- Advertisement -

فرض اپنا وہ نبھانے آئے

شہناز رضوی کی ایک اردو غزل

فرض اپنا وہ نبھانے آئے
میرے دل کو وہ جلانے آئے

آئے ہنستوں کو رُلانے آئے
سر پہ طُوفان اُٹھانے آئے

میں پہُنچ جاؤں نہ اُن تک ، یوں وہ
نقشِ پا اپنے مِٹانے آئے

دل کی دُنیا تہہ و بالا کر کے
اب مِرا سوگ منانے آئے

آیا برسات کا موسم پھِر سے
یاد پھِر زخم پُرانے آئے

چُٹکیوں میں ہی مِری جاں دیکھو
خاک میری وہ اُڑانے آئے

قبر میں دیکھئے “ شہناز” مُجھے
میرے اپنے ہی دبانے آئے

 شہناز رضوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
شہناز رضوی کی ایک اردو غزل