"یار کچھ منگواؤ اب بہت بھوک لگ رہی ہے باقی باتیں بعد میں ” وہ تینوں یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں بیٹھی تھیں
” ہاں یار سر احسان نے تو آج جان ہی لے لی ” ہانیہ بولی
” ایسی ویسی ” عنایہ منہ بنا کے بولی ” اب کل پریزنٹیشن ہے نہیں دی تو قتل کردینا ہے انہوں نے”
” اففففف۔۔۔۔۔۔ بس بھی کرو رونا اور کچھ منگواؤ پھر پریڈ کا ٹائم ہو جائے گا” پریشے نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا عنیہ نے بچے کو اشارہ کیا اور پھر عنایہ ارڈر دینے لگی لنچ کرنے کے بعد وہ کلاس لینے چلی گئیں ان تینوں میں بہت گہری دوستی تھی اسکول کے زمانے سے وہ تینوں ساتھ تھیں تینوں میڈیکل کے لاسٹ ائیر میں تھیں۔
یونی کی چھٹی ہونے والی تھی کہ بارش شروع ہو گئی وہ لائیبریری سے نکلی
” اوہ گاڈ اب کیا کروں بارش شروع ہو گئی ہے اور یہ عنایہ اور ہانیہ بھی نظر نہیں آرہیں ” وہ پریشان برآمدے کے نیچے کھڑی تھی کہ اسے کسی نے آواز دی
” سنیے ” آواز دینے والا اس کا کلاس فیلو فواد تھا
” جی”
” وہ مکھے آپ سے سر احسان کے سبجیکٹ کے نوٹس چاہیے تھے دیں گی پلیز میں آپ کو کاپی کروا کے دے دوں گا ” وہ شائستگی سے بولا پریشے مسکرائی اس نے بیگ سے نوٹس نکال کے اسے دیے
"یہ لو”
” تھینک یو پریشے تم ہمیشہ میری مدد کرتی ہو تھینک یو” وہ بولا تو پریشے بہت خوش ہوئی اسے ڈیسنٹ اور سلجھا ہو فہد بہت پسند تھا
” اٹس اوکے فہد ”
” اگر کہو تو اپنی بائیک پہ میں تمہیں گھر چھوڑ دوں ” فہد نے آفر دی
” نہیں نہیں گاڑی آتی ہو گی میری” پریشے نے کہا تو فہد مسکرایا
” اوکے ایز یو وش ” اور چلا گیا بارش اب تھم چکی تھی وہ یونی گیٹ کی طرف چل دی۔
——————
فواد کو پتا تھا کہ پریشے اسے پسند کرتی ہے پریشے اچھے خاصے امیر گھر کی لڑکی تھی لیکن فواد ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا تھا فواد اگر پریشے سے شادی کرلیتا تو اس کی لائف بن جاتی ورنہ اسے پریشے سے کوئی دلی لگاؤ نہ تھا فواد نے اپنے دوست عزیر سے یہ بات شئیر کی
” یار اگر میں اس سے شادی کر لوں تو میرے سارے پرابلمز حل ہو جائیں گے اس کے ما باپ بھی نہیں ہیں اور ساری جائداد اس کے نام پہ ہے اور وہ رہتی بھی اپنی پھپو کے پاس ہے وہ بھی کم نہیں بڑی تگڑی اسامی ہے”
” کیا تو شیور ہے کہ وہ تجھے۔۔۔”
” ہاں یار میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا سکتی اور ویسے بھی لاکنیس تو پتا چل ہی جاتی ہے” فواد نے پر یقین انداز میں کہا
” ہممم۔۔۔ پھر تو ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ”
” تو بتا تیری لائف کیسی چل رہی ”
” یار میری والی تو ناراض بیٹھی ہے اسے لگ رہا کہ میں منانے جاؤں گا اسے ہاہاہاہاہاہاہا پاگل اسے لگتا ہے کہ میں سریس ہوں اس کے لیے ” فواد بھی ہنسا
” بہت کمینہ ہے تو تو اب بتا کیا کرے گا ”
” کیا کیا کروں گا دوسری دیکھوں گا ” اس نے آنکھ دبا کے کہا تو دونوں ہاتھ پہ ہاتھ مار کے ہنس دیے
دور سے فواد کو پریشے آتی دکھائی دی
” تو جا پریشے آ رہی ہے میں آتا ہوں ” اور پریشے کی طرف چل دیا وہ اسے دیکھ کے مسکرائی
” اوہ سوری یار میں تمہارے نوٹس لانا بھول گیا ”
” اٹس اوکے فواد کوئی بات نہیں آنٹی کیسی ہیں اب ”
” امی ٹھیک ہیں اب تھینک یو تم نے برے وقت میں میری بہت مدد کی اگر تم مجھے پیسے نہ دیتی تو ” فواد نے مصنوعی اداسی سے کہا وہ اس سے کئی بار اپنے گھر کے جھوٹے مسئلے بتا کے اس سے پیسے بٹور چکا تھا
” یہ تو اچھی بات ہے اور آئیندہ تھینکس نہ کہنا ہم دوست ہیں فواد ”
” وہ تو ہیں میں تمہیں تمہارے پیسے جلد لوٹا دوں گا بس یہ دو ماہ گزر جائیں پھر تو ہم دونوں کی ہؤس جاب اسٹارٹ ہو جائے گی”
” ہاں یہ تو ہے بٹ پیسے لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں تمہیں”
وہ چلتے چلتے کیفے ٹیریا کی طرف آگئے
” ایک بات کہوں ” فواد بولا
” ہاں کہو ”
” پریشے تم۔مجھے بہت اچھی لگتی ہو”
وہ ہنسی ” تھینک یو”
” اگر میں یہ کہوں کے میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو ”
پریشے یک دم چونکی وہ اس کے ہاتھ تھام کے بولا
” will you merry me??? ”
پریشے نے اس کی طرف دیکھا دل زور سے دھڑکا تھا کیا دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں اور پھر پری نے ایک سیکنڈ نہ لگایا ہاں کرنے میں وہ آج بے حد خوش تھی اس نے جسے چاہا تھا وہ بھی اس ہی جو چاہتا تھا پھر ایک دن فواد نے اپنا رشتہ بھجوایا اس کے گھر پریشے کی پھپو کو وہ لوگ بہت لالچی لگے ان کا ارادہ انکار کا تھا پر اپنی اکلوتی بھتیجی کی ضد کے آگے انہیں ہار ماننی پڑی اور یوں فواد اور پریشے کی منگنی کردی گئی۔
—————-
چند ماہ بعد جب ان کی ہاؤس جاب بھی ختم ہو گئی تو پریشے کی جاب ایک گاؤں میں لگی پھپو نے منع کیا وہ اس کی اس بے پناہ خوبصورتی سے ڈرتی تھیں بٹ اس کا aim تھا گاؤں میں جا کے وہاں کے لوگوں کی مدد کرنا اور اس ہی مقصد کے لیے اس نے گاؤں جانے کا فیصلا کیا
ملک وجاہت کو نئی ڈاکٹر کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ خوش ہوئے اور اپنے نوکروں کے ہاتھ اسے کھانے کی دعوت دی۔
پریشے کو وہاں کافی سہولیات دی گئیں
چھوٹا مگر صاف ستھرا ایک کمرے کا گھر تھا اور ایک ملازمہ اس کے ساتھ چوبیس گھنٹے کے لیے رکھی گئی پریشے نے ان سہولیات کے بارے میں ملازمہ سے پوچھا تو وہ بولی
” ہمارے گاؤں میں جو ڈاکٹر وغیرہ آتا ہے بی بی تو ملک صاحب اسے ایسے ہی سہولیات دیتے ہیں انہیں عزت اور احترام دیا جاتا ہے ”
” اچھا اچھا ”
” اور آج ملک صاحب نے آپ کو دعوت پہ حویلی بلایا ہے”
” میں نہیں جا رہی آپ انہیں منع کردیں”
” یہ کیا بی بی جی یہ غلطی بھی نہ کرنا کسی میں ہمت نہیں ان کی بات کو ٹالنے کی اور یہ تو انہوں نے خود آپ کو بلاوا بھیجا ہے ”
” اچھا ٹھیک ہے میں چلوں گی” وہ سوچ کے بولی۔
—————–
ملک وجاہت کے تین بیٹے تھے سب سے بڑے کا نام وقار دوسرے کا نام زوار اور تیسرے کا نام عمار تھا یہ لوگ جدی پشتی رئیس تھے ملک وقار کی بیوی جا نام مہر تھا اور ان کے دو بچے تھے ملک وجاہت اپنے تینوں بیٹوں میں زوار کو زیادہ اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ اپنے دو بھائیوں کے برعکس زیادہ ذہین تھا غرور اور تکبر اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا تھا جب گاؤں کے لوگ اس کے آگے جھکتے تو ملک وجاہت کا سینہ شان سے چوڑا ہو جاتا وہ اچھا خاصہ ایجوکیٹڈ اور ہینڈسم بندہ تھا چھے فٹ سے زیادہ لمبا قد، سنہری رنگت ،چوڑا سینہ، کھڑی ناک جو اس کے چہرے پہ بہت بھلی لگتی تھی کالی چمکدار آنکھیں ، بلیک بال ماتھے پہ آتے ہوئے بھرے بھرے ڈیل ڈول والا زوار خوبصورتیوں کی معراج پہ پورا اترتا تھا وہ اپنی خوبصورتی سے اچھا خاصہ واقف تھا تبھی تو ہر لڑکی اس کے آگے بچھنے کو تیار رہتی تھی
—————-
دوپہر میں وہ حویلی آئی تو وہاں اس کا بہت اچھا استقبال کیا
” ہممم اچھے لوگ ہیں یہ تو” اس نے سوچا ملک صاحب نے اسے حویلی کی تمام عورتوں سے ملوایا وہ انہیں اچھی تو لگیں پر اسے ہر عورت میں اچھے اخلاق کے ساتھ ساتھ تکبر کی مقدار زیادہ لگی۔
دوسرے دن اس نے کلینک جوائن کر لی دن بھر لوگوں کے مسئلے سنتے اور چیک اپ کرتے دن گزر جاتا اس کا ابھی تک ملک زوار سے سامنا نہ ہوا تھا بس اس نے اس کے بارے میں سن رکھا تھا اور سن کے اسے اس آدمی پہ غصہ آتا جو کمزوروں کو جھکا کے خوش ہوتا تھا "خیر اسے کیا کرنا” اس نے سر جھٹکا اور اپنے کام میں لگ گئی۔
صبح وہ گھر سے کلینک کے لیے نکلی آج اسے ایک ہفتہ ہو گیا تھا یہاں آئے ہوئے سوچا آج جا کے ذرا کلینک کا نقشہ بھی ٹھیک کروا لے اپنے کمپاؤنڈر کو تو بولا تھا کہ وہ اپنی نگرانی میں کچھ ریپیرنگ کروائے پر اس نے سستی میں چھوڑ دیا تھا لیکن آج اس نے سوچا کہ وہ اب آج ہی اپنی نگرانی میں سب کروائے بھلے دو دن کے لیے کلینک بند ہی کیوں نہ کرنی پڑے سو اپنے گھر سے نکلی بلیک سوٹ میں بلیک چادر لیے بالوں کی کچھ لٹیں چہرے پہ بکھری ہوئی تھیں سادگی میں بھی وہ غضب ڈھا رہی تھی
وہ چلتی جا رہی تھی کہ کوئی سامنے سے آتی ہیلکس تیزی میں آئی اس سے پہلے کے اسے سنبھلنے کا موقع ملتا گاڑی تیزی سے رکی
” اندھے ہو دکھائی نہیں دیتا تمہیں ” وہ غصے سے بولی
ایک ہینڈسم سا بندہ گاڑی سے نکلا اور ساتھ اس کے گارڈز بھی پریشے غصے سے اسے دیکھ رہی تھی وہ چلتا ہوا اس کے سر پہ پہنچ گیا
” جانتی بھی ہو کس سے بات کر رہی ہو تم ”
” مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کون ہو کیا کرتے ہو ”
زوار نے اسے غصے سے دیکھا ایک معمولی لڑکی اسکی آنکھوں میں دیکھ کے اس لہجے میں بات کر رہی تھی
” زبان سنبھال کے بات کرو ملک زوار ہیں ہم ملک وجاہت کے بیٹے جو ہم سے ایسے بات کرے تو ہم اس کی زبان کھینچ لیتے ہیں لگتا ہے تم یہاں نئی آئی ہو پہلی غلطی سمجھ کے معاف کر رہا ہوں ”
” ہونہہہ۔۔۔۔۔ غلطی مائے فٹ تم جو کوئی بھی ہو میں نہیں ڈرتی تم جیسوں سے کر کیا سکتے ہو تم ہاں جان سے مار دو گے تم۔لوگوں میں بس اتنی ہی ہمت ہوتی ہے ”
پریشے کو اس کا نام سن کے ایک دم غصہ آگیا زوار نے غصے سے اس کا بازو دبوچا
” ہم میں کتنی ہمت ہے اس کا تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے لہٰذا ہمیں مجبور نہ کرو اپنی ہمت دکھانے پر ” پریشے نے دھکہ مار کے اسے پیچھے دکھیلا گارڈز ایک دم اس پہ گن تان کے کھڑے ہو گئے زوار نے گن نیچے کرنے کا اشارہ کیا
” جتنا میں تمہیں جاہل سمجھتی تھی تم اس سے کہءں زیادہ ہو ملک زوار۔۔۔ آئیندہ اس طرح مجھے ٹچ کرنے کی ہمت نہ کرنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا ” اس نے انگلی اٹھا کے اسے وارن کیا اور سائڈ سے ہو کے نکلتی چلی گئی زوار نے غصے سے مٹھیاں بھینچی ” یہ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا ”
—————-
وہ کلینک آئی غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ آکے چئیر پہ بیٹھی
” بی بی مجھے گاؤں کی عورتوں نے بتایا ہے ملک صاحب سے آپ کا جھگڑا ہوا ہے ” ملازمہ پریشانی سے اس کے پاس پہنچی وہ ملک زوار کو اچھی طرح جانتی تھی
” ہاں ”
” یہ کیا کیا بی بی آپ کو انہیں ایسا نہیں بولنا چاہیے تھا آپ نہیں جانتی ہیں انہیں جان سے جائیں گی آپ” ملازمہ کی باتیں سن کے اسے یک دم غصہ آگیا
” ملک صاحب ملک صاحب کیا لگا رکھا ہے تم نے ہاں دیکھتی ہوں میں بھی کیا کرتا ہے وہ جاہل جسے عورتوں سے بات تک کرنے کی تمیز نہیں ہے ”
” پر بی بی ”
” بس۔۔۔۔۔تم جاؤ یہاں سے” اس نے ملازمہ کو جانے کے لیے کہا اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی نارمل زندگی بھی چند دن کی تھی۔
———————–
ملک زوار اپنے کمرے میں بیٹھا اس لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا آج تک جو بھی لڑکی اس سے ملی تھی کسی کی آنکھوں میں خوف تو کسی کی آنکھوں میں چاہ ہوتی تھی لیکن یہ لڑکی۔۔۔ نہ تو اس کی آنکھوں میں چاہ تھی اور نہ ہی خوف یہ لڑکی اس کے لیے چیلنج بن چکی تھی
” ہو تو تم بہت حسین پر تمہیں ڈر نہیں لگتا نا تو میں تمہیں بتاؤں گا ڈر ہوتا کیا ہے تمہارے چہرے پہ ڈر دیکھنا اب ہماری خواہش ہے ” اور غصے سے اٹھا اور کسی کو کال ملائی
” کریم۔۔۔ یہ جو آج لڑکی ملی تھی اس کے بارے میں پتا کرو شام تک مجھے ساری انفارمیشن چاہیے”
” سائیں یہ لڑکی ایک ہفتہ پہلے شہر سے آئی ہے بہت اچھی ڈاکٹر ہے جی ”
” ہممم ٹھیک مجھے ساری معلومات چاہیے اس کے بارے میں”
” جی سائیں ” زوار نے فون رکھ دیا۔
—————-
وہ آج کلینک آئی تھی صبح سے مصروف اب فارغ ہوئی تھی کہ فواد کا فون آیا وہ ایک دم فریش ہو گئی
” کیسے ہو فواد ”
” میں ٹھیک ہوں بٹ۔۔۔۔”
” بٹ کیا فواد آنٹی تو ٹھیک ہیں نا ” پریشے پریشانی سے بولی
” ہاں وہ ٹھیک ہیں پر میری بائیک چوری ہو گئی ہے اگر دوبارہ بائیک لینا بھی چاہوں تو اتنے اخراجات ابو کیسے پورے کریں گے میں پریشان تھا تو سوچا تمہیں کال کر لوں” فواد نے آواز میں بے چارگی لاتے ہوئے کہا
” اوہ۔۔۔ تم پریشان نہ ہو فواد میں ہوں نا کتنے پیسے چاہیے تمہیں ” فواد ایک دم خوش ہوا
” نہیں یار میں تم سے آلریڈی اتنے پیسے لے چکا ہوں انگیجمنٹ کے بعد سے تم نے اتنے گفٹس بھجواتی رہی ہو میرے لیے اور میں نے تمہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں دیا”
” اوہ ہو فواد ایسے نہیں سوچو میرے لیے تم کافی ہو مادی چیزوں کی میرے دل میں کوئی اہمیت نہیں ہے تم بتاؤ کتنا اماؤنٹ چاہیے تمہیں ”
” ایک۔۔۔ ایک لاکھ ”
” واااٹ بٹ بائیک تو۔۔۔”
” ہاں میں جانتا ہوں یار بٹ ابو کے اوپر کچھ قرض ہے وہ چکانا ہے”
” اوہ اچھا تم بے فکر رہو میں بھجوادوں گی پیسے تمہیں ”
” تھینک یو پری تم بہت اچھی ہو ”
پریشے مسکرائی
” آئی نو فواد اور سناؤ تمہاری جاب لگ گئی ”
” نہیں یار ”
” یہ کیا بات ہوئی فواد میرے آنے تک تم ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں جاب کر رہے تھے اچھی خاصی جاب تھی تمہاری”
” ہاں تھی تو پر وہاں کے ماحول میں میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکا تو چھوڑ دی اب دیکھتا ہوں ”
” اچھا ”
” اوکے میں بعد میں بات کرتا ہوں مجھے ابو بلا رہے ہیں ”
” اوکے” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا اور سوچ میں پڑ گئی دوسری طرف عزیر نے فواد کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کے کہا
” یار تیری والی تو سونے کی چڑیا نکلی ” تو فواد زور سے ہنسا
” اپنی اپنی قسمت ہے ” فواد نے کہا تو عزیر بھی ہنسنے لگا۔
بینا خان