- Advertisement -

دردِ دل زبان چاہتا ہے

ناہید ورک کی اردو غزل

دردِ دل زبان چاہتا ہے
وسعتِ بیان چاہتا ہے
عمر کی گلی میں یہ مرا دل
پختہ اک مکان چاہتا ہے
کیوں مجھے وہ آزمائے ہر پل
کیوں وہ امتحان چاہتا ہے؟
کیوں اُداس پھرتی ہیں گھٹائیں
کیا یہ آسمان چاہتا ہے؟
لوٹ آئے گا وہ پھر سے شاید
عشق پھر گمان چاہتا ہے
بھولنا تجھے نہیں ہے ممکن
دل ترا ہی دھیان چاہتا ہے
دوریاں سہی نہ جا سکیں اب
دل تری امان چاہتا ہے
جاں بہ لب ہوں ایسے میں ترے بن
جیسے کوئی جان چاہتا ہے

ناہید ورک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ناہید ورک کی اردو غزل