غائب کیے جو وقت نے اوراقِ زندگی
ازبر ہوئے نہ پھر کبھی اسباقِ زندگی
آغاز و اختتام کے وقفے کے درمیاں
اک مختصر قیام ہے میثاقِ زندگی
دائم رہیں گی رونقیں آدم کے شہر میں
گرچہ اجل کے ساتھ ہے الحاقِ زندگی
سود و زیاں کے خوف سے وہ ماورا ہوا
جس کی نظر میں عشق ہے مصداقِ زندگی
جن سے لیا ہے وقت نے ہر سانس کا خراج
کیونکر ہو ان کی ذات پہ اطلاقِ زندگی
ڈسنے لگے ہیں راہ میں رنج و الم کے ناگ
لائے کوئی تو ڈھونڈ کے تریاقِ زندگی
منزّہ سیّد