عشق ِخلقت مِیں ہے پنہاں وہ خزانہ ویسے
جس کو اب بھول چُکا سارا زمانہ ویسے
راہ ِاُلفت سے ہی کُھلتی ہے نئی راہ ِ حَیات
یوں ملا مجھ کو بھی جینے کا بہانہ ویسے
جادۂ ِعشق پہ چلنا نہیں آسان ، مگر
ہُوگیا ہُوگا وہ اب تک تو روانہ ویسے
روز بنتی ہوں کبوتر کا وسیلہ , لیکن
اصل رزّاق ہی دیتا ہے وہ دانہ ویسے
جائزہ لیتی رہی نفس کی کوتاہی کا
آگیا مجھ مِیں بھی اک وصف ِ یگانہ ویسے
تیر لگتا ہے اندھیرے مِیں نشانے پہ کہاں؟
آپ کا لگ گیا ہے ٹھیک نشانہ ویسے
جب مَکانوں سے ہی ماں باپ جُدا ہُوجائیں
تب کہاں پاتے ہیں بچّے , وہ ٹھکانہ ویسے
اُس کی مرضی پہ رہا , اُس کی رضا پر راضی
عشق کی دُھن پہ چَلا , عشق دَوانہ ویسے
جاگتے رہنا سؔبیلہ بھی عطا ہُو جیسے
اُس نے بخشے ہیں کچھ اُوصاف ِ شبانہ ویسے
سؔبیلہ انعام صدیقی