- Advertisement -

اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے

افتخار شاہد کی ایک غزل

اتنی حیرت سے دیکھتا کیا ہے
میری صورت پہ کچھ لکھا کیا ہے

آئینہ سوچ میں تو ہے لیکن
سوچتا ہوں یہ سوچتا کیا ہے

شور کیسا ہے چوک سے آگے
آؤ دیکھیں معاملہ کیا ہے

دل لگانا کسی حسینہ سے
پھر میں پوچھوں گا حوصلہ کیا ہے

لوگ پہلو دبائے پھرتے ہیں
شہرِ جاناں میں ہو رہا کیا ہے

اے مرے زود رنج یہ تو بتا
میں نے تجھ سے بھلا کہا کیا ہے

کس قدر بوجھ ہے سماعت پر
میرے کانوں نے یہ سنا کیا ہے

بھاگتے پھر رہے ہیں سڑکوں پر
کوئی پوچھے تو مسئلہ کیا ہے

اس کےآنکھوں کے نیلے پانی میں
ایک قطرہ یہ لال سا کیا ہے

اس کی آنکھوں میں خواب روشن ہیں
اس کی پلکوں پہ رت جگا کیا ہے

اے مرے چارہ گر توقف کر
پوچھ تو لے مجھے ہوا کیا ہے

پاؤں اندر ہیں دھیان باہر ہے
سچ بتاو معاملہ کیا ہے

اِک مسلسل دھمال ہے شاھد
دھڑکنوں کا یہ سلسلہ کیا ہے

افتخار شاھد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شازیہ اکبر کی ایک غزل