دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں اک للکار سے
میرے پاکستان کو خطرہ نہیں غدّار سے
کم نہ ہونے دو کسی صورت بھی ناموسِ وطن
دل میں جو بھی ہو گِلہ کرتے رہو سرکار سے
کھوکھلی ہونے نہ دیں گے اِس کی بنیادیں کبھی
ہم بچائیں گے وطن کو دشمنوں کے وار سے
جہل پر چھائے گی علم و آگہی کی روشنی
آشتی کا نور پھوٹے گا در و دیوار سے
جس کے دل میں ملک و ملت کے لئے چاہت نہیں
چھوڑ کر اپنی زمیں وہ جا ملے اغیار سے
اِس وطن کا رزق کھا کر بھی جو کہتے ہیں برا
مجھ کو لگتے ہیں وہ ذہنی طور پر بیمار سے
منزّہ سیّد