہے اور غم و اندوہ کے پہاڑ تلے دبے ہونے کے باوجود نیا جوش اور ولولہ دیں۔ ہمت و جذبہ، بلند خیالی اورمستقل مزاجی سے ناممکنات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ سوچ کو مثبت رکھتے ہوئے پوری امانت داری سے محنت کریں اور پھر نتائج اس ذات باری تعالیٰ پرچھوڑ دیں جو پتھر کے اندر رہنے والے کیڑے کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔

عابد ضمیر ہاشمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شیخ خالد زاہد کا اردو کالم