دوری میں اس کی گور کنارے ہم آرہے
جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے
اس آفتاب حسن کے ہم داغ شرم ہیں
ایسے ظہور پر بھی وہ منھ کو چھپا رہے
اب جس کے حسن خلق پہ بھولے پھریں ہیں لوگ
اس بے وفا سے ہم بھی بہت آشنا رہے
مجروح ہم ہوئے تو نمک پاشیاں رہیں
ایسی معاش ہووے جہاں کیا مزہ رہے
مرغان باغ سے نہ ہوئی میری دم کشی
نالے کو سن کے وقت سحر دم ہی کھا رہے
چھاتی رکی رہے ہے جو کرتے نہیں ہیں آہ
یاں لطف تب تلک ہی ہے جب تک ہوا رہے
کشتے ہیں ہم تو ذوق شہیدان عشق کے
تیغ ستم کو دیر گلے سے لگا رہے
گاہے کراہتا ہے گہے چپ ہے گاہ سست
ممکن نہیں مریض محبت بھلا رہے
آتے کبھو جو واں سے تو یاں رہتے تھے اداس
آخر کو میر اس کی گلی ہی میں جا رہے
میر تقی میر