غزال ضیغم بھارت کے صوبہ اتر پردیش کے ضلع سلطان پور کے گاؤں باہر پور میں 17 دسمبر کو پیدا ہوئیں الہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے علم نباتات میں ایم ایس سی کیا ۔ قانون کی ڈگری لی اور اردو زبان و ادب میں ایم اے کے ساتھ ہی انہوں نے فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ پونا سے Film Appreciation کورس مکمل کیا ۔ ہندی رسالہ منورما (الہ آباد) کی سب ایڈیٹر اور آل انڈیا ریڈیو میں اناؤنسر رہیں ۔ افسانے اور ڈرامے لکھنا ، انہیں سٹیج کرنا اور آبی رنگوں سے تصویریں بنانا ، یہ وہ مشاغل تھے جن سے انہوں نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز کیا ۔ غزال اس وقت محکمہ اطلاعات اور رابطہ عامہ اتر بردیش لکھنئو میں ڈپٹی ڈائیریکٹر ہیں ۔ انہوں نے کئی ڈاکیومینٹری فلمیں بھی بنائی ہیں ۔
غزال نے بچپن سے گھر میں ادبی ماحول دیکھا تھا، یہ اسی ادبی ماحول کا اثر تھا کہ انہوں نے دس سال کی عمر میں پہلا افسانہ “تیمور لنگ” لکھ ڈالا جو نہ صرف یہ کہ ان کے سکول کے میگزین میں شائیع ہوا بلکہ ریڈیو سے بھی نشر ہوا ۔ غزال کے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات ، اخلاقی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کے حقیقی رنگ بکھرے نظر آتے ہیں ، وہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مشاہدہ کرتی ہیں اور بےباکی کے ساتھ اسے قلم بند کر دیتی ہیں ۔
ما بعد جدید عہد میں اردو تانیثی منظر نامے پر جن افسانہ نگاروں کو سنجیدگی سے پڑھا جا رہا ہے ان میں غزال ضیغم کی خاص اہمیت ہے ، ان کی نثر میں شاعری کا سا رنگ ایسے گھل مل جاتا ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے دونوں اقسام کے زوق کی تسکین ہوتی ہے۔ اپنی نثر میں وہ استعاروں اور کنایوں کا بہت خوبصورتی سے استعمال کرتی ہیں ۔وہ رنگوں کا گہرا شعور رکھتی ہیں جو کم کم افسانہ نگاروں کے حصے میں آتا ہے ۔ جاگیردارانہ تہذیب کے ڈھلتے سورج کی بات ہو یا ماورائے فطرت کرداروں کی کہانی ، غزال کے قلم کی روانی انہیں ہر تحریر میں سرخرو کرتی نظر آتی ہے ،وہ ایک جانب تو مابعد جدید عہد اور مابعد مابعد جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں تو دوسری جانب ان کا پلو افسانوی روایات نے بھی ایسے تھام رکھا ہے کہ ان کے افسانوں میں بیانیہ کی قدیم روایت حقیقت پسندی اور دیہی زندگی کے نشیب و فراز اپنے تمام تر خوبصورت رنگوں کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتے ہیں ، قدیم و جدید کا یہ حسین امتزاج ہی ان کی الگ پہچان بن جاتا ہے ۔
غزال کا پہلا افسانوی مجموعہ “”ایک ٹکڑا دھوپ کا ” سال 2002 میں شایع ہوا ۔ امرتا پریتم کی کتاب “”ایک تھی سارا”” کا انہوں نے اردو میں ترجمہ کیا ۔اردو کے علاوہ ہندی، انگریزی اور مراٹھی میں بھی ان کی تخلیقات شایع ہوئی ہیں ، ہندی زبان میں ان کے افسانوں کا مجموعہ “”مدھوبن میں رادھیکا “”کے عنوان سے سال 2014 میں شایع ہوا ۔حکومت بہار کی گہارھویں جماعت کی درسی کتاب “”کہکشاں حصہ اول “” میں ان کا افسانہ “”خوشبو” ” شامل نصاب ہے اسی طرح رانچی یونیورسٹی کے بی اے کے کورس میں ان کا افسانہ “”مدھوبن میں رادھیکا “”شامل کیا گیا ہے ۔غزال کے نمائندہ افسانوں میں “”سوریہ ونشی””چندر ونشی””بھولے بسرے لوگ””نیک پروین””چراغ خانہ درویش “”گنبد تیز گرد نیلی فام””مدھوبن میں رادھیکا “”شامل ہیں ۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے انہیں “”اسد اللہ خان غالب ایوارڈ “” اور “”مدھوبن میں رادھیکا “” پر انہیں “”مہا دیوی ورما ایوارڈ “” سے نوازا گیا ہے۔
غزال ضیغم صرف افسانہ نگاراور ڈرامہ نگار ہی نہیں بلکہ بہت اچھی شاعرہ بھی ہیں ، غزال نے غزل کم کم کہی ہے نظمیں کہتی ہیں اور خوب کہتی ہیں ۔ نسائی حسیت جیسے ان کے افسانوں میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے ویسے ہی ان کی شاعری میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ۔ وہ اتنی خوبصورت شاعری کرتی ہیں لیکن اپنی پہچان ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہی کروائی کہ تا حال ان کی شاعری کی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آتی ہے ۔ “”کڑی دھوپ کا سفر ہے”” غزال کا ریڈیو ڈراموں کا مجموعہ زیر طبع ہے جبکہ ناول پر کام کر رہی ہیں ۔