- Advertisement -

اینٹونینا کی جرات گناہ

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

اسے یہ خبر سسلی کی کامیاب مہم کے بعد ملی۔ عظیم رومی جنرل کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن وہ اس حد تک گر جائے گئی شاید سوچا بھی نہیں تھا۔ تمام دنیا جانتی تھی کہ وہ اس کی محبت میں دیوانہ ہے۔

بحیرہ روم کے پانیوں، افریقہ کے ریگستانوں، یورپ کی پہاڑیوں اور ایشیا کے میدانوں میں جھنڈے گاڑنے والا جنرل بیلی سیریس اپنی بیگم کی اداؤں کے سامنے سر نگوں ہو جاتا تھا۔

انٹونینا کی حرکات ناقابل بیان تھیں۔ کنیزیں اور خواجہ سرا جو کچھ بھی دیکھتے اپنی زبان پر نہیں لاتے تھے۔ لیکن میسی ڈونیا نام کی کنیز مزید صبر نہ کر سکی اور جان کی امان پانے کی ضمانت پر سب اگل دیا۔ ساتھ ہی اس کی خواب گاہ کی تزئین و آرائش سے وابستہ دو کم عمر غلام گواہ کے طور پر بھی پیش کیے۔

وہ خود بھی ایک مرتبہ دونوں کو تہہ خانہ کی تنہائی میں دیکھ چکا تھا۔ انٹونینا نے بہانہ بنایا کہ اس لڑکے کے ساتھ وہ ہیرے جواہرات دفن کرنے آئی تھی جو اس نے قیصر روم سے چھپا کر رکھے ہیں۔ گرچہ تھیوڈوسیس کا آزار بند بھی کھلا تھا، وہ بیگم کی محبت میں اتنا دیوانہ تھا کہ چشم بینا کی گواہی پر اعتبار کرنے کی بجائے اس کی بات پر یقین کر لیا۔

تھیوڈوسیس اس کا منہ بولا بیٹا تھا۔ جسے اس نے لبنان کی مہم کے دوران بتیسمہ دے کر متبنیٰ بنایا تھا۔ عقیدے کے مطابق وہ اس کا گاڈ بیٹا۔

اس نے اپنے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ تھیوڈوسیس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ سپاہی نے یہ خبر اس تک پہنچا دی اور وہ شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ سپاہیوں کو علم تھا کہ بیگم کے سامنے وہ بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ وہ اس کی تابعداری کی بجائے انٹونینا کی خدمت میں اپنا فائدہ سمجھتے تھے۔ روم کے ایک گورنر کیسٹنٹائن نے یہ بات سنی تو جنرل سے ہمدردی دکھانے کی بجائے اس کی بے وقوفی پر کہنے لگا کہ اگر اس کی جگہ وہ ہوتا تو لڑکے کی بجائے اس عورت کو قتل کرواتا۔ یہ بات سن کر انٹونینا کے دل میں اس کے خلاف زہر بھر گیا۔ وہ ایک ایسا بچھو تھی جو کہ اپنا ڈنک چھپا کر رکھتا ہے۔ کئی سالوں بعد اس بچھو نے اپنے خاوند کے ہاتھوں سے ہی کیسٹنٹائن کو قتل کروایا۔

اینٹونینا کا باپ اور دادا دونوں رتھ چلاتے تھے۔ اس کی ماں تھیٹر کی درجہ دوم کی اداکارہ تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ ایک طوائف تھی جو کہ تھیٹر میں ایکسٹرا کے طور پر کام کرتی تھی۔

اینٹونینا تھیٹر میں ہی جوان ہوئی جہاں اس نے ماں کے چاہنے والے اداکاروں اور سٹیج پر کام کرنے والے جادوگروں سے جوڑ توڑ کرنا، مافوق الفطرت قوتوں یا ہستیوں کو پکارنا، غیر مرئی مخلوقات کے نام پر روحانی کھیل کھیلنا اور رسومات و عقائد کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانا سیکھ لیا تھا۔ عشق و محبت کے کھیل سیکھے۔

والدین سے ادویات و نشہ آور چیزوں کا استعمال اور جنسی کھیل میں ان کی جادوئی کرامات کو آزمانا سیکھا۔ انہیں زبردست خصوصیات کو استعمال کر کے کئی حمل ضائع کیے اور کچھ ناجائز بچوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جنرل بیلی سیریس کو اپنے دام میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئی۔

یہیں اس کی ملاقات تھیوڈورا سے ہوئی جو کہ بعد میں بازنطینی سلطنت کے عظیم بادشاہ جسٹینن کی بیوی بنی۔ وہ دونوں تھیٹر میں کام کرتی رہیں۔

دونوں کی زندگی میں مخاصمت اور یگانگت کا تضاد موجود رہا۔ پہلے پہل ملکہ اس کے سخت خلاف تھی لیکن جب اس نے دو مذہبی لیڈروں (پاپائے روم) کو پچھاڑنے میں قیصر روم کی مدد کی تو وہ ملکہ کے انتہائی قریب ہو گئی۔ ان کی دوستی مثالی بن گئی۔ وہی اس کا سب سے مضبوط سہارا تھی۔ اس کے بعد وہ اس معاملہ میں بھی نڈر ہو گئی۔ اس کو غلاموں اور لوگوں کی بھی کوئی پرواہ نہ رہی اور بے جھجک نفسانی خواہشات کے طوفانوں سے ٹکرانے لگی۔

اینٹونینا حسن کی دیوی اور عشق و محبت کی ماہر ہونے کے ساتھ بہادری اور ذہانت کا بھی اعلیٰ نمونہ تھی۔

جنرل بیگم کا دیوانہ کیوں نہ ہوتا اس کی بہادری کی وجہ سے دو مرتبہ جان بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ ایک مرتبہ بازنطینی بحریہ کو پانی کی فراہمی آلودہ ہو گئی۔ لیکن انٹونینا نے پانی کو شیشے کے برتنوں میں ایسے محفوظ کیا تھا کہ صرف اس کے جہاز کا پانی کائی لگنے سے محفوظ رہا۔ ایک جنگ کے دوران وہ پیچھے رہ گئی تھی۔ جنرل کی فوج اناج کی کمی کا شکار تھی اور وہ دشمنوں کے درمیان سے اناج لے کر اس کے پاس پہنچ گئی۔

وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

جب جنرل بیلی سیریس واپس قسطنطنیہ آیا تو اس نے جادوئی کرامات اور نشہ آور ادویات کے سہارے حسن کا جال بچھا کر تھیوڈوسیس کو منا لیا کہ سارے الزامات جھوٹے ہیں اور وہ تھیوڈوسس کو واپس بلوانے پر تیار ہو گیا۔

وہ اس کا دیوانہ تھا اور انٹونینا تھیوڈوسس پر جان چھڑکتی تھی۔ یہ محبت کی انوکھی مثلث تھی۔

وہ محبت جو دماغ کو منتشر کر دیتی ہے، رگ رگ کو ہلا دیتی ہے، آدمی کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ ایسی محبت تھی جو خطرناک بلکہ مجرمانہ خصائل کی حامل، تقدیس سے گری اور غداری لیے ہوئے تھی۔

محبت بے جان و بے حرکت قوانین کے اندر اور خطرے کے بغیر ہو تو وہ کیا محبت ہوئی؟ محبت تو قانون و قواعد کو توڑ دیتی ہے۔ بھائی بندوں کے رشتوں کا اور مقدس موانعات کا قلع قمع کرتی ہے۔ محبت اور جرات گناہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اگر اس پر کسی کو قصور وار ٹھہرانا ہو تو پہلا پتھر وہ پھینکے جس نے عورت کے گرم بوسے کو اپنے ہونٹوں پر محسوس نہ کیا ہو۔ جس نے اپنا تن من ایسے موقع پر قربان نہ کر دیا ہو۔

شجر ممنوعہ باعث کشش تھا۔ اس کے پاس نہ جانے والے خدائی احکامات کی حکم عدولی اس دھرتی کو سبھاگی بنا گئی۔

اسی محبت سے مجبور ہو کر اس نے کنیز مسی ڈونیا اور دونوں غلام لڑکوں کو بیگم کے حوالے کر دیا۔ انٹونینا نے پہلے ان کی زبانیں کٹوائیں اور پھر ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے آبنائے باسفورس کی ان بھوکی مچھلیوں کے حوالے کر دیا جو ایسی غذا کھانے کی عادی ہو چکی تھیں۔ اس کام میں وہی غلام اس کا مدد گار تھا جس نے پوپ کو مارنے میں اس کا ساتھ دیا تھا۔

سیّد محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از ایم مبین