چھِڑا ہے ذکر تیری دلکشی کا
تِری آنکھوں کی مے کا ، مے کشی کا
وہ دلبر بھی کوئی دلبر ہے جس کو
نہیں آتا طریقہ دلبری کا
لُٹا دی جان ہم نے دوستی پر
صِلہ کیسا مِلا یہ دوستی کا
ازل سے ہی وہ دُشمن تھے ہمارے
نتیجہ سامنے ہے دُشمنی کا
جیئں کِس زندگی کے واسطے اب
مزہ باقی رہا کب زندگی کا
اندھیرے بس گئے ہیں دل کے اندر
گِلہ ہم کو نہیں تِیرہ شبی کا
کوئی چھیڑو غزل “ شہناز رِضوی “
مزہ آ جائے گا پھِر شاعری کا
شہناز رضوی