وہ کمال کا آدمی تھا لیکن ایک دن غلطی کرگیا، وہ جعلی کرنسی بناتا تھا لیکن غلطی سے دس روپئے کے نوٹ کی جگہ پندراں لکھ بیٹھا۔ پہلے اس نے سوچا کہ اس کو میں ضائع کر دیتا ہوں لیکن اس کے دل میں خیا ل آیا کہ اس کو رہنے دیتا ہوں کسی دن کسی گاوں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں یہ کام آجائے گا کیونکہ گاوں والوں کو کیا معلوم کہ اب پندراں روپئے کا نوٹ بھی بن چکا ہے یا کہ نہیں جب وہ پندراں کانوٹ دیکھیں گے تو یعقین سے اس کو مان لیں گے، یہ سوچ کر وہ مسکرا دیا اور پندراں روپئے کا نوٹ اس نے اپنی جیب والے پرس میں رکھ لیا۔
وقت کچھ گزرااور اس کو ایک دن ایک گاوں جانے کا اتفاق ہوا، جب وہ واپس لوٹنے لگا تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑھیا عینک لگائےایک دوکان پر بیٹھی ہوئی ہےاوردوکان میں روشنی کیلئے اس بڑھیا نے لالٹین جلا رکھی ہے۔ یہ دیکھ کر اس کا دل کھل اٹھا، اور وہ دوکان کی طرف بڑھا اور شہریوں کی رعب جیسی آواز بنا کر بڑھیا سے مخاطب ہوا، اماں آپ کے پاس پندراں روپئے کے نوٹ کی ریزگاری ہوگی۔ اماں نے جواب دیا ہاں بالکل ہے لیکن میں ایسے نہیں دوں گی تمیں کم ازکم ایک روپئے کا کچھ ناں کچھ سامان میری دوکان سے خریدنا ہو گا، اس نے جواب میں پندراں روپئے کا نوٹ بڑھیا کی طرف بڑھا دیا اور ایک روپئے کا کچھ خرید کر باقی روپوں کیلئے اس نے اپنا ہاتھ بڑھیا کی طرف بڑھا دیا، بڑھیا نے سات سات روپئے کے دو نوٹ اس کی بڑھی ہو ئی ہتھیلی پر رکھ دیئے جسے دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا ہی رہ گیا۔
بی بی، گاوں والوں کو کم نہ سمجھیں یہ شہر والوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوتے ہیں۔
تبصرے دیکھیں یا پوسٹ کریں