‘‘اپنے موتی سؤروں کے آگے مت ڈالو۔ ورنہ ان کو سونگھ کر چھوڑدیں گے اور پلٹ کر تم کو پھاڑ ڈالیں گے۔’’
بائبل کا صحفہ اس نے تیزی سے پلٹا۔ اس کا دل کسی طرح قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ پاسپورٹ کی تفصیل کا کاغذ صفحے میں دب گیا تھا، اس نے نکالا۔ سیاہ لفظوں میں صاف صاف لکھا تھا۔
نام جیسمین بلموٹ ، عمر ۳۲ سال ، رنگت گہر ی سانولی، بال کالے، قد پانچ فٹ چار انچ، پہچان داہنے رخسار پر سیاہ تل ، پتہ ــــــــــــــــــــــــ ۔
جیسمین بلموٹ کے سفری تھیلے میں بائبل کا ‘نیا ٹسٹامنٹ’ ہمیشہ رہتا تھا۔ ان کے پاپا کا کہنا تھا کہ دعائیں تمام بلاوٗں سے محفوظ رکھتی ہیں لیکن آج کوئی دعا کام نہیں آئی تھی۔ رب اعلیٰ، خدا باپ نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ گھر سے نکلتے وقت پاپا ہمیشہ یہی دعا دیتے؛ “خدا باپ اِس بے ماں کی بچّی کی مدد کرنا۔” وہ بےساختہ ہنس پڑتی۔
” پاپا تمہاری خونخوار لڑکی کی طرف کوئی بلا آتے ہوئے بھی ڈرتی ہے۔”
پاپا کی آنکھیں ساتویں آسمان پر خدا کو ڈھونڈے لگتیں اور وہ زمین کے شیطانوں کو تلاش کرنے نکل پڑتی۔
پولیس کی نوکری ہی ایسی ہوتی ہے۔ اچھے اچھوں کو سخت جان بنا دیتی ہے۔ رات میں اس نے کئی بار اٹھ کر سوٹ کیس سے اپنی پستول نکالی، دیکھا پھر رکھ دیا۔ ہاتھ میں لیا۔ گولیاں گنیں اپنی کنپٹی تک پستول لے گئی۔ سوکھا چمرخ تاڑ کے پیڑ سا لمبا، اس کا چہرہ مخصوص قہقہ لگا تا ہوا نظر آیا۔ جی چاہا تڑ سے گولی چلا دے اپنی کنپٹی پر۔ وہیل چیئر دھکیل کر پاپا سامنے آ کھڑے ہوئے۔ بوڑھے پاپا، جن کو وہ دل و جان سے چاہتی تھی۔ اکلوتا سہارا تھی ان کا۔ پاپا بھی پولیس کی نوکری میں تھے۔ ایک فرقہ وارنہ فساد میں اپنی دونوں ٹانگیں جوان بیوی اور بھائی کو گنوا چکے تھے۔ اس کے باوجود بے حد خوش مزاج، ہمت والے، مضبو ط، زندہ دل، ہنس مکھ تھے۔ کبھی زندگی سے مایوس نہیں ہوئے۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد اتنی جلدی زندگی سے ناامید ہوگئی؟ ڈر گئی؟ ” نہیں! نہیں میں کیوں خود کشی کروں۔ میں نے کیا گناہ کیا ہے۔ اس گویّے کو کیوں نہ مار دوں۔ تان سین کی اولاد کو۔” اس نے سوچا اور پستول پھر سوٹ کیس میں رکھ دیا۔
پاپا اس کی شکل دیکھ کر جیتے تھے۔ اس کی لاش دیکھ کر پاپا جیتے جی مر نہ جائیں۔ نہیں پاپا نہیں مر سکتے۔ پاپا کی موت کے بارے میں وہ سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔ جو انسان روز ہی چور سپاہی اور موت کا تماشا دیکھتا ہے وہ اپنوں کی موت کہاں برداشت کر پاتا ہے۔ کتنا کمزور ہو جاتا ہیدل۔ آہ۔ آج وہ ایسی پہلی رات تھی کہ جب وہ دورے پر تھی اور اس نے پاپا کو فون نہیں کیا تھا۔ ایک نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی وہ۔ وہ کب ہوش میں آتی تھی اور کب بے ہوش ہو جاتی تھی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اس کو۔ نفرت اور تھکن ایک دوسرے پر حاوی ہوتی جا رہی تھیں۔ گیسٹ ہاؤس کے گیزر کا سوئچ آن، آف ہو تا رہا ، ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی رہی اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے نہایت بے رحمی اور جنگلی پن سے اس کے ہونٹ چبا ڈالے تھے۔ اس کے ہونٹ غیر قدرتی طور پر وزنی ہو گئے تھے۔ ان پر ننھی ننھی ریخیں پڑ گئیں تھیں۔ خون چھلک آیا تھا۔ دھلے بھیگے بال نوچ ڈالے تھے۔ کلائیوں اور بازوؤں پر ان گنت سرخ خراشیں پڑ گئیں تھیں۔ جگہ جگہ پر اودے اور نیلے دھبے پڑ گئے تھے۔
اس نے کسمسا کر اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی ۔ اس کی گرفت اور سخت ہو گئی ہاتھ اس کے فولاد کی طرح بے رحم تھے۔ ایک ہاتھ اس نے منہ پر رکھ دیا۔ وہ چیخی لیکن اس نے اتنے زور سے ڈانٹا کہ اس کی سسکی حلق میں اتر گئی۔ پوری طاقت سے دور کرنا چاہا، اس نے تھپڑوں سے مارنا شروع کر دیا۔ طمانچہ اتنا غیر متوقع تھا کہ ششدررہ گئی۔ اس کو بچپن سے لے کر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں لگایا تھا، گرم نگاہ تک سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ تتلی کے کیڑے کی طرح نرم روئی کے پھاہوں میں رکھ کر پالی گئی تھی۔
اس نے کبھی کسی سے ہاتھ تک نہیں ملایا تھا۔ وہ انسانی لمس سے غیر آشنا تھی۔ ہمیشہ سلام کا جواب دور سے ہی دیتی۔ کرسمس میں عورتوں تک کے گلے نہیں ملتی تھی۔ اسے سخت الجھن ہوتی تھی ان چیزوں سے۔ ایک خاص دوری بنا کر رکھنے کی اس کی عادت تھی۔ کوئی پاس آنے کی جرأت بھی نہ کرتا۔ جن لوگوں نے کوشش کی بھی ان سے وہ اتنی بری طرح پیش آئی کہ آئندہ کسی کی ہمت ہی نہیں ہوئی آگے بڑھنے کی۔ کتنے مزے سے وہ اپنے خول میں آرام سے بیٹھی تھیں۔ کس قدر محفوظ تھیں اپنے قلعہ کے اندر بی بی جیسمین۔
ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کو کوئی چھو بھی سکتا ہے۔ گاڈ گریس (God Grace) وہ کانپ اٹھیں۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی کبھی کوئی نازک جذبہ نہیں ابھرا اور ابھرا بھی تو انہوں نے اس کو سختی سے کچل دیا۔ وہ کمزور جذبات کی قائل ہی نہیں تھیں۔ مسلسل جدوجہد نے ان کو خشک مزاج بنا دیا تھا۔ وہ ایک لمحے کو بھی چاچا اور ممّا کی موت کو نہیں بھولی تھیں اور نہ ہی بھولنا چاہتی تھیں۔ اکثر وہ لاشعوری طور پر بے رحم ہو جاتیں۔
اگلی صبح جب وہ جی بھر کر رو دھو کر باتھ روم سے نکلیں تو سامنے میز پر چائے کی ٹرے صبح کے تازہ اخبار کے ساتھ رکھی تھی۔ تمام رات کی بیداری اور شدید تھکان کے بعد ان کی خواہش چائے پینے کی ہوئی۔ مجبوراً چائے بنانے کے لیے ٹی کوزی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ گویّے نے ہاتھ بڑھا کر ہلکے سے چھو لیا۔ اس نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔ غصے کے مارے اس کاچہرہ تمتما اٹھا۔ چائے بُن کر پیالی اس تک آ گئی وہ نظریں نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ اس نے اخبار اٹھا کر اس کی گود میں رکھ دیا اور خود اٹھ کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر سگریٹ پینے لگا۔
اس نے اپنی انگلیوں کو سونگھا۔ تیز بو سگریٹ کی آ رہی تھی۔ سگریٹ سے اسے شدید نفرت تھی۔ امپور ٹیڈ خوشبودار صابن سے گھنٹوں ہاتھ دھوتی رہی مگر گلابی تولیہ سے پونچھ کر سونگھا تو لگ رہا تھا پانچوں انگلیاں جلتی ہوئی سگریٹ بن گئی ہیں۔
وہ سر پکڑ کر باتھ روم میں ہی بیٹھ گئی۔ باہر سے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ خواہ مخواہ اس نے واش بیسن کا نل کھول دیا۔ دیر تک پانی کی آواز جاتی رہی۔ تھوڑی دیر میں پھر دروازے پر دستک ۔ مجبوراً اس کو باہر آنا پڑا۔
“آپ کو میٹنگ میں پریس کلب جانا ہے۔” وہ پیٹھ موڑے کھڑا تھا۔ نیلی سفید دھاریوں والی قمیص چمک رہی تھی۔ اس کا سانولا رنگ تانبے کی رنگت کا ہو رہا تھا۔ اس نے جھٹکے سے ہنڈ بیگ اٹھایا اور وہ کمرے کے باہر آ گئی۔ اس کی سوجی آنکھیں ڈائیور نے حیرت سے دیکھں۔ “سخت مزاج میڈم آج۔” اس نے بیگ کھول کر سیاہ چشمہ چڑھا لیا۔ ڈرائیور کو راستہ بتانا تھا وہ ڈر رہی تھی کہیں اس کی آواز نہ کانپ جائے۔ وہ مشکل سمجھ گیا۔ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس نے راستہ بتانا شروع کیا۔ وہی پر اسرار آواز۔ یہی آواز تو اس کی کمزوری تھی۔ ریڈیو اسٹیشن پر اس کی آواز ہی سن کر تو ٹھہر گئی تھی۔ عشق تھا اس کو خوبصورت آوازوں سے۔ شائستہ لہجہ۔ جبکہ وہ خود جنگلی زبان بولتی تھی۔ رہتی بھی تو جنگلی زبان والوں کےساتھ تھی۔
اب یاد آ رہا ہے کہ غزل سنانے کے لیے ہی تو پہلی بار اس کو بلایا تھا۔ پولیس ویک پارٹی میں وہی اس کو لائی تھی۔ ڈنر کے بعد کافی پینے کمرے میں بلایا تھا۔ اقبال اسے بے حد پسند تھے۔ اردو زبان پر بھی وہ اتنی ہی قادر تھی جتنا کہ کوئی اپنی مادری زبان پر ہو سکتا ہے۔ “مسجد قرطبہ” کی فرمائش تھی۔
“سٹری پسند ہے آپ کی ، میں غالب کی غزل سناؤں گا۔”
“جی نہیں۔ غزل آپ میری پسند کی گائیں گے۔” اس کا انداز تحکمانہ ہو گیا ۔ نہیں سننے کی اس کی عادت ہی نہیں تھی۔ اپنی پوسٹ اور علم کا اس کو بے حد غرور تھا۔ اقتدار کا نشہ اس قدر طاری تھا کہ زندگی کے باقی پہلو دیکھنے کا موقع ہی نہیں تھا۔
بڑی دل آویز۔ نفیس اور پر سکون سی دھن گونجنے لگی۔ اس نے دھیرے سے آنکھوں کو بند کر لیا (یہی وہ منحوس لمحہ تھا) کمرے میں آواز جادو بن کر چھا چکی تھی۔
دبیز پردے شیشے کی لمبی کھڑکیوں کو ڈھکے ہوئے تھے۔ وہ کب اٹھا۔ اس پر جھکا اس کو ہوش آیا تو وہ مزے سے سگریٹ پی رہا تھا۔ اور اس کو گھور رہا تھا۔ ایک دم وحشی آنکھیں۔ جانور کا شکار کرنے کے لیے جو سرچ لائٹ پھینکی جاتی ہے ویسی ہی سرخی مائل چھوٹی، چھوٹی تیز آنکھیں۔ اس کے اندر کی تمام قوت اچانک ختم ہو گئی۔ وہ اٹھنے میں لڑ کھڑا گئی ننس(Nuns) سے وہ بے حد متاثر تھی۔ کرسچن کالج کا اس پر خاصہ اثر تھا۔ ورجن۔ ورجنیٹی۔ مریم کی طرح پاک۔ ان تمام لفظوں پر اب پانی پھر چکا تھا۔
مرد ۔ کمبخت مرد۔ ذلیل و خوار ۔ وہ مردوں میں صرف اپنے پاپا کو چاہتی تھی باقی تمام مرد بے مروت اور قابل نفرت جھوٹے و مکار لگتے۔ عورتوں کو جلانے اور ستانے والے۔
اس کے پاس عورتیں آتی تھیں۔ ناک بہاتے بچے سینے سے چپکائے۔ روتی کلپتی۔ پھولے ہوئے پیٹ لیے۔ اپنے پتی دیو کے لیے چھما یا چنا مانگتی جو قتل یا ریپ کے الزام میں جیل میں حرام کی روٹیاں توڑ رہے ہوتے اور اگلے جرم کے خواب دیکھ رہے ہوتے۔
بعض وقت وہ سوچتی، خدا نے عورتوں کو اتنے آنسو کیوں دے دیے؟ ہر وقت برسات۔ وہ خوش ہوتی ہیں تو آنسو آ جاتے ہیں، دکھ میں بھی سکھ میں بھی ۔ یہی ان کا سرمایہ ہے کیا؟ لیکن آج وہ اسی برسات میں خود ڈوب رہی تھی، ابھر رہی تھی۔
ڈسپرین کی دو گولیاں اس نے گلاس میں ڈالیں۔ دھیرے دھیرے وہ گھلنے لگیں۔ پانی میں سفید بادل اٹھنے لگے۔ گرم ٹوسٹ پہ لگا نمکین مکھن اس کے زخمی ہونٹوں پہ جلنے لگا۔ اس کے منہ سے بے اختیار سی نکل گئی۔ جھنجھلاہٹ میں کنپٹی کو دبایا۔
گویّے کا سخت ہاتھ اس کی کنپٹی کے قریب آ گیا۔ اس نے ہٹانا چاہا۔ انگلیاں مضبوطی سے جم گئیں۔ وہ نڈھال کرسی پر پڑی رہی۔ وہ اس کا سر وہ سہلاتا رہا۔ خواب آور غنودگی اس پر غالب آ گئی۔ نرمی سے اس کے گرم ہونٹوں نے پیشانی چوم لی۔ آنکھ کھلی۔ پورے کمرے میں اس کی تیز مہک تھی۔ وہ کمرے سے جا چکا تھا۔ تھوڑی دیر وہ ساکت و جامد کھڑی رہی ۔ یک لخت اسے لگا وہ اسے شدت سے چاہنے لگی ہے (لغو۔)
اگلے دن اتوار تھا۔ اس نے سوچا وہ چرچ جا سکتی ہے ۔ (کنفیشن کے لیے۔؟)
مومی شمع روشن کرتے وقت اس نے چپکے سے ماں مریم سےمعافی مانگ لی، (میرےاس اکلوتے گناہ کو بخش دینا ماں میری )۔ اس کی اکلوتی پھوپھی ہر سال امریکہ سے آتیں تو نصیحتوں کا ٹوکرا بھی ساتھ لاتیں۔ ٹوتھ برش کتنی بار کرنا چاہئے سے لے کر کیا رنگ پہننا چاہئے فیصلہ ان کا ہی رہتا۔ کتنا آسان رہتا ہے دوسرا فیصلہ لیتا رہے اور آپ اس ر اہ پر آرام سے چلتے رہیے۔ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کریے۔ پاپا اور پھوپھی نے اس کو ذہنی طور پر بالغ نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ بچوں کی طرح سلوک کیا۔ اور اس کو اس کی عادت پڑ گئی۔
اس کے وجود میں سنسکار کی کیلیں اتنے تک ٹھوک دی گئیں کہ وہ چاہ کر بھی کسی کو چاہ نہیں سکتی تھی۔
گھر واپس آ کر وہ بستر پر چپ چاپ پڑی رہی۔ پاپا پریشان تھے۔ اس بار ٹور سے واپس آ کر ہر بار کی طرح وہ کوئی قصہ نہیں سنا رہی۔ کتنے گہنگاروں کو پکڑا۔ کیسے پکڑا اور بہادری کےنئے کارنامے کیا انجام دیے۔ کچھ نہیں بتا رہی تھی۔ اس طرح تو کبھی نہیں ہوا آج تک۔
وہ لیٹے لیٹے سوچتی رہی کہ کیا واقعی حوّا نے آدم کو گیہوں یا سیب کھلانے کے لیے ورغلایا تھا۔ بھلا حوّا کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی ہو گئی؟ یقیناً آدم نے حوا کو کھلایا ہو گا۔ اکثر روایات غلط بھی ثابت ہو جاتی ہیں۔
اس کے لمس کا جادو اس پر چھا گیا تھا اور پھن کاڑھے جنگلی خواہشات کا ریلا بہا لے جانے کو اتارو تھا اس کے تمام ہتھیار کند ہو چکے تھے۔
اچانک ایک قد آور عورت ان کے تہ خانے سے نکل کر لڑنے لگی۔ وہ حیران رہ گئی۔
“کون ہو تم؟”
وہ سر اٹھائے ڈھیٹ کی طرح اکڑی کھڑی رہی۔ “تمہارے اندر کی عورت۔” سخت لہجہ تھا اس کا۔
” جھوٹ ہے یہ ، میرے اندر کوئی عورت نہیں ہے۔ میں۔ میں ۔ خود بڑا صاحب ہوں۔ جانتی نہیں مجھے تم ۔ پچاس لوگ مجھے سلام کرتے ہیں۔ میں کمزور بزدل عورت نہیں ہوں۔”
وہ ہنسی۔ ایک خوفناک ہنسی جیسے حقیقت ہنسی۔ سچ ہنسا۔
” مت مانو۔ مت مانو۔ لیکن! ایک دن تمہارے شرم و حیا کے یہ پتھر جو تم نے مار مار کر مجھے لہو لہان کر دیا ہے۔ تم پر ہی بھاری پڑجا ئیں گے۔”
نفرت اور غصے میں وہ کانپ اٹھی۔
“چل نکل ۔چل ۔ نکل۔ بھاگ۔ بھاگ۔” عورت زور سے قہقہہ مار کر ہنسی اور تہہ خانوں کے اندھیروں میں جا کر چھپ گئی۔
رات کو پاپا کے لیے کافی بنا کر وہ ان کے کمرے میں لے گئی۔ خود کرسی پر بیٹھ کر انڈیا ٹوڈے پڑھنے لگی۔ پاپا نے کپ اٹھایا۔ سِپ کیا پھر اس کو حیرت سے دیکھا، کتاب کا ایک ورق بھی اتنی دیر میں نہیں پلٹا گیا تھا۔
“بیٹے!”
‘‘پس پاپا’’ اس نے آواز کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔
‘‘نمکین کافی بنائی ہے؟’’
” او ــــ آئی ایم ساری پاپا ــــــ غلطی سے شکر کی جگہ نمک ـــــــــ”
کوئی بات نہیں ـــــــــ ویسے بیٹا ہری نے ہر ڈبّہ پر لیبل لگا دیا ہے شکرــــ نمک۔ ”
” لائیے دوسری بنا دیتی ہوں ۔ ” وہ جلدی سے اٹھی۔
” ریلیکس (Relax) بیٹے” انہوں نے وہیل چپر پاس کرلی اس کے۔ غور سے اس کا ستا بجھا چہرہ دیکھا۔ وہ سہم گئےـ
“میری بچی” بے اختیار ہو کر انہوں نے اس کو اپنے قریب کر لیا۔
“پاپا” اس نے تھکا ہوا سر ان کے سینے پر ٹکا دیا ـــــــ اس کا دل جو صدمے اور مصائب سہتے سہتے سخت ہو چکا تھا یکایک موم سا پگھل گیا۔
تمام رات اس کو تیز بخار رہا۔ سرسام کی سی کیفیت ، مرد بھی اتنا خوبصورت ہوتا ہے یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ اس کو تو معلوم تھا کہ عورت کا جسم حسین ہوتا ہے۔ اس کی نمائش کی جاتی ہے لیکن اس کا جسم چاقو کے تیز پھل کی طرح لمبا اور دھار دار تھا ـــــــــ رقاص کی طرح ــــــــــ سڈول گٹھا ہوا ـــــــــ سخت ـــــــــ نرم ــــــــــ مضبوط ـــــــــ او خدا وہ لہرا یااور لگا کہ فضا کا بگل بج اٹھاــــــــــ مور کا رقص شروع ہو گیاــــــــــ اس کے پیر مور کی طرح بدصورت تھے، لیکن باقی حصہ ـــــــــ وہ مور میں تبدیل ہونے لگاــــــــــ دھیرےـــــــــ دھیرے اپنے ست رنگے قوس قزح کے رنگوں میں رنگے پروں کو پھیلا نے لگاــــــــــ مورناچ اٹھاــــــــــ چاروں دشائیں ناچ اٹھیں ــــــــــ رقص تیز ہونے لگاــــــــــ اور تیزــــــــــاور تیز ۔۔۔اور تیز ــــــــــ تانڈو نرت شروع ــــــــــ ارے یہ تو شنکر بھگوان سا کچھاٹ کھڑے ہیں۔ نٹ راج کی مورتی سول لائنز الہٰ آباد کے کسی شور وم میں دیکھی تھی آج وہ سامنے کھڑی ہے۔
اُڑیسہ کے لنگ راج مندر میں شیو لنگ کو دودھ سے نہلایا جا رہا ہے ــــــــــ گپھا میں اندھیرا ہےــــــــــ پیروں کے نیچے دودھ آرہا ہے ــــــــــ پیر آگے نہیں بڑھ پار ہے ہیں ـــــــــ دودھ کی ایک ندی ہے ــــــــــ شہد کی دوسری ندی ہے ــــــــــ پیر چپک رہے ہیں ــــــــــ
ماں کےقدموں تلے جنت ہے جنت میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہیں ــــــــــ کیا جنت میں داخلہ مل گیا ہےــــــــــ؟
آدم حوّا سے کہہ رہے ہیں ــــــــــ لو یہ سیب کھا لو ــــــــــ یہ مزیدارہے خوشبودار ہے رس بھرا ہے ــــــــــلوــــــــــ لوــــــــــلو چکھوــــــــــ نہیں ــــــــــ نہیں ــــــــــ نہیں ــــــــــ ماں مریم مجھے بچا لوــــــــــ سانس رکی جا رہی ہےــــــــــ بڑی گھٹن ہےــــــــــ فضا میں سگریٹ کا دھواں ہےــــــــــ لو سیب کھا لوــــــــــ سیب شہد اور دودھ کی تیز خوشبو ہےــــــــــ سرخ چرچ کی بلڈنگ میں گھنٹیاں بجتی چلی جا رہی ہیں ــــــــــ سر پھٹا جا رہا ہے ــــــــــ منہ میں شہد بھرا ہوا ہےــــــــــ پنچ مڑی کے جنگلوں میں ایک آدمی واسی عورت نے درخت سے چھتّا توڑ کر تازہ تازہ شہد کھلایا تھاــــــــــ وہی مزاــــــــــ وہی خوشبو آج بھی ــــــــــ وہ گھبرا کر اٹھ گئی ــــــــــ صبح کی کرنیں کمرے میں آچکی تھیں ــــــــــ منہ میں شہد بھرا تھا۔ اس نے چائے نہیں پی۔
پالیکا بازار سے گزرتے ہوئے پاپا کے لیے چاکلیٹی اور گرے دو گرم قمیضیں خریدی تھیں۔ اس نے گلابی شیفان کی ساڑی لی تھی شاید اپنی بیوی کے لیے۔ وہ ساڑی نہیں پہنتی تھی۔ رات کو سوٹ کیس کھول کر اس نے پاپا کی قمیضیں نکالیں نیچے کی تہہ میں گلابی ساڑی جھانکی۔ اس نے ساڑی اٹھا کر پلنگ کے نیچے پھینک دی۔
” تمہارا ریڈیو کانٹر یکٹ لیٹر آیا ہے۔” پا پا کمرے کے دروازے تک آ گئے ۔ اگلے دن اس کی ریڈیو ٹاک تھی۔ نہا کر نکلی تو سوٹ نکالتے نکالتے الماری میں اس کو گلابی ساڑی نظر آ گئی نوکرانی نے غلطی سے ٹانگ دی تھی شاید۔
بال سلجھاتے ہوئے اس نے عرصے کے بعد اپنا چہرہ آئینے میں غور سے دیکھا۔ کم از کم ایک لپ اسٹک اور کولڈ کریم خرید لینا چاہئے۔
واقعی محبت عورت میں بازارو پن پیدا کر دیتی ہے۔ اس نے چِڑ کر کنگھے سے الجھے بالوں کو بری طرح نوچ ڈالا۔
باہر نکلی تو وہ گلابی ساڑی پہنے تھی۔ پاپا لان سے مسکرائے۔ اس نے ہاتھ ہلایا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس کو اچھی طرح معلوم تھا ریڈیو اسٹیشن کے ــــــــــ میوزک سکشن میں وہ بیٹھا ایجر حسینہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے راگ باگیشوری کے نشیب و فراز بتا رہا ہو گا۔
ریڈیو اسٹیشن کی شکستہ چہار دیواری کے جنگلے کے اوپر لگے ہوئے نوکیلے آہنی خاروں کے درمیان ڈیزی کے سفید نازک پھول لہلہا رہے تھے۔
بیگم اختر کا ریکاڈ بجے چلا جا رہا تھاــــــــــ “عشق میں رہبر و رہزن نہیں دیکھے جاتےــــــــــ عشق میں ــــــــــ”
غزال ضیغم، لکھنوٗ ، انڈیا