ہم پوچھ سکے نہ حال تیرا
لے آیا کہاں خیال تیرا
جیسے کسی غیر کا تصور
یوں آتا ہے اب خیال تیرا
ہم دیکھتے رہ گئے جہاں کو
پوچھا تھا کسی نے حال تیرا
ٹوٹے ہیں تعلقات کیونکر
میرا تھا نہ یہ خیال تیرا
کس رنگ میں وہ ملے تھے باقیؔ
دل ہی میں رہا سوال تیرا
باقی صدیقی