- Advertisement -

بے بسی کا نوحہ

محبوب صابر کی اردو نظم

بے بسی کا نوحہ

رداۓ خوف بِچھی ہے زمیں پہ چاروں طرف
ہر اِک نفس پہ عَجب اضطراب طاری ہے
خُود اپنے آپ کو چُھونے سے لوگ ڈرتے ہیں
یہ وقت اہلِ محبت پہ کتنا بھاری ہے!
کِسی کے دل میں کوئ خواہشِ وصال نہیں
کِسی بھی سوچ میں روشن کوئ جمال نہیں
ہر ایک آنکھ میں رقصاں ہیں بے بسی کے چراغ
ہر ایک رُخ پہ فروزاں ہیں اِضملال کے داغ
کوئ کسی کے لیے کُچھ بھی کر نہیں سکتا
مگر یہ کیا کہ کوئ یوں بھی مر نہیں سکتا
زباں بھی گُنگ ہے، مفلوج ہے صداۓ سخن
نہ شعر و ساز ، نہ سُر تال ہے نہ کوئ لگن
کِسی بھی ہاتھ کی پُوروں میں شوقِ لمس نہیں
نہ کوئ جِسم ہی خواہاں کِسی گُداز کا ہے
چُھپاۓ پھرتی ہے مُنہ زندگی ندامت سے
اسیر ہو گئے ہم خُود میں ہی ملامت سے

محبوب صابر

آڈیو ورژن میں نظم سنیں
شاعر اور آواز: محبوب صابر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
روبینہ فیصل کی ایک اردو نظم