- Advertisement -

اتنا سامان تو گٹھڑی میں نہیں آئے گا

کلیم باسط کی ایک اردو غزل

اتنا سامان تو گٹھڑی میں نہیں آئے گا
میرا کردار کہانی میں نہیں آئے گا

پریاں رات کی وادی میں نہیں اتریں گی
چاند اب جھیل کے پانی میں نہیں آئے گا

اونچی دیواریں فصیلوں میں بدل جاتی ہیں
سو وہ آباء کی حویلی میں نہیں آئے گا

دھیمے لہجے میں بڑا بول بڑے کام کا ہے
پر یہ آہنگ جوانی میں نہیں آئے گا

خواب کی مدح میں مصروف ہیں آنکھیں لیکن
دل کسی خام خیالی میں نہیں آئے گا

پہلے تعبیر گھڑو، بعد میں سپنا دیکھو
کوئی یوسف تری بستی میں نہیں آئے گا

وقت کو قیمتی ہر شے سے سمجھتے ہیں مگر
وقت دینا کسی گنتی میں نہیں آئے گا

چاند بادل میں چھپا اور دِیا کب کا بجھا
یعنی اب طے ہے وہ کھڑکی میں نہیں آئے گا

ناخداؤں کا، خداؤں کا نہیں ہے پابند
جس نے آنا ہے وہ کشتی میں نہیں آئے گا

جس تصوّر کے تصوّر میں مگن رہتے ہو
وہ کبھی جامہءِ ہستی میں نہیں آئے گا

کلیم باسط

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
کلیم باسط کی ایک اردو غزل