اس دورِ ابتلا سے نکلنا بھی ہے مجھے
تیری صدا کی سمت کو چلنا بھی ہے مجھے
انگشت کے اشارے پہ پلٹا ہوں اور اب
زہرہ جبیں ہو اذن کہ ڈھلنا بھی ہے مجھے
دونوں کے داغ ہاتھ پہ پاؤں پہ آئیں گے
کانٹوں پہ چل کے پھول مسلنا بھی ہے مجھے
پتھر کو زخم آئے تو معبود بن گیا
اے خوشگوار لمس پگھلنا بھی ہے مجھے
ثابت نِگل لیا ہےجو ٹکڑا حلال تھا
آخر کو سچ ضرور اگلنا بھی ہے مجھے
چاک اس لیے بھی کر لیا ہے دامنِ کفن
بعد ِ عزا لباس بدلنا بھی ہے مجھے
شہرِ شعور سے ملے آب و ہوا کا رزق
سوکھا شجر ہوں پھولنا پھلنا بھی ہے مجھے
عامر ابدال