فرد ہوں ہجر زدہ آپ نہیں سمجھیں گے
میرا جو اشک بہا آپ نہیں سمجھیں گے
آپ کو جنگ نظر آتی ہے عاشور کے روز
کربلا میں جو ہوا آپ نہیں سمجھیں گے
کوششیں کرتے رہیں راز کھلے گا ہی نہیں
عادتِ بندِ قبا آپ نہیں سمجھیں گے
آپ کو لگتا ہے میں رات کو سو جاتا ہوں
نیند اور میرا خلا آپ نہیں سمجھیں گے
آپ کے دکھ میں سمجھتا ہوں بہت خوب مگر
میرا جو خون بہا آپ نہیں سمجھیں گے
اُس نے جب دردِ جدائی کا مجھے پوچھا تھا
میں نے ہنس کر تھا آپ نہیں سمجھیں گے
مت ہی پوچھیں ہمیں یکطرفہ محبت بارے
ہم نے جو ظلم سہا آپ نہیں سمجھیں گے
اِس نے فرتاش کے جیسے کئی ساتھی کئے دور
جو چلی ہے یہ وباء آپ نہیں سمجھیں گے
روتے جنگل کا جو دکھ پوچھا تو صحرا بولا
پیڑ اِن کا ہے کٹا آپ نہیں سمجھیں گے
وہ عدو تو عدو ہے پیارو! مگر یاروں نے
سانپ بن کر جو ڈسا آپ نہیں سمجھیں گے
ہنستا اور کھیلتا واعظ کہیں تنہا ہو کر
کیسے شاعر ہو گیا آپ نہیں سمجھیں گے
عمر اشتر