بے حیائی پھیلانے میں میڈیاکا کردار
اویس خالد کا ایک اردو کالم
الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور قرآن و حدیث کے علاوہ ہمارا کوئی دوسرا آئین ہو ہی نہیں سکتا۔وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی اگر ہمیں کوئی آئین بنانا پڑے گا تو وہ بھی قرآن و حدیث سے ہی ماخوذ ہو گا تو قابل قبول ہو گا ورنہ نہیں۔ہر دور بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلنے والے تقاضے کچھ تو جائز تھے اور کچھ بالکل ناجائز تھے لیکن بد قسمتی سے ان میں فرق روا نہ رکھا گیا۔مثال کے طور پر زرائع ابلاغ،زرائع آمد و رفت، زرائع تعلیم اور زرائع حصول صحت کے تقاضوں کا بدلنا اوران میں جدت آنا انسانیت کے لیے بہتر تھا لیکن جدیدیت کے نام پر اسلامی قوانین کو چھوڑنا،لباس و لحاظ کے تقاضوں کو فراموش کرنا،اسلامی نظام حیات کو چھوڑ کر مغربی طرز زندگی کو اپنانا اور اسے ترقی کا اصول گرداننا،اسلامی تہواروں کی بجائے یہود و ہنود کے تہواروں کو ترجیح دینا یا اپنے تہواروں کو ان کے رائج کیے گئے تہواروں کی صورت میں ہی منانا اور اسے ترقی اور جذبہ خیر سگالی کا نام دینا سخت گناہ ہے اور باعث ناراضئی پروردگار ہے۔آج اس جدیدیت کے نام پر سب سے ذیادہ امت مسلمہ کو جس چیز نے نقصان پہنچایا ہے وہ بے حیائی ہے اور سب سے ذیادہ افسوس ناک بات بھی یہی ہے کہ اس میں جانے انجانے میں سب ہی حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔لیکن اس کو پھیلانے میں ظاہری سی بات ہے کہ آج کے میڈیا کا کردار سب سے ذیادہ ہے۔جو اچھے برے کی تمیز کیے بغیرہر وقت سب کو سب کچھ دکھا رہا ہے۔
قرآن میں سورۃ نور کی آیت نمبر 19 کا مفہوم ہے کہ:”بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ بے حیائی پھیلے ان لوگوں میں جو ایمان لائے،ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے،اور پروردگار جانتا ہے تم نہیں جانتے”۔
یعنی جو خواہش مند رہتے ہیں اس بات کے کہ مسلمانوں میں بے حیائی کو فروغ ملے،تو بظاہر تو انھیں بہت سا مال مل رہا ہے۔دنیا داری کے اعتبار سے بڑا عروج مل رہا ہے۔بڑا نام پیدا ہو رہا ہے،شہرت مل رہی ہے لیکن جو عذاب ملنا ہے وہ بھی صرف آخرت میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ پروردگار جانتا ہے ہم نہیں جانتے۔ پروردگار نے اس فعل قبیح کو عذاب الیم سے تعبیر فرمایا ہے۔اب اس میں بے حیائی پھیلانے کے ساتھ ساتھ جھوٹی خبریں پھیلانا،کسی پاکدامن پر تہمت لگانا اور بری اور نا مناسب خبروں کی اشاعت کرنا سب شامل ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ پروردگار سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں اسی لیے اس نے بے حیائی کے تمام کام اوران میں سے جو ظاہر ہیں اور جو پوشیدہ ہیں،حرام کر دیے ہیں۔(صحیح مسلم:6991)۔یہ اتنی خطرناک صورت حال ہے کہ سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ کسی نے کہا کہ ہم کب نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کو ترک کر سکتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا کہ جب وہ امور دکھائی دینے لگیں جو بنی اسرائیل میں نمودار ہوئے تھے اور وہ یہ ہیں کہ جب بے حیائی بڑوں میں،بادشاہت چھوٹوں میں اور علم گھٹیا لوگوں میں آ جائے۔(مسند احمد:9546)۔یعنی یہ کیسا عالم ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام بھی پھرروکا جا سکتا ہے کہ ٹھیک ہے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ بڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا وہ میڈیا جو گھر گھر میں دیکھا جاتا ہے۔ہر عمر کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔
مارننگ شوز سے لے کر ٹاک شوز تک،مزاحیہ پروگرامز سے لے کر مذہبی پروگرامز تک ایک ایسا مخلوط ماحول ایسے انداز سے دکھایا جاتا ہے کہ جیسے یہ بالکل بھی معیوب نہ ہو۔یہی نہیں بڑے بڑے اچھے قابل ادب و تعظیم علما کا خواتین کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرنا بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔اور پھر ایسے پروگرامز کا فارمیٹ بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے عالم دین سے بڑھ کر وہ خاتون بڑی عالم ہے جس کو ابھی تک پردے کے احکامات تک پتہ نہیں ہیں۔پھر ہر ہر اشتہار میں عورت کو ہی نمایاں کر کے بیہودہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے خواہ اس چیز میں عورت کا دور دور تک بھی کوئی تعلق نہ ہو۔اس کے علاوہ عام شاہراہوں پر،چوکوں اور چوراہوں پر ایسے بڑے بڑے بیہودہ سائن بورڈز لگے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ہر با حیا انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔یہ جانے انجانے میں ہم کس طرف جا رہے ہیں۔جس مغرب سے ہم یہ بیہودگی سیکھ رہے ہیں وہ خود بھی اب اس دلدل میں بری طرح پھنسنے کا ادراک کر رہا ہے۔آج سے چند دہائیوں پہلے بھی میڈیا تھا اور اسی کے زریعے قوم کی اچھی تربیت ہو رہی تھی لیکن آج کے اس جدید میڈیا نے تو حد ہی کر دی ہے۔ہمارے میڈیا کو چاہیے کہ اسلامی شعار و تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے پروگرامز ترتیب دے جس میں ہر لحاظ سے حیا کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ڈرامہ نویسوں کو بھی چاہیے کہ اپنی کہانیوں پر نظر ثانی کر لیا کریں۔سب اپنے اپنے کردارکا محاسبہ کریں کہ نئی نسل کو ہم کیا سکھا رہے ہیں۔میڈیا قوم کی تعلیم و تربیت میں بڑا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔پوری قوم کی سوچوں کا رخ موڑ سکتا ہے۔لیکن اگریہی حال رہا تو آئندہ نسل کے ساتھ ہم بڑا ظلم کریں گے اور پھر ان کی جیسی تربیت ہو گی اور وہ ہمارے ساتھ جو سلوک کریں گے شاید وہ ہم سے بھی برداشت نہ ہو۔الامان الحفیظ
اویس خالد