- Advertisement -

ہرنام کور

ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو

ہرنام کور

نہال سنگھ کو بہت ہی الجھن ہورہی تھی۔ سیاہ و سفید اور پتلی مونچھوں کا ایک گچھا اپنے منہ میں چوستے ہوئے وہ برابر دو ڈھائی گھنٹے سے اپنے جوان بیٹے بہادر کی بابت سوچ رہا تھا۔ نہال سنگھ کی ادھیڑ مگر تیز آنکھوں کے سامنے وہ کھلا میدان تھا جس پر وہ بچپن میں بنٹوں سے کبڈی تک تمام کھیل کھیل چکا تھا۔ کسی زمانے میں وہ گاؤں کا سب سے نڈر اور جیالا جوان تھا۔ کماد اور مکئی کے کھیتوں میں نے اس کئی ہٹیلی مٹیاروں کو کلائی کے ایک ہی جھٹکے سے اپنی مرضی کا تابع بنایا۔ تھوک پھینکتا تھا تو پندرہ گز دور جا کے گرتی تھی۔ کیا رنگیلا سجیلا جوان تھا۔ لہریا پگڑی باندھ کر اور ہاتھ میں چھوی لے کر جب میلے ٹیلے کو نکلتا تو بڑے بوڑھے پکار اٹھتے۔

’’کسی کو سندر جاٹ دیکھنا ہے تو سردار نہال سنگھ کو دیکھ لے۔ ‘‘

سندر جاٹ تو ڈاکو تھا۔ بہت بڑا ڈاکو جس کے گانے ابھی تک لوگوں کی زبان پر تھے لیکن نہال سنگھ ڈاکو نہیں تھا۔ اس کی جوانی میں دراصل کرپان کی سی تیزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ ہرنام کور کا قصہ تو ابھی گاؤں میں مشہور تھا کہ اس بجلی نے کیسے ایک دفعہ سردار نہال سنگھ کو قریب قریب بھسم کر ڈالا تھا۔ نہال سنگھ نے ہرنام کور کے متعلق سوچا تو ایک لحظے کے لیے اس کی ادھیڑ ہڈیوں میں بیتی ہوئی جوانی کڑکڑا اٹھی۔ کیا پتلی چھمک جیسی نار تھی۔ چھوٹے چھوٹے لال ہونٹ جن کو وہ ہر وقت چوستی رہتی۔ ایک روز جب کہ بیریوں کے بیر پکے ہوئے تھے۔ سردار نہال سنگھ سے اس کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ زمین پر گرے ہوئے بیر چن رہی تھی اور اپنے چھوٹے چھوٹے لال ہونٹ چوس رہی تھی۔ نہال سنگھ نے آوازہ کسا۔ کیہڑے یار دا تتا ددھ پیتا۔ سڑگیاّں لال بُلّیاں؟ ہرنام کور نے پتھر اٹھایا اور تان کر اس کو مارا۔ نہال سنگھ نے چوٹ کی پروا نہ کی اور آگے بڑھ کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ لیکن وہ بجلی کی سی تیزی سے مچھی کی طرح تڑپ کر الگ ہو گئی اور یہ جا وہ جا۔ نہال سگھ کو جیسے کسی نے چاروں شانے چت گرادیا۔ شکست کا یہ احساس اور بھی زیادہ ہو گیا۔ جب یہ بات سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ نہال سنگھ خاموش رہا۔ اس نے دوستوں دشمنوں سب کی باتیں سنیں پر جواب نہ دیا۔ تیسرے روز دوسری بار اس کی مڈبھیڑ گوردوارہ صاحب سے کچھ دور بڑکی گھنی چھاؤں میں ہوئی۔ ہر نام کور اینٹ پر بیٹھی اپنی گرگابی کو کیلیں اندر ٹھونک رہی تھی۔ نہال سنگھ کو پاس دیکھ کر وہ بدکی۔ پر اب کے اس کوئی پیش نہ چلی۔ شام کو جب لوگوں نے نہال سنگھ کو بہت خوش خوش اونچے سروں میں۔ فی ہر نام کورے، اونارے۔ گاتے سنا تو ان کو معلوم ہو گیا۔ کون سا قلعہ سر ہوا ہے۔ لیکن دوسرے روز نہال سنگھ زنا بالجبر کے الزام میں گرفتار ہوا اور تھوڑی سی مقدمے بازی کے بعد اسے چھ سال کی سزا ہو گئی۔ چھ سال کے بجائے نہال سنگھ کو ساڑھے سات کی قید بھگتنی پڑی۔ کیونکہ جیل میں اسکا دو دفعہ جھگڑا ہو گیا تھا۔ لیکن نہال سنگھ کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ قید کاٹ کر جب گاؤں روانہ ہوا اور ریل کی پٹڑی طے کرکے مختلف پگڈنڈیوں سے ہوا ہوا گوردوارے کے پاس سے گزر کر بڑکے گھنے درخت کے قریب پہنچا تو اس نے کیا دیکھا کہ ہرنام کور کھڑی ہے۔ اور اپنے ہونٹ چوس رہی ہے۔ اس سے پیشتر کہ نہال سنگھ کچھ سوچنے یا کہنے پائے۔ وہ آگے بڑھی اور اس کی چوڑی چھاتی کے ساتھ چمٹ گئی۔ نہال سنگھ نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور گاؤں کے بجائے کسی دوسری طرف چل دیا۔ ہر نام کور نے پوچھا۔

’’کہاں جارہے ہو؟‘‘

نہال سنگھ نے نعرہ لگایا۔

’’جو بولے سو نہال ست سری اکال۔ ‘‘

دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ نہال سنگھ نے ہرنام کور سے شادی کرلی اور چالیس کوس کے فاصلے پر دوسرے گاؤں میں آباد ہو گیا۔ یہاں بڑی منتوں سے چھ برس کے بعد بہادر پیدا ہوا اور بیساکھی کے روز جب کہ وہ ابھی پورے ڈھائی مہینے کا بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر نام کور کے ماتا نکلی اور وہ مر گئی۔ نہال سنگھ نے بہادر کی پرورش اپنی بیوہ بہن کے سپرد کردی جس کی چار لڑکیاں تھیں چھوٹی چھوٹی۔ جب بہادر آٹھ برس کا ہوا تو نہال سنگھ اسے اپنے پاس لے آیا۔ چار برس ہو چلے تھے کہ بہادر اپنے باپ کی نگرانی میں تھا۔ شکل صورت میں وہ بالکل اپنی ماں جیسا تھا اسی طرح دبلا پتلا اور نازک۔ کبھی کبھی اپنے پتلے پتلے لال لال ہونٹ چوستا تو نہال سنگھ اپنی آنکھیں بند کرلیتا۔ نہال سنگھ کو بہادر سے بہت محبت تھی۔ چار برس اس نے بڑے چاؤ سے نہلایا دھلایا۔ ہر روز دہی سے خود اس کے کیس دھوتا۔ اسے کھلاتا۔ باہر سیر کے لیے لے جاتا۔ کہانیاں سناتا۔ ورزش کراتا مگربہادر کو ان چیزوں سے کوئی رغبت نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اداس رہتا۔ نہال سنگھ نے سوچا اتنی دیر اپنی پھوپھی کے پاس جو رہا ہے۔ اس لیے اداس ہے۔ چنانچہ پھر اس کو اپنی بہن کے پاس بھیج دیا اور خود فوج میں بھرتی ہو کر لام پر چلا گیا۔ چار برس اور گزر گئے۔ لڑائی بند ہوئی اور نہال سنگھ جب واپس آیا تو وہ پچاس برس کے بجائے ساٹھ باسٹھ برس کا لگتا تھا۔ اس لیے اس نے جاپانیوں کی قید میں ایسے دکھ جھیلے تھے کہ سن کر آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ اب بہادر کی عمر نہال سنگھ کے حساب کے مطابق سولہ کے لگ بھگ تھی مگر وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا چار برس پہلے تھا۔ دبلا پتلا۔ لیکن خوبصورت۔ نہال سنگھ نے سوچا کہ اس کی بہن نے بہادر کی پرورش دل سے نہیں کی۔ اپنی چار لڑکیوں کا دھیان رکھا جو بچھیریوں کی طرح ہر وقت آنگن میں کڈکڑے لگاتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جھگڑا ہوا اور وہ بہادر کو وہاں سے اپنے گاؤں لے گیا۔ لام پر جانے سے اس کے کھیت کھلیان اور گھر بار کا ستیاناس ہو گیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے نہال سنگھ نے ادھر دھیان دیا اور بہت ہی تھوڑے عرصہ میں سب ٹھیک ٹھاک کرلیا اس کے بعد اس نے بہادر کی طرف توجہ دی۔ اس کے لیے ایک بھوری بھینس خریدی۔ مگر نہال سنگھ کو اس بات کا دکھ ہی رہا کہ بہادر کو دودھ، دہی اور مکھن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جانے کیسی اوٹ پٹانگ چیزیں اسے بھاتی تھیں۔ کئی دفعہ نہال سنگھ کو غصہ آیا مگر وہ پی گیا۔ اس لیے کہ اسے اپنے لڑکے سے بے انتہا محبت تھی۔ حالانکہ بہادر کی پرورش زیادہ تر اس کی پھوپھی نے کی تھی مگر اس کی بگڑی ہوئی عادتیں دیکھ کر لوگ یہی کہتے تھے کہ نہال سنگھ کے لاڈ پیار نے اسے خراب کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح محنت مشقت نہیں کرتا۔ گو نہال سنگھ کی ہرگز خواہش نہیں تھی کہ اس کا لڑکا مزدوروں کی طرح کھیتوں میں کام کرے اور صبح سے لے کر دن ڈھلنے تک ہل چلائے۔ واہگوروجی کی کرپا سے اس کے پاس بہت کچھ تھا۔ زمینیں تھیں۔ جن سے کافی آمدن ہو جاتی تھی۔ سرکار سے جو اب پنشن مل رہی تھی۔ وہ الگ تھی۔ لیکن پھر بھی اس کی خواہش تھی۔ دلی خواہش تھی کہ بہادر کچھ کرے۔ کیا؟ یہ نہال سنگھ نہیں بتا سکتا تھا۔ چنانچہ کئی بار اس نے سوچا کہ وہ بہادر سے کیا چاہتا ہے۔ مگر ہر بار بجائے اس کے کہ اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ اس کی بیتی ہوئی جوانی کے دن ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگتے اور وہ بہادر کو بھول کر اس گزرے ہوئے زمانے کی یادوں میں کھو جاتا۔ لام سے آئے نہال سنگھ کو دو برس ہو چلے تھے۔ بہادر کی عمر اب اٹھارہ کے لگ بھگ تھی۔ اٹھارہ برس کا مطلب یہ ہے کہ بھرپور جوانی۔ نہال سنگھ جب یہ سوچتا تو جھنجھلا جاتا۔ چنانچہ ایسے وقتوں میں کئی دفعہ اس نے اپنا سر جھٹک کر بہادر کو ڈانٹا۔

’’نام تیرا میں نے بہادر رکھا ہے۔ کبھی بہادری تو دکھا۔ ‘‘

اور بہادر ہونٹ چوس کر مسکرا دیتا۔ نہال سنگھ نے ایک دفعہ سوچا کہ بہادر کی شادی کردے۔ چنانچہ اس نے اِدھر اُدھر کئی لڑکیاں دیکھیں۔ اپنے دوستوں سے بات چیت بھی کی۔ مگر جب اسے جوانی یاد آئی تو اس نے فیصلہ کرلیا کہ نہیں، بہادر میری طرح اپنی شادی آپ کرے گا۔ کب کرے گا۔ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ اس لیے کہ بہادر میں ابھی تک اس نے وہ چمک نہیں دیکھی تھی۔ جس سے وہ اندازہ لگاتا کہ اس کی جوانی کس مرحلے میں ہے۔ لیکن بہادر خوبصورت تھا۔ سندر جاٹ نہیں تھا۔ لیکن سندر ضرور تھا۔ بڑی بڑی کالی آنکھیں، پتلے پتلے لال ہونٹ، ستواں ناک، پتلی کمر۔ کالے بھونرا ایسے کیس مگر بال بہت ہی مہین۔ گاؤں کی جوان لڑکیاں دور سے اسے گھور گھور کے دیکھتیں۔ آپس میں کانا پھوسی کرتیں مگر وہ ان کی طرف دھیان نہ دیتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد نہال سنگھ اس نتیجے پر پہنچا۔ شاید بہادر کو یہ تمام لڑکیاں پسند نہیں اور یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے ہرنام کور کی تصویر آگئی۔ بہت دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اس کو ہٹا کر اس نے گاؤں کی لڑکیاں لیں۔ ایک ایک کرکے وہ ان تمام کو اپنی آنکھوں کے سامنے لایا مگر ہر نام کور کے مقابلے میں کوئی بھی پوری نہ اتری۔ نہال سنگھ کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔

’’بہادر میرا بیٹا ہے۔ ایسی ویسیوں کی طرف تو وہ آنکھ اٹھا بھی نہیں دیکھے گا۔ ‘‘

دن گزرتے گئے۔ بیریوں کے بیر کئی دفعہ پکے۔ مکئی کے بوٹے کھیتوں میں کئی دفعہ نہال سنگھ کے قد کے برابر جوان ہوئے۔ کئی ساون آئے مگر بہادر کی یاری کسی کے ساتھ نہ لگی اور نہال سنگھ کی الجھن پھر بڑھنے لگی۔ تھک ہار کر نہال سنگھ دل میں ایک آخری فیصلہ کرکے بہادر کی شادی کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ ایک گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ بھانت بھانت کی خبریں گاؤں میں دوڑنے لگیں۔ کوئی کہتا انگریز جارہا ہے۔ کوئی کہتا روسیوں کا راج آنے والا ہے۔ ایک خبر لاتا کانگرس جیت گئی ہے۔ دوسرا کہتا نہیں ریڈیو میں آیا ہے کہ ملک بٹ جائے گا۔ جتنے منہ، اتنی باتیں۔ نہال سنگھ کا تو دماغ چکرا گیا۔ اسے ان خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سچ پوچھئے تو اسے اس جنگ سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جس میں وہ پورے چار برس شامل رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آرام سے بہادر کی شادی ہو جائے اور گھرمیں اس کی بہو آجائے۔ لیکن ایک دم جانے کیا ہوا۔ خبر آئی کہ ملک بٹ گیا ہے۔ ہندو مسلمان الگ الگ ہو گئے ہیں بس پھر کیا تھا چاروں طرف بھگدڑ سی مچ گئی۔ چل چلاؤ شروع ہو گیا اور پھر سننے میں آیا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے جارہے ہیں۔ سینکڑوں لڑکیاں اغواء کی جارہی ہیں۔ لاکھوں کا مال لوٹا جارہا ہے۔ کچھ دن گزر گئے تو پکی سڑک پر قافلوں کا آنا جانا شروع ہوا۔ گاؤں والوں کو جب معلوم ہوا تو میلے کا سماں پیدا ہو گیا۔ لوگ سو سو، دو دو سو کی ٹولیاں بنا کر جاتے۔ جب لوٹتے تو ان کے ساتھ کئی چیزیں ہوتیں۔ گائے، بھینس، بکریاں، گھوڑے، ٹرنک، بستر اور جوان لڑکیاں۔ کئی دنوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ گاؤں کا ہر جوان کوئی نہ کوئی کارنامہ دکھا چکا تھا حتیٰ کہ کھیا کا ناٹا اور کبڑا لڑکا دریام سنگھ بھی۔ اس کی پیٹھ پر بڑا کوہان تھا۔ ٹانگیں ٹیڑھی تھیں، مگر یہ بھی چار روز ہوئے پکی سڑک پر سے گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کرکے ایک جوان لڑکی اٹھا لایا تھا۔ نہال سنگھ نے اس لڑکی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ خوبصورت تھی۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ لیکن نہال سنگھ نے سوچا کہ ہرنام کور جتنی خوبصورت نہیں ہے۔ گاؤں میں کئی دنوں سے خوب چہل پہل تھی۔ چاروں طرف جوان شراب کے نشے میں دھت بولیاں گاتے پھرتے تھے۔ کوئی لڑکی بھاگ نکلتی تو سب اس کے پیچھے شور مچاتے دوڑتے کبھی لوٹے ہوئے مال پر جھگڑا ہو جاتا تو نوبت مرنے مارنے پر آجاتی۔ چیخ و پکار تو ہرگھڑی سنائی دیتی تھی۔ غرضیکہ بڑا مزیدار ہنگامہ تھا۔ لیکن بہادر خاموش گھر میں بیٹھا رہتا۔ شروع شروع میں تو نہال سنگھ بہادر کی اس خاموشی کے متعلق بالکل غافل رہا۔ لیکن جب ہنگامہ اور زیادہ بڑھ گیا اور لوگوں نے مذاقیہ لہجے میں اس سے کہنا شروع کیا

’’کیوں سردار نہال سیاں، تیرے بہادر نے سنا ہے بڑی بہادریاں دکھائی ہیں؟‘‘

تو وہ پانی پانی ہو گیا۔ چوپال پر ایک شام کو یرقان کے مارے ہوئے حلوائی بشیشر نے دون کی پھینکی اور نہال سنگھ سے کہا۔

’’دو تو میرا گنڈا سنگھ لایا ہے۔ ایک میں لایا ہوں بند بوتل، اور یہ کہتے ہوئے بشیشر نے زبان سے پٹاخے کی آواز پیدا کی جیسے بوتل میں سے کاگ اڑتا ہے۔

’’نصیبوں والا ہی کھولتا ہے ایسی بند بوتلیں سردار نہال سیاں۔ ‘‘

نہال سنگھ کا جی جل گیا۔ کیا تھا بشیشر اور کیا تھا گنڈا سنگھ؟ ایک یرقان کا مارا ہوا، دوسرا تپ دق کا۔ مگر جب نہال سنگھ نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ کیونکہ جو کچھ بشیشر نے کہا حقیقت تھی۔ بشیشر اور اس کا لڑکا گنڈا سنگھ کیسے بھی تھے۔ مگر تین جوان لڑکیاں، ان کے گھر میں واقعی موجود تھیں اور چونکہ بشیشر کا گھر اس کے پڑوس میں تھا۔ اس لیے کئی دنوں سے نہال سنگھ ان تینوں لڑکیاں کے مسلسل رونے کی آواز سن رہا تھا۔ گوردوارے کے پاس ایک روز دو جواں باتیں کررہے تھے اور ہنس رہے تھے۔

’’نہال سنگھ کے بارے میں تو بڑی باتیں مشہور ہیں۔ ‘‘

’’ارے چھوڑ۔ بہادر تو چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھا ہے۔ ‘‘

نہال سنگھ سے اب نہ رہا گیا۔ گھر پہنچ کر اس نے بہادر کو بہت غیرت دلائی اور کہا۔

’’تو نے سنا لوگ کیا کہتے پھرتے ہیں۔ چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھا ہے تو۔ قسم واہگوروجی کی، تیری عمر کا تھا توسینکڑوں لڑکیاں میری ان ٹانگوں۔ ‘‘

نہال سنگھ ایک دم خاموش ہو گیا۔ کیونکہ شرم کے مارے بہادر کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔ باہر نکل کر وہ دیر تک سوچتا چلا گیا اور سوچتا سوچتا کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ اس کی ادھیڑ مگر تیز آنکھوں کے سامنے وہ کُھلا میدان تھا۔ جس پر برنٹوں سے لے کر کبڈی تک تمام کھیل کھیل چکا تھا۔ بہت دیر تک نہال سنگھ اس نتیجے پر پہنچا کہ بہادر شرمیلا ہے اور یہ شرمیلا پن اس میں غلط پرورش کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں اپنی بہن کو بہت گالیاں دیں اور فیصلہ کیا کہ بہادر کے شرمیلے پن کو کسی نہ کسی طرح توڑا جائے اور اس کے لیے نہال سنگھ کے ذہن میں ایک ہی ترکیب آئی۔ خبر آئی کہ رات کو کچی سڑک پر سے ایک قافلہ گزرنے والا ہے۔ اندھیری رات تھی۔ جب گاؤں سے ایک ٹولی اس قافلے پر حملہ کرنے کیلیے نکلی تو نہال سنگھ بھی ٹھا ٹھا باندھ کر ان کے ساتھ ہولیا۔ حملہ ہوا۔ قافلے والے نہتے تھے۔ پھر بھی تھوڑی سی جھپٹ ہوئی۔ لیکن فوراً ہی قافلے والے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ حملہ کرنیوالی ٹولی نے اس افراتفری سے فائدہ اٹھایا اور لوٹ مار شروع کردی۔ لیکن نہال سنگھ کو مال و دولت کی خواہش نہیں تھی۔ وہ کسی اور ہی چیز کی تاک میں تھا۔ سخت اندھیرا تھا گو گاؤں والوں نے مشعلیں روشن کی تھیں مگر بھاگ دوڑ اور لوٹ کھسوٹ میں بہت سی بجھ گئی تھیں۔ نہال سنگھ نے اندھیرے میں کئی عورتوں کے سائے دوڑتے دیکھے مگر فیصلہ نہ کرسکا کہ ان میں سے کس پر ہاتھ ڈالے۔ جب کافی دیر ہو گئی اور لوگوں کی چیخ و پکار مدھم پڑنے لگی تو نہال سنگھ نے بے چینی کے عالم میں ادھر ادھر دوڑنا شروع کیا۔ ایک دم تیزی سے ایک سایہ بغل میں گٹھڑی دبائے اس کے سامنے سے گزرا۔ نہال سنگھ نے اس کا تعاقب کیا۔ جب پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی ہے اور جوان۔ نہال سنگھ نے فوراً اپنے گاڑھے کی چادر نکالی اور اس پر جال کی طرح پھینکی۔ وہ پھنس گئی۔ نہال سنگھ نے اسے کاندھوں پر اٹھا لیا اور ایک ایسے راستے سے گھر کا رخ کیا کہ اسے کوئی دیکھ نہ لے۔ مگر گھر پہنچاتو بتی گُل تھی۔ بہادر اندر کوٹھری میں سو رہا تھا۔ نہال سنگھ نے اسے جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ کواڑ کھولا۔ چادر میں سے لڑکی نکال کر اندر دھکیل، باہر سے کنڈی چڑھا دی۔ پھر زور زور سے کواڑ پیٹے۔ تاکہ بہادر جاگ پڑے۔ جب نہال سنگھ نے مکان کے باہر کھٹیا بچھائی۔ اور بہادر اور اس لڑکی کی مڈبھیڑ کی کپکپاہٹ پیدا کرنے والی باتیں سوچنے کیلیے لیٹنے لگا تو اس نے دیکھا کہ بہادر کی کوٹھڑی کے روشن دانوں میں دیے کی روشنی ٹمٹما رہی ہے۔ نہال سنگھ اچھل پڑا۔ اور ایک لحظے کیلیے محسوس کیا کہ وہ جوان ہے۔ کماد کے کھیتوں میں مٹیاروں کو کلائی سے پکڑنے والا نوجوان۔ ساری رات نہال سنگھ جاگتا رہا اور طرح طرح کی باتیں سوچتا رہا۔ صبح جب مُرغ بولنے لگے تو وہ اٹھ کر کوٹھڑی میں جانے لگا۔ مگر ڈیوڑھی سے لوٹ آیا۔ اس نے سوچا کہ دونوں تھک کر سو چکے ہوں گے اور ہوسکتا ہے۔ نہال سنگھ کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ گئی اور وہ کھاٹ پر بیٹھ کر مونچھوں کے بال منہ میں ڈال کر چوسنے اور مسکرانے لگا۔ جب دن چڑھ گیا اور دھوپ نکل آئی تو اس نے اندرجا کر کنڈی کھولی۔ سٹرپٹر کی آوازیں سی آئیں۔ کواڑ کھولے تو اس نے دیکھا کہ لڑکی چارپائی پر کیسری دوپٹہ اوڑھے بیٹھی ہے۔ پیٹھ اس کی طرف تھی۔ جس پر یہ موٹی کالی چٹیا سانپ کی طرح لٹک رہی تھی۔ جب نہال سنگھ نے کوٹھڑی کے اندر قدم رکھا تو لڑکی نے پاؤں اوپر اٹھا لیے اور سمٹ کربیٹھ گئی۔ طاق میں دیا ابھی تک جل رہا تھا۔ نہال سنگھ نے پھونک مار کر اسے بجھایا اور دفعتہً اسے بہادر کا خیال آیا۔ بہادر کہاں ہے؟۔ اس نے کوٹھڑی میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ دوقدم آگے بڑھ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔

’’بہادر کہاں ہے؟‘‘

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ ایک دم سٹرپٹرسی ہوئی اور چارپائی کے نیچے سے ایک اور لڑکی نکلی۔ نہال سنگھ ہکّا بکّا رہ گیا۔ لیکن اس نے دیکھا۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں نے دیکھا کہ جو لڑکی چارپائی سے نکل کربجلی کی سی تیزی کے ساتھ باہر دوڑ گئی تھی۔ اس کے داڑھی تھی، منڈی ہوئی داڑھی۔ نہال سنگھ چارپائی کی طرف بڑھا لڑکی جو کہ اس پر بیٹھی تھی اور زیادہ سمٹ گئی مگر نہال سنگھ نے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اس کا منہ اپنی طرف کیا۔ ایک چیخ نہال سنگھ کے حلق سے نکلی اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

’’ہرنام کور‘‘

زنانہ لباس، سیدھی مانگ، کالی چٹیا۔ اور بہادر ہونٹ بھی چوس رہا تھا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از سعادت حسن منٹو