قسط وار ناول بہرام: دوسری قسط
ذیشان احمد ٹیپوؔ کا اچھوتا ناول
بہرام : دوسری قسط
"نائلہ ناشتہ تو لگوا دو”
عاصم نے ہیئر برش سے بال درست کرتے ہوئے آواز لگائی
"سرتاج ناشتہ کب سے آپ کے شکم کی بھوک مٹانے کو بیتاب ہے”
نائلہ نے شوخی سے جواب دیا تو عاصم مسکراتا ہوا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا.
"بھائی جان آپ ہمیشہ دیر کروا دیتے ہیں، آپ کو پتہ بھی ہے آج کتنی اہم میٹنگ ہے”
ہاشم نے بڑے بھائی سے شکوہ کیا
ارے یار پھر آملیٹ! نائلہ تمہیں پتہ بھی ہے کہ میں ناشتے میں بوائل ایگ اور سلائس کھاتا ہوں”
"بھائی جان آملیٹ ہاشم کیلئے بنایا ہے، آپ کا ناشتہ ابھی لاتی ہوں” سنبل نے عاصم کو تسلی دی
عاصم اور ہاشم دونوں بھائیوں میں بے حد پیار تھا اور قدرتی طور پر ان کو بیویاں بھی اپنی طبیعت کی مل گئیں. ماں باپ بلاناغہ بیٹوں اور بہوؤں کی محبت اور اتفاق کی نظر اتارا کرتے.
چاروں ناشتہ کرنے میں مصروف تھے کہ دائیں جانب لان کی طرف کھلی ہوئی کھڑکی سے کپ گرنے اور چیخ کی آواز سنائی دی.
"کیا ہوا نذیر؟؟؟”
عاصم اور ہاشم نے ماں کی چیختی ہوئی آواز سنی تو ناشتہ چھوڑ کر لان کی طرف بھاگے، نائلہ اور سنبل بھی پیچھے لپکیں. لان میں دیکھا تو سیٹھ صاحب کے ہاتھوں پہ رعشہ طاری تھا. چائے کا کپ اور وائرلیس فون نیچے گرے ہوئے تھے.
کیا ہوا بابا؟ کس کا فون تھا؟ سب خیریت تو ہے نا؟
عاصم نے باپ کے کانپتے ہاتھوں کو تھام کر پوچھا اور وہیں ان کے پیروں میں بیٹھ گیا. سنبل باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والے سسر کیلئے فوراً پانی لے آئی.
"بیٹا آج کا تمام شیڈول میٹنگز موخر کر دو”
سیٹھ نذیر نے پھولی ہوئی سانس اور غمگین لہجے کے ساتھ عاصم کو مخاطب کیا
"بابا آپ جیسا کہیں گے ویسا ہی ہو گا لیکن کچھ بتائیں تو سہی کہ ہوا کیا ہے؟”
عاصم نے باپ کی حالت دیکھ کر پریشان کن لہجے میں پوچھا.
سیٹھ نذیر نے گلفام کی اطلاع کے بارے میں بتایا تو سب کو اپنے دل ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے.
سیٹھ صاحب نے زبیدہ بیگم اور چاروں بچوں کو ضروری ہدایات دیں اور خود ڈرائیور کے ساتھ اپنی چمچماتی 86 کرولا کار پہ قریبی جامعہ مسجد کے امام صاحب کے پاس چلے گئے.
عاصم نے اپنے سیکرٹری بلال اکبر کو فون کر کے تمام معاملے سے آگاہ کیا اور ہدایت کی کہ میٹنگ کینسل کرنے کے ساتھ آفس میں 3 دن سوگ کا اعلان کر دے.
<—–>
سیٹھ نذیر پیلس میں پہلی بار موت نے جھپٹا مارا تھا، موت بھی ایسی کہ سب دہل کر رہ گئے. ہنستا بستا گھر پل بھر میں سوگوار ہو گیا.
عاصم اور ہاشم میت وصول کرنے اور دیگر معاملات نپٹانے اسپتال گئے تو زبیدہ بیگم نے نائلہ اور سنبل کو ساتھ لیا اور رخسانہ کو اطلاع دینے چلی گئیں.
"آپا آپ نے مجھے بلایا لیا ہوتا، خود کو کیوں تکلیف دی”
رخسانہ نے بستر سے اٹھتے ہوئے انکساری سے کہا
"نہیں رخسانہ، مجھے تمہارے بھائی نے بھیجا ہے کہ یہ چادر تمہارے سر پہ رکھ دوں، آج سے تم ہماری ذمہ داری ہو”
زبیدہ بیگم نے ایک قیمتی شال رخسانہ کے سر اور کندھوں پہ ڈالتے ہوئے کہا، وہ انتہائی سمجھداری سے اسے غمگین خبر کیلئے تیار کر رہی تھیں.
"آپا ہم تو پہلے سے ہی آپ کی اور سیٹھ صاحب کی ذمہ داری میں ہیں، ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے آپ ہی کا دیا ہوا تو ہے”
رخسانہ کے الفاظ ان گنت احسانات کے بار تلے دبے ہوئے تھے.
"دیکھو رخسانہ میں نے پہلے بھی کئی بار تمہیں کہاں ہے کہ یوں ہمیں شرمندہ مت کیا کرو، ہمارے پاس سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے جو وہ کبھی بھی واپس لے سکتا ہے. ہم نے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے، ابھی میں اس لئے آئی ہوں کہ…….”
زبیدہ بیگم کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں
"کیا ہوا آپا؟ آپ مجھے کیا بتانے والی ہیں؟”
رخسانہ پہ کپکپی طاری ہونے لگی تو زبیدہ بیگم نے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیں.
<—–>
میت گھر پہنچی تو کہرام مچ گیا، ثمینہ بھاگ کر باپ کے بے جان جسم سے لپٹ گئی.
بابا…… بابا……
بابا اٹھو نا؟
اٹھو نا بابا…..
دیکھو سب کیا کہہ رہے ہیں
تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے بابا
دیکھو نا ماں کی کیا حالت ہو گئی ہے
میرا کیا بنے گا بابا؟
تم تو کہتے تھے ہمیشہ مجھے اپنے سائے میں رکھو گے
پھر کیوں اتنی دور چلے گئے؟
اب میں کس سے فرمائشیں کیا کروں گی بابا؟
تم تو مجھے اپنے باغ کا پھول کہتے تھے نا
یہ پھول اب کیسے مہکے گا بابا؟
ماں دیکھو نا بابا کو کیا ہو گیا؟
ماں تم بولتی کیوں نہیں؟
ماں تم روتی کیوں نہیں؟
ہائے اللہ میرا بابا چلا گیا
مجھے پیار کرنے والا مجھ سے دور چلا گیا
اماں تم بھی تو کچھ بولو نا
میں کیسے رہوں گی تمہارے بغیر
ہائے میرے اللہ یہ کیا ہو گیا؟
اماں….. اماں دیکھو نا
آج میں رو رہی تو بابا چپ نہیں کروا رہے
ایک بار اٹھ جاؤ نا بابا
مجھے سینے سے لگا لو
یا اللہ…. یا اللہ
میرا بابا……..
ثمینہ کسی سے نہیں سنبھل رہی تھی، اس کی آہ و زاری سب کے کلیجے چیر رہی تھی. نائلہ نے ثمینہ کو پکڑ رکھا تھا. سنبل نے اسے پانی پلانے کی بہت کوشش کی لیکن ثمینہ کو ہوش کہاں تھا. اس کی تو کائنات لٹ چکی تھی. اس کی چھوٹی سی تکلیف پہ گھبرا کر اسے سینے سے لگا لینے والا شفیق باپ اب اس کی چیخ و پکار تک نہیں سن رہا تھا.
سیٹھ نذیر سے ثمینہ کی حالت نہیں دیکھی جا رہی تھی. انہوں نے ثمینہ کو ہمیشہ باپ کی شفقت اور لاڈ دیا تھا.
"میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ اللہ تعالٰی مجھے بیٹی جیسی رحمت سے نوازتا. مالک نے میری خواہش یوں پوری کر دی کہ تم دونوں کو بیٹی عطا کر دی”
سیٹھ نذیر نے ثمینہ کی پیدائش پہ اسے گود میں اٹھاتے ہوئے رخسانہ اور صفدر سے کہا تھا.
"سیٹھ صاحب یہ آپ ہی کی بیٹی ہے، اللہ اسے ہمیشہ آپ کے سائے میں رکھے اور آپ کی تابعدار بنائے”
صفدر کی خوشی دیدنی تھی.
عاصم اور ہاشم کو بھی ثمینہ کی صورت میں بہن میسر آ گئی تھی. دونوں اسکول سے واپس آتے تو اپنے کمرے کے بجائے رخسانہ بوا کی طرف چلے جاتے اور شام تک ثمینہ کے ساتھ کھیلتے رہتے اور پیار کرتے.
آج انہی دونوں بھائیوں کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ منہ بولی چھوٹی بہن کو سنبھالتے.
عاصم نے ہمت کر کے ثمینہ کو مخاطب کیا
"بیٹا جانے والے کو یوں نہیں روتے، اسے تکلیف ہوتی ہے”
عاصم کی آواز کانپ رہی تھی
"بھائی جان میں اپنی تکلیف کا کیا کروں؟ خود کو کیسے سمجھاؤں کہ میرا باپ نہیں رہا؟ کیسے یقین کروں کہ میرے لاڈ اٹھانے والا میرا بابا چلا گیا؟”
ثمینہ کا غم سب سمجھتے اور جانتے تھے لیکن رب کی رضا اور اس کے حکم کو کون ٹال سکتا ہے.
"ثمینہ میری بچی! یہاں میری طرف دیکھو، میری پیاری بیٹی ہو نا…… یوں مجھے تکلیف نہ دو بیٹا. میں کیسے دوہرے غم سہوں گا میری بچی”
سیٹھ نذیر نے ثمینہ کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا.
یہ پہلا موقع تھا کہ گھر والوں نے ہمیشہ مسکرانے والے سیٹھ نذیر کو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا
_______________
سیٹھ نذیر پیلس میں سوگوار کی فضا ہنوز برقرار تھی. رسمِ قل میں شریک ہونے والوں کو الوداع کیا جا رہا تھا. عاصم اور ہاشم نے آفس سے 3 دن کی چھٹی کر لی تھی اور تکفین و تدفین سے رسم قل تک کے تمام انتظامات اپنی نگرانی میں مکمل کروائے تھے.
رخسانہ تاحال سکتے میں تھی، شوہر کی اچانک موت نے اس کے دماغ کو گہرا صدمہ پہنچایا تھا. اسے کچھ خبر نہ تھی کہ میت کو کس وقت گھر لایا اور پھر تدفین کیلئے لے جایا گیا. زبیدہ بیگم پہلے دن سے رخسانہ کے ساتھ تھیں.
سیٹھ نذیر بوجھل قدموں سے کمرے میں داخل ہوئے تو رخسانہ کی حالت نے ان کا دل جکڑ لیا. اپنی کوئی سگی بہن نہ ہونے کی وجہ سے سیٹھ صاحب نے رخسانہ کو چھوٹی بہن بنایا ہوا تھا. رخسانہ نے بھی سیٹھ نذیر اور زبیدہ بیگم کے مان کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیا اور ان کے دونوں بیٹوں کو اپنی سگی اولاد کی طرح پالا.
عاصم کی شادی پہ رخسانہ نے دولہا دلہن کے کپڑے اور نائلہ کی انگوٹھی بری میں دی تو سیٹھ نذیر نے پریشان ہو کر کہا کہ رخسانہ تم نے اتنی مہنگی خریداری کیوں کی؟
"سیٹھ صاحب اپنے بچے کیلئے اس سے زیادہ بھی کرتی تب بھی کم تھا، میرے ہاتھوں میں پیدا ہوا، بڑا ہوا اور آج ماشاء اللہ سر پہ سہرا سجائے بیٹھا ہے. میرا اپنا کوئی بیٹا ہوتا تو….”
رخسانہ کی آنکھیں نم ہو گئیں
"بوا میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں؟ ہماری سگی پھوپھی ہوتی تو وہ بھی شاید ہمیں اتنا پیار نہ دیتی جتنا آپ نے دیا ہے. دوبارہ کبھی آپ نے بیٹے کی کمی والی بات کہی تو میں ناراض ہو جاؤں گا”
عاصم نے رخسانہ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر لاڈ سے کہا تو رخسانہ کی آنکھوں سے خوشی اور محبت بھرے آنسو چھلک پڑے.
آج وہی ہنس مکھ رخسانہ ساکت و جامد حالت میں بستر پہ لاچار پڑی تھی. نائلہ اپنے ہاتھوں سے رخسانہ کو چمچ سے دلیہ کھلانے کی کوشش کر رہی تھی. سیٹھ نذیر نے زبیدہ بیگم کو تاکید کی کہ رخسانہ کو جلد از جلد اسپتال پہنچانے کی تیاری کرے. زبیدہ نے اسی وقت ملازمہ کے ذریعے ہاؤس اٹینڈنٹ رشید کو ایمبولینس منگوانے کا پیغام بھیج دیا.
"ثمینہ کہاں ہے؟”
"بابا، سنبل بڑی مشکل سے اسے اپنے کمرے میں لے کر گئی ہے” نائلہ نے سیٹھ صاحب کو بتایا
"میں جا کر بچی کو دیکھتا ہوں، آپ رخسانہ کو اسپتال پہنچانے کی تیاری کریں”
سیٹھ نذیر ایک بار پھر رخسانہ کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے سنبل کے کمرے کی طرف چلے گئے.
جاری ہے…..
ذیشان احمد ٹیؔپو