بس اک رستہ ہے اک آواز اور ایک سایا ہے
یہ کس نے آ کے گہری نیند سے مجھ کو جگایا ہے
بچھڑتی اور ملتی ساعتوں کے درمیان اک پل
یہی اک پل بچانے کے لیے سب کچھ گنوایا ہے
ادھر یہ دل ابھی تک ہے اسیر وحشت صحرا
ادھر اس آنکھ نے چاروں طرف پہرہ بٹھایا ہے
تمہیں کیسے بتائیں جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے
نہ تم نے آئنہ دیکھا نہ آئینہ دکھایا ہے
ہمیں اک اسم اعظم یاد ہے وہ ساتھ ہے، ہم نے
کئی بار آسماں کو ان زمینوں پر بلایا ہے
کہاں تک روکتے آنکھوں میں ابر و باد ہجراں کو
اب آئے ہو کہ جب یہ شہر زیر آب آیا ہے
سلیمؔ اب تک کسی کو بد دعا دی تو نہیں لیکن
ہمیشہ خوش رہے جس نے ہمارا دل دکھایا ہے