کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا
کبھی تم بھی ہم کو ہی سوچنا،
رہا دل کہاں ،کبھی کھوجنا
کبھی اُڑتے پنچھی دبوچنا،
کبھی خود کھرنڈ کو نوچنا
کبھی جب شفق میں ہنسی کھلے ،
کسی نین جھیل میں ،خوں ملے
تو اداس چاند کو ،دیکھنا،
کوئی رخ اکیلے ہی ڈھونڈنا
یہ رُتیں جو دھیرے سے چھوتی ہیں
ہمیں، خوشبوؤں سے بھگوتی ہیں
یہ رُتیں نہ پھر کبھی آئیں گی ،
یہ جو روٹھ روٹھ کے جائیں گی
یہ رُتیں انوکھا سرور ہیں
کہ یہ پاس ہو کے بھی دور ہیں
انھیں تم دُعاؤں میں ڈھلنے دو،
انہیں آسمان کو، چلنے دو
سُنو ہوک جب کسی کونج میں
اِنہیں سرد، ہواؤں کی گونج میں
تو اداس چاند کو، دیکھنا
کبھی تم بھی،ہم کو ہی سوچنا۔۔۔!!!
فرزانہ نیناں