- Advertisement -

ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے

میر تقی میر کی ایک غزل

ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے
سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے

کیا بخود رہنا ہمارا کچھ رکھے ہے اعتبار
آپ میں آئے کبھو اب ہم تو مہماں سے گئے

جب تلک رہنا بنا دل تنگ غنچے سے رہے
دیکھیے کیا گل کھلے گا اب گلستاں سے گئے

کیا غزالوں ہی کو ہم بن وحشت بسیار ہے
کوہ بھی نالاں رہے جب ہم بیاباں سے گئے

لائی آفت خانقاہ و مسجد اوپر وہ نگاہ
صوفیاں دیں سے گئے سب شیخ ایماں سے گئے

دور کر خط کو کیا چہرہ کتابی ان نے صاف
اب قیامت ہے کہ سارے حرف قرآں سے گئے

جی تو اس کی زلف میں دل کا کل پیچاں میں میر
جا بھی نکلے اس کنے تو ہم پریشاں سے گئے

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل