’’تو جناب میں کیا کہہ رہا تھا، اوہ ہاں یاد آیا۔ میرے یہ گلاب سبھی کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ اُس دن بھی جب پولیس کا سراغرساں گھر میں داخل ہوا تومیں ہاتھ میں بڑی ساری قینچی لئے، انہیں گلاب کے پودوں کے پاس کھڑا، تراش خراش میں مصروف تھا۔ وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور چپ چاپ ان کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر میں نے ہی پہل کی، ’’میری بیوی کا کچھ سراغ ملا۔‘‘
’’تفتیش جاری ہے۔ گتھیاں سلجھنے لگی ہیں۔ لگتا ہے جلد ہی میں کسی منطقی انجام تک پہنچ جاؤں گا۔‘‘اس نے گھمبیر انداز سے کہا۔ ’’لگتا ہے تمہیں گلابوں کا بہت شوق ہے۔ بڑی اچھی طرح سے ان کی دیکھ بھال کرتے ہو۔ کافی بڑے بڑے اور خوب سرخ رنگت والے گلاب ہیں۔ تمہارے تجربے اور ہنر مندی کا منہ بولتا ثبوت۔‘‘
’’ارے کیسی ہنر مندی اور کہاں کا تجربہ۔ یہ تو اس کی غیر موجودگی میں شوق چڑھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ لفظ گلاب اس کی زندگی میں کیا معنی رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کو گلابوں کا بہت شوق تھا۔ مگر وہ کبھی انہیں لگا نہیں پائی۔ جب بھی لگاتی، پودے جل جاتے۔ اُسی کیلئے میں یہ سب کر رہا ہوں۔ ویسے ان کے بڑے سائز اور چٹک سرخ رنگت میں میرے تجربے کا دخل نہیں، یہ تو اُس مخصوص نامیاتی کھاد کی کرامت ہے، جو میں نے تجرباتی طور پر دینا شروع کی ہے۔ میرا شوق کا شوق ہوا اورکچھ کمائی بھی الگ سے کر لیتا ہوں۔‘‘میں نے قینچی سے ایک سوکھی مگر مضبوط شاخ کو کاٹتے ہوئے کہا اور اس کی جانب دیکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کا دھیان میری باتوں کی طرف نہیں تھا۔ وہ گلاب کے پودوں کی جڑوں کے پاس کسی چیز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ پھر اچانک اس کے منہ سے نکلا۔ ’’ارے یہ کیا؟‘‘
’’خیر جانے دیں ان سب باتوں کو، تو میں کہہ رہا تھا کہ اب تو میرے گلاب پہلے کے مقابلے میں مزید بڑے اور سرخ ہو چکے ہیں۔ پورے شہر میں آپ کو ایسے شاندار گلاب نہیں ملیں گے۔ اب تو ان کی کامیاب کاشت کے بعد میں دیگر پھولوں کا بھی سوچ رہا ہوں۔۔ ۔۔ تو آپ کیا کہتے ہیں۔ جلدی سے ایک درجن عمدہ سے گلاب، اپنی بیوی سے پیک کرا دیتا ہوں۔۔ ۔ ارے چنبیلی کہاں ہو؟ ۔ پتہ نہیں کہاں رہ جاتی ہے یہ۔ کام پرتو دھیان ہی نہیں ہے۔‘‘
عامر صدیقی