فقط ایک پھول!
پرندے لوٹتے دیکھے ، تو یہ دھوکا ہوا مجھ کو
کہ شاید جستجو میری،
یا کوئی آرزو میری،
ترے در سے پلٹ آئی
مجھے تنہا بیاباں سے گزرتے لگ رہا ہے ڈر
جدائی کے شجر کی اب حفاظت بس سے باہر ہے
یہ پانی آنکھ سے گرتا،
اگر سیلاب ہو جائے
یہ پیلی دھوپ، مہکی رُت،
سراب و خواب ہو جائے
تو پھر اس تشنہ روش میں ،
پھوٹتی کلیوں کے سب نغمے
سنانے کو ترستی خواہشیں، ناکام ٹھہریں گی
مثالِ رفتگاں ، جاتے ہوئے مہکے ہوئے لمحے
خزاں کے زرد پتوں کے لئے ہی قرض لے آؤ
مسلسل جو اُداسی پر اداسی،
یوں برستی ہے
کہیں مرجھا نہ دے ، سرسبز اس شاخِ محبت کو
تعلق کی بھی میری جان ، اک میعاد ہوتی ہے
پھر اس کے بعد،
ہر بندھن سے جان آزاد ہوتی ہے
خزاں کی جیت سے پہلی
ذرا یہ دھیان کر لینا
کہ سینے میں ، مرا دل ہے ۔۔۔
فقط اِک پھول !!!
فرزانہ نیناں