- Advertisement -

بے باکیوں پہ شیخ ہماری نہ جائیو

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

بے باکیوں پہ شیخ ہماری نہ جائیو

In every walk with nature one receives far more than he seeks
John Muir
فطرت کے ساتھ سفر کرنے والوں کو خواہش سے زیادہ عطا کیا جاتا ہے
جان موئر

تقریباً ساڑھے گیارہ بجے بشام کی پر سکون فضا پریشر ہارن کی خوفناک آوازوں سے درہم برہم ہو گئی۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کارواں کے لئے مطلوبہ گاڑیوں کی تعداد پوری ہو چکی ہے۔ چند منٹ بعد ہم نے بشام کو خدا حافظ کہا اور ’’قدرت کے چٹانی عجائب گھر‘‘ کے پُر ہول سناٹے میں داخل ہو گئے۔ چاند غالباً بدلیوں کی اوٹ میں تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ گہری تاریکی کے وسیع و عریض سمندر میں سفر کر رہے ہیں ۔ ہم نے تاکا جھانکی کرنے کے بجائے نشست کا سہارا لے کر اونگھنے کو ترجیح دی۔
بسیں صوبہ سرحد کے ضلع کوہستان اور شمالی علاقہ جات کی سرحد پر پہنچیں تو تلاشی اور رجسٹریشن کے لیے روک لی گئیں ۔ بیش تر مسافروں کی طرح ہم بھی بس سے نیچے اتر آئے تاکہ جکڑ بند جسم کو حرکت دے کر معمول پر لایا جا سکے۔ بھٹہ صاحب کی سوئی ابھی تک شاہراہِ قراقرم کی ’’غیر ضروری‘‘ شہرت میں اٹکی ہوئی تھی اور وہ تنقیدی نکتہ نظر سے شاہراہ کا جائزہ لے رہے تھے۔طاہر اور عرفان گھوم پھر کر بسوں کی لمبی قطار میں تاک جھانک کر رہے تھے۔ میں نے تلاشی کے وقفے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ایک ہموار پتھر پر لم لیٹ ہو گیا۔ اس عیاشی نے تھکاوٹ سے چور جسم کے لئے خواب آور دوا کا کام کیا اور میں باقاعدہ خراٹے لینے لگا۔بھٹہ صاحب نے جھنجوڑ کر جگایا تو علم ہوا کہ تلاشی کی بے نتیجہ کاروائی ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل ہوئی ہے۔ میں چھ سات مرتبہ تلاشی کے اس عمل سے گزر چکا ہوں ، آج تک اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ غیر ملکی سیاحوں کی رجسٹریشن راولپنڈی میں کی جا سکتی ہے۔ ان کے پاسپورٹ بس ڈرائیور کے پاس جمع کرائے جا سکتے ہیں جو منزلِ مقصود پر پہنچ کر واپس دے دیئے جائیں ۔ تلاشی کا عمل بھی راولپنڈی میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائی اگر شمالی علاقہ جات ہی کی پولیس کے ذریعے عمل میں لانا ضروری ہے تو ان کی چوکی راولپنڈی کے پیر ودھائی بس سٹینڈ پر قائم کی جا سکتی ہے، بہ شرطیکہ سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا مقصود ہو۔
ہم سورج طلوع ہونے کے چند منٹ بعد چلاس میں داخل ہوئے جہاں مشہ بروم ٹرانسپورٹ کمپنی کے سفارش کردہ ریستوران میں گھنٹوں پہلے تیار کردہ ناشتہ مسافروں کا انتظار کرتے کرتے ٹھنڈا ٹھار دل فگار ہو چکا تھا۔
رائے کوٹ پل سے دریائے سندھ عبور کرتے ہوئے فیری میڈوز، بیال کیمپ اور نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ بھٹہ صاحب میرے قریب بیٹھے تھے اس لیے میں انھیں فیری میڈوز تک جانے والی جیپیں اور جیپ ٹریک دکھانے سے باز نہ رہ سکا۔ بھٹہ صاحب نے دلچسپی سے میری کمنٹری سنی کیونکہ وہ ’’نانگا پربت کے جھرنوں میں ‘‘ کا مطالعہ کر چکے ہیں ۔ انھیں علم ہوا کہ نانگا پربت کا نظارہ شاہراہِ قراقرم سے بھی کیا جا سکتا ہے تو انھوں نے ڈرائیور سے مذاکرات شروع کر دیئے اور اسے ’’نانگا پربت ویو پوائنٹ‘‘ پر چند منٹ بے ضابطہ قیام کے لئے آمادہ کر لیا۔
جگلوٹ سے ایک کلومیٹر پہلے تھالیچی نامی مقام نانگا پربت ویو پوائنٹ کہلا تا ہے۔ ڈرائیور نے اپنا وعدہ پورا کیا اور تھالیچی پہنچ کر دس منٹ سٹاپ کا اعلان کر دیا۔ خوش قسمتی سے مطلع بالکل صاف تھا اور نانگا پربت اپنی فطری شان و شوکت کے ساتھ دریائے سندھ کے اُس پار جلوہ افروز تھا۔بھٹہ صاحب نے برف کے سفید لبادے میں ملبوس نانگا پربت کا پُر تقدّس جاہ و جلال پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔وہ مبہوت ہو گئے اور سبحان تیری قدرت کا ورد شروع کر دیا۔میں چند روز نانگا پربت کے چرنوں میں گزار چکا تھا اور تھالیچی سے بھی کئی مرتبہ اس کا دیدار کر چکا تھا۔ میرے لیے بہ ظاہربھٹہ صاحب کی طرح مسحور ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی،پھر بھی حسن و جمال کے اس شاہکار کا شکار ہو گیا۔ آج نانگا پربت ایک نئی قیامت ڈھا رہا تھا۔ بے شک میں نے بہت قریب سے اس کے درشن کیے تھے لیکن مجھے یاد ہے کہ اُن دنوں موسم آنکھ مچولی کھیلتا رہا تھا۔ اتنا روشن، واضح اور چمک دار دن فیری میڈوز، بیال کیمپ، یہاں تک کہ نانگا پربت کے چرنوں میں بھی میسر نہیں آیا تھا۔ نانگا پربت اس وقت پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا اور میں اس کے دربار میں بے حس و حرکت کھڑا رہنے پر مجبور تھا۔میری خواہش تھی کہ یہ منظر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لا شعور کے نہاں خانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جائے۔ عرفان کی آواز میرے انہماک میں خلل انداز ہوئی:
’’سر جی ایک نظر اِدھر بھی۔‘‘
’’کائنات کی خوبصورت ترین بلندی کے سائے تلے کھڑے ہو کر اِدھر اُدھر نظر ڈالنا کور ذوقی کی نشانی ہے۔‘‘ میں نے رخ تبدیل کئے بغیر جواب دیا۔
’’اس وقت کائنات کی خوبصورت ترین بلندیاں اِدھر اُدھر ہی پائی جاتی ہیں ۔ آپ بھی ایک نظر ڈال لیں ، بعد میں پوچھتے پھریں گے چولی کے پیچھے کیا تھا۔‘‘
گردن خود بخود گھوم گئی۔
نانگا پربت ویو پوائنٹ پر ایک چبوترہ نما پلیٹ فارم بنایا گیا ہے تاکہ زائر تشریف فرما ہو کر نانگا پربت کے دیومالائی حسن سے آنکھیں سینک سکیں ۔اس چبوترے پر ایک سفید فام گروپ براجمان تھا۔ خواتین و حضرات اپنی جدید ترین تہذیب کے مطابق خود لطف اندوز ہو نے کے ساتھ ساتھ مقامی باشندوں کو بھی لطف اندوز کر رہے تھے جو ایک چھوٹے سے ہجوم کی صورت میں چبوترے کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ایک گوری نانگا پربت کی مووی اور دوسری سٹل تصاویر بنا رہی تھی۔چند گورے گوریاں چبوترے کی دیوار کے پتھروں سے ٹیک لگائے دل خوش کن قسم کی ’’ٹچکریوں ‘‘ میں مصروف تھے۔میں نے ان کی حرکات و سکنات اور لباس کی تراش و ’’خراش‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیا۔ بے شک گوری گوریوں بانکی چھوریوں کی بلندیاں نانگا پربت کو … آئی ایم سوری … مجھے شرماتی تھیں ۔
’’کیا فرماتے ہیں ڈاکٹر صاحب بیچ ان بلندیوں کے؟‘‘ عرفان نے سوال کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب ان بلندیوں کے بیچ کچھ فرمانے کی حماقت نہیں کرتے … البتہ یہ بلندیاں بذاتِ خود بہت کچھ فرما رہی ہیں ۔‘‘
’’کیا فرما رہی ہیں ؟‘‘
بے باکیوں پہ شیخ ہماری نہ جائیو
چولی تیاگ دیں تو فرشتے سعی کریں
’’آپ نے فیض کے شعر کی خوب مٹی پلید کی ہے، لیکن قافیے میں اٹک کر مار کھا گئے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے تنقیدی تبصرہ کیا۔
’’قافیہ با آسانی ملایا جا سکتا تھا،خیال کی گہرائی میں کمی آ جاتی۔ ‘‘
’’قافیہ کیسے ملایا جا سکتا تھا؟‘‘
آوارگی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
چولی اُدھیڑ لیں تو فرشتے رفو کریں
’’کیا خوب ارشاد فرمایا ہے … سچ مچ مزہ آ گیا بادشاہو۔پیروڈی کا لطف دوبالا ہو گیا۔‘‘ بھٹہ صاحب نے دل کھول کر داد کے ڈونگرے برسائے۔
’’لطف دوبالا نہیں ہوا،غارت ہو گیا ہے۔آپ اردو کے استاد ہونے کے باوجود سعی کے پردے میں لپٹی ہوئی شرارت تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘ عرفان نے توجہ دلائی۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’حج یا عمرہ کیا ہے آپ نے؟‘‘
’’آپ کا مطلب ہے صفا اور مروہ کے درمیان کی جانے والی سعی؟ لاحول ولا قوۃ! … مگر واہ جی واہ! … واہ واہ! … کتنی آوارہ قسم کی تشبیہ استعمال کی ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب پیروڈی پر دوبارہ غور و فکر کرنے کے بعد باقاعدہ وجد میں آ گئے۔ ’’مذہبی لحاظ سے آپ کی پیٹھ پر کم از کم دو سو کوڑے برسائے جانے چاہئیں ، ادبی نکتہ نظر سے اس خیال آفرینی کا جواب نہیں ۔ آپ کو سرجری کے بجائے اردو میں ڈاکٹریٹ کرنا چاہیے تھی۔‘‘
’’آداب۔‘‘ میں باقاعدہ کورنش بجا لایا۔
ڈرائیور نے بار بار ہارن دینا شروع کیا تو ہم فطرت کی رنگینیاں آنکھوں میں بساتے ہوئے بس میں سوار ہو گئے۔جب تک نانگا پربت نظر آتا رہا ہم مڑ مڑ کر اسے دیکھنے سے باز نہ رہ سکے۔ جگلوٹ چند سیکنڈ کے فاصلے پر تھا اور ہمارا چائے سٹاپ تھا۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے بھٹہ صاحب کو مخاطب کیا۔
’’یہاں سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اہم جغرافیائی سنگِ میل ہے۔‘‘
’’جی! … میں نے پڑھا ہے۔وہ مقام جہاں دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کی سرحدیں ملتی ہیں ۔‘‘
’’یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد مقام ہے۔بد قسمتی سے مجھے ایک مرتبہ بھی اپنی ٹرانسپورٹ پر یہاں سے گزرنے کا موقع نہیں ملا اس لئے اس کے تفصیلی مشاہدے سے محروم ہوں ۔ آپ بس کے ڈرائیور سے بے تکلف ہو چکے ہیں ،اُس سے درخواست کریں کہ وہاں بھی چند منٹ کے لئے گاڑی روک لے۔‘‘
’’اس میں کیا دشواری ہو سکتی ہے؟میں ابھی بات کرتا ہوں ۔‘‘
بھٹہ صاحب نے ایک مرتبہ پھر ڈرائیور سے مذاکرات کئے جو بری طرح ناکام رہے۔ڈرائیور کا فرماناتھا کہ جگہ جگہ گاڑی روکنا ممکن نہیں ۔دوسری سواریاں اعتراض کریں گی۔ وہ پہلے ہی لیٹ ہو چکا ہے اور مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ۔
بھٹہ صاحب نے التجائیہ انداز اختیار کیا،تھوڑی بہت خوشامد اور چاپلوسی سے کام نکالنا چاہا، لیکن ڈرائیور نے گلگت سے پہلے بریک لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ بھٹہ صاحب طیش کے عالم میں دریائے سندھ سے زیادہ جھاگ اڑاتے ہوئے واپس تشریف لائے۔
’’الو کا پٹھا۔اس کا تو باپ بھی روکے گا۔‘‘ انھوں نے زیر لب کہا۔
’’بری بات!اچھے بچے گالی نہیں دیتے۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کو پچکارتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا زیادہ جلنے کڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ہم یہ مقام بس میں بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں اور شاید بہتر انداز میں دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘
’’رہنے دیں جی۔اپنی مرضی سے یہ جگہ جگہ رُکتا اور بے تکے سٹاپ کرتا آیا ہے، اب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔میں بھی دیکھتا ہوں گاڑی کیسے نہیں روکتا۔‘‘
’’آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟‘‘
’’انا للہ کا ورد کریں ،بیس مرتبہ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
’’یہاں انا للہ کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟‘‘ میں اس فرمائش پر سچ مچ حیران ہوا۔
’’ضرورت کو چھوڑیں ،ورد کریں ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے نادر شاہی فرمان جاری کیا اور آنکھیں بند کر کے انا للہ کے ورد میں مصروف ہو گئے۔
جگلوٹ سے باہر نکلتے ہی ایک خوبصورت برف پوش چوٹی نے درشن دیئے۔
’’ڈاکٹر صاحب راکا پوشی۔‘‘ عرفان نے مجھے چوٹی کی طرف متوجہ کیا۔
’’راکا پوشی؟راکا پوشی یہاں کہاں سے آ گئی؟ یہ نانگا پربت ہی ہے،ذرا مختلف زاویے سے نظر آ رہا ہے۔‘‘
’’آپ سچ مچ سٹھیا گئے ہیں ۔نانگا پربت کئی کلومیٹر پیچھے رہ گیا ہے، وہ ہمیں اپنے سامنے کیسے نظر آ سکتا ہے؟‘‘
’’میں سٹھیا گیا ہوں تو آپ اٹھیا گئے ہیں ۔ میرے علم کے مطابق جگلوٹ کے آس پاس کوئی راکا پوشی ویو پوائنٹ نہیں ہے۔اگر ہوتا تونانگا پربت ویو پوائنٹ سے زیادہ مقبول ہوتا کیونکہ راکا پوشی پاکستان کی خوبصورت ترین چوٹی سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘
’’آپ دونوں ٹیک بولتا اے۔یہ نانگا پربت نئی اے،اور یہ راکاپوشی بی نئی اے۔‘‘ ایک مقامی شخص نے دخل اندازی کی۔
’’پھر یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’یہ حراموش اے۔‘‘
میں نے اور عرفان نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
اپنے دیو مالائی حسن کی بدولت ذہن کے پردے پر نقش ہونے والی یہ سفید فام حسینائیں اتنی بے پہچان کیسے ہو سکتی ہیں ؟ ایک سال پہلے میں اور عرفان حراموش بیس کیمپ ٹریک کا پروگرام بنا رہے تھے۔کوتوال جھیل اور مانی گلیشئر کی خوبصورتی اور دلکشی کے تذکرے کر رہے تھے۔وادیِ حراموش میں پائی جانے والی قدیم بلتستانی ثقافت میں چند دن گزارنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔آج حراموش کی برف پوش بلندی ہماری نظروں کے سامنے اپنی تمام تر رعنائی و دلربائی کے جلوے لٹا رہی تھی اور ہم جغرافیائی محل وقوع سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے پہچاننے سے قاصر تھے۔نہ جانے کس بے وقوف کا قول ہے کہ فطرت کا پجاری بد ذوق نہیں ہو سکتا۔
بھئی کیوں نہیں ہو سکتا؟
جگلوٹ کے قرب و جوار میں نانگا پربت اور حراموش کی تال میل سے تخلیق پانے والا منظر اتنا دل فریب ہے کہ مزدا کی اچھل کود کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہونے والے جسم کی تھکاوٹ نظروں کی تراوٹ میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
ہم اس منظر کے تاثر میں گم تھے کہ بس کا انجن بند ہو گیا۔ بار بار اسٹارٹ کرنے کے باوجود بس نے رینگنے سے انکار کر دیا اور ڈرائیور نے اعلان کیا کہ تیل ختم ہو گیا ہے۔سواریوں نے ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ ڈیزل ختم ہونے کا خطرہ تھا تو جگلوٹ سے کیوں نہیں ڈلوایا گیا؟ڈرائیور خود پریشان تھا اور یقین دلا رہا تھا کہ وہ ہمیشہ پٹن سے ٹنکی بھرواتا ہے اور باآسانی گلگت پہنچ جاتا ہے، آج نہ جانے کیا گڑ بڑ ہو گئی ہے؟
’’تم نے فیول میٹر نہیں دیکھا؟‘‘ عرفان نے خفگی کا اظہار کیا۔
’’یہ کیا چیز ہوتا اے؟‘‘
’’گاڑی میں تیل کی مقدار بتانے والی سوئی۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’امارا گاڑی کا کوئی سوئی ام کو کچھ نئی بتاتا۔‘‘ ڈرائیور نے بے چارگی سے کہا۔
میں نے گاڑی کے ڈیش بورڈ کا جائزہ لیا۔ ڈرائیور کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ فیول میٹر بعد کی بات ہے اس میں سپیڈ میٹر بھی نہیں تھا۔اس علاقے میں دور دور تک پٹرول پمپ کا نام و نشان نہیں تھا اور ڈیزل ختم ہونا ایک تشویشناک مسئلہ تھا۔کنڈیکٹر نے کسی خفیہ خانے سے جری کین برآمد کیا اور اپنے اسسٹنٹ کے حوالے کر دیا۔ہیلپر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا تاکہ گلگت کی جانب سے آنے والی کسی گاڑی سے لفٹ لے کر جگلوٹ جائے، تیل حاصل کرے اور دوبارہ لفٹ لے کر واپس آئے۔ مقامی لوگوں کے اندازے کے مطابق یہ کم از کم ڈیڑھ دو گھنٹے کا مرحلہ تھا کیونکہ شاہراہِ قراقرم کے اس حصے پر پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم چلتی ہے اور پرائیویٹ گاڑیوں میں بہ خوشی لفٹ دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم بس سے نیچے اتر آئے اور ارد گرد کا جائزہ لیا۔
’’کیا مطلب؟ … یہ تو وہی جگہ ہے۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کو گھورتے ہوئے سخت حیرانی کے عالم میں کہا۔
’’کون سی۔‘‘ عرفان نے دریافت کیا۔
’’جہاں تین پہاڑی سلسلوں کی سرحدیں ملتی ہیں ۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے؟آپ نے کئی بار یہاں سے گزرنے کے با وجود یہ مقام نہیں دیکھا؟ اور نہیں دیکھا تو … اب میں کیا کہوں ؟‘‘ عرفان نے طنز کی۔
’’کچھ کہے بغیر شوکت علی بھٹہ صاحب کے دستِ با برکت پر بیعت کر لیں ۔‘‘ میں نے بھٹہ صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’میرا مرید بننے سے بہتر ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون کی کرامت پر ایمان لے آئیں ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے جھینپے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
’’یہ گفتگو کس سلسلے میں ہو رہی ہے؟‘‘ عرفان نے استفسار کیا۔
’’بھٹہ صاحب کی روشن ضمیری کے سلسلے میں ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
میں نے انھیں بھٹہ صاحب کی درخواست، ڈرائیور کے انکار اور اس مقام پر گاڑی روکنے کے بھٹہ صاحب کے دعوے کے بارے میں بتایا۔
’’اس ساری کہانی میں روشن ضمیری کہاں پائی جاتی ہے؟ سو فیصد کالی زبان کا کمال ہے۔‘‘ عرفان نے شوخ لہجے میں تبصرہ کیا۔
ہم جس مقام پر موجود تھے،اس کے قرب و جوار میں دریائے گلگت دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے اور دنیا کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہمالیہ دوسرے بلند ترین سلسلے قراقرم اور تیسرے بلند ترین سلسلے ہندوکش سے گلے ملتا ہے۔ وہ سفید دیوار غالباً یہاں سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھی جس پر انگریزی میں اس مقام کا تعارف کروایا گیا ہے اور ایک عدد راہنما نقشہ بھی بنا دیا گیا ہے جس کی مدد سے تینوں پہاڑی سلسلوں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ہم ان ’’مددگاروں ‘‘ سے استفادہ کرنے سے قاصر تھے لیکن عرفان بہترین گائیڈ ثابت ہوا۔ہم اس وقت دریائے گلگت کی جانب رخ کئے کھڑے تھے اور عرفان جغرافیہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ہمارے سامنے ہمالیہ، پیچھے ہندو کش اور بائیں ہاتھ قراقرم ہے۔‘‘
’’کیوں اور کیسے؟‘‘ میں نے اعتراض کیا۔
’’اس محدود لینڈ سکیپ میں کھڑے ہو کر مکمل جغرافیہ سمجھانا ممکن نہیں ۔ آپ سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر تشریف لے جائیں تو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔‘‘
’’یہ اتنے بندر نہیں ہیں ۔‘‘ بھٹہ صاحب نے فقرہ کسا۔
’’یہ جتنے باندر ہیں اتنی اونچائی تک تو پہنچیں ۔باقی مدد اللہ کرے گا۔‘‘ طاہر نے کہا۔
’’آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم اس وقت دنیا کے منفرد ترین جغرافیائی مقام پر کھڑے ہیں جو بدقسمتی سے قدر ناشناسوں کی سر زمین پر واقع ہے۔ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو شہرتِ دوام پاتا اور اس کے دامن میں بے شمار تفریحی ریسورٹ قائم ہو چکے ہوتے۔آپ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا نہیں چاہتے تو خاموش رہیں ،خواہ مخواہ ’’جھک‘‘ مار کر اس کی بے حرمتی نہ کریں ۔‘‘ عرفان نے تنبیہ کی۔
’’آئی ایم رئیلی سوری۔‘‘ بھٹہ صاحب نے شرمندگی کا اظہار کیا۔
’’بشام سے اس مقام تک دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے ساتھ سلسلہ ہائے ہندو کش اور بائیں کنارے کے ساتھ کوہ ہمالیہ پھیلا ہو ا ہے، یعنی دریائے سندھ ان دونوں سلسلوں کو جدا کرتا ہے … ‘‘
’’میں نے پڑھا ہے کہ دریائے سندھ ہمالیہ اور قراقرم کو جدا کرتا ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے عرفان کی بات کاٹتے ہوئے اعتراض کیا۔
’’بالکل کرتا ہے،لیکن دریائے گلگت کے سنگم سے پہلے۔گلگت کے بائیں اور سندھ کے دائیں کنارے کی درمیانی تکون میں سلسلہ ہائے قراقرم پھیلا ہوا ہے۔‘‘
’’استاد جی ایک بے ضرر ’’جھک‘‘ مار لوں ؟‘‘ میں نے ایک با ادب طالب علم کی طرح ہاتھ بلند کرتے ہوئے اجازت طلب کی۔
’’جی!فرمائیے؟‘‘
’’مجھے علم نہیں کہ دریا کے دائیں اور بائیں کنارے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟‘‘
’’دریا کے پل پر پانی کے بہاؤ کی سمت رخ کر کے کھڑے ہو جائیں ۔ آپ کے دائیں طرف دریا کا دایاں کنارہ ہو گا۔‘‘
’’شکریہ۔بیان جاری رہے۔‘‘
’’میرا خیال ہے میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں ۔‘‘
’’مکمل کر چکے ہوں گے،سمجھا نہیں سکے۔‘‘
’’یہاں کھڑے ہو کر سمجھانا بہت مشکل ہے۔میں نے بلندی پر جانے کا مشورہ سنجیدگی سے دیا تھا۔‘‘
’’میں فرض کر لیتا ہوں کہ اس چٹان کی چوٹی پر کھڑا ہوں ۔ ‘‘
’’اب آپ اپنے ارد گرد کے لینڈ سکیپ کا جائزہ لیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ دریائے سندھ مشرق سے بہتا ہوا آ رہا ہے اور اس مقام پر ایک تنگ موڑ کاٹتا ہوا جنوب کی سمت بہنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘
’’فرض کیا کہ دریائے سندھ مشرق سے آ رہا ہے اور اس مقام پر ایک تنگ موڑ کاٹتا ہوا جنوب کی سمت بہہ رہا ہے۔‘‘ میں نے اس کا بیان دوہرایا۔
’’مزید تصور کریں کہ دریائے گلگت شمال کی جانب سے آ رہا ہے اور اس تنگ موڑ پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔اس سنگم کے نتیجے میں دریائے سندھ کے مشرقی بازو اور دریائے گلگت کے درمیان ایک تکون بن جاتی ہے۔‘‘
’’بن گئی تکون۔‘‘
’’اس تکون میں سلسلہ ہائے قراقرم پھیلا ہوا ہے جس میں کے۔ٹو، گیشا بروم، مشہ بروم، راکا پوشی اور لیلیٰ پیک جیسی چوٹیاں پائی جاتی ہیں ۔‘‘
’’او۔کے۔‘‘
’’دریائے سندھ مشرق سے جنوب کی جانب رخ بدلتا ہے تو اس کا بایاں کنارا ایک تنگ زاویہ بناتا ہے۔اس زاویے میں ،یعنی دریائے سندھ کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ ہمالیائی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔نانگا پربت اس سلسلے کا آخری پہاڑ ہے اور ہمالیہ کی مغربی سرحد بناتا ہے۔‘‘
’’او۔کے۔‘‘
’’دریائے سندھ اس مقام سے جنوب کا رخ کرتا ہے اور دریائے گلگت شمال کی جانب سے آ کر سندھ میں شامل ہوتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنگم سے آگے والا دریائے سندھ دراصل دریائے گلگت کا تسلسل ہے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک،اور میں سمجھتا ہوں یہ دریائے گلگت کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ دریائے گلگت شمال سے جنوب کی طرف بہہ رہا ہے اور مشرق کی طرف سے آنے والا سندھ اس میں شامل ہو جاتا ہے۔‘‘
’’آپ اپنی خیال آفرینی اپنے پاس رکھیں ۔ دریاؤں کے نام بہاؤ کی سمت کی مناسبت سے نہیں ،پہاڑی سلسلے کی جغرافیائی ساخت اور پانی کی تقسیم کے لحاظ سے رکھے جاتے ہیں ۔ ہر وادی کا اپنا اپنا دریا ہوتا ہے۔دریائے گلگت بے شک دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے لیکن دونوں کے پانی کا رنگ اور وادیاں الگ الگ ہیں ۔‘‘
’’شکریہ … مجھے اس کا علم نہیں تھا۔‘‘
’’دریائے گلگت کے دائیں اور سندھ کے جنوبی بازو کے بھی دائیں کنارے کے ساتھ سلسلہ ہائے ہندوکش پھیلا ہوا ہے جس کی بلند ترین چوٹی ترچ میر ہے۔ یہاں سے آگے ہمارے بائیں جانب تو ہندو کش ہی رہے گا، دائیں جانب سلسلہ ہائے قراقرم شروع ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ پڑھاتے بھی رہے ہیں ؟‘‘ بھٹہ صاحب نے سوال کیا۔
’’میں نے راک کلائمبنگ اور ٹریکنگ کے بارے میں کئی لیکچر لئے ہیں ۔‘‘
’’آپ یقینا بہترین لیکچر لیتے ہوں گے۔ مجھے اس مقام کا جغرافیہ بہت اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے۔کاش یہ پورا منظر نظروں کے سامنے ہوتا۔‘‘
دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کے مقامِ اتصال کا جغرافیہ سمجھنے کے بعد ہم نے بس کی سمت نظر ڈالی۔وہاں فی الحال مکمل سکون تھا اور ڈیزل کی آمد کے کوئی آثار نہیں تھے۔ہم نے کچھ دیر فوٹو گرافی کی اور پھر کمر سیدھی کرنے کے لئے سڑک کے کنارے پتھروں پر نیم دراز ہو گئے۔ بس کا ہارن اور مسافروں کا شور سنائی دینے پر بھاگم بھاگ بس تک پہنچے تاکہ ہماری وجہ سے تاخیر نہ ہو،لیکن یہاں ایک نیا ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا تھا۔
ہیلپر بس ڈرائیور کے سامنے اٹین شن کھڑا تھا اور ڈرائیور غصے سے لال پیلا ہو کر جواب طلب کر رہا تھا کہ وہ خالی ہاتھ واپس کیوں آیا ہے؟ڈیزل کہاں ہے؟
’’تیل ادر نئی پہنچا؟‘‘ اسسٹنٹ کنڈیکٹر نے شدید حیرانی ظاہر کی۔
’’حرام خور کا بچہ تم لاتا تو تیل ادر پہنچتا ناں ۔خود بہ خود کیسے پہنچتا؟‘‘
’’ام نے بہت دیر پہلے تیل کا گیلن ایک پجارو والے کو دیا تھا۔وہ گلگت جا تا تھا۔ام نے اس کو بولا راستے میں ایک بس کھڑا ملے گا۔تیل اس کو پہنچانا اے۔‘‘
’’وہ تمھارے باپ کا نوکر تھا ناں کہ تمھارا بات مانتا؟تم اس کے ساتھ کیوں نئی آیا؟‘‘
’’ام کیسے آتا؟ گاڑی میں اس کا فیملی بھرا ہوا تھا۔ادر جگلوٹ میں گلگت جانے والا کوئی گاڑی نئی تھا۔ ام نے سوچا گاڑی پتا نئی کب آتا اے۔تیل آپ لوگوں تک پہنچ جاتا اے تو آپ لوگ گلگت پہنچتا اے۔ام بعد والا گاڑی سے آ جاتا اے۔‘‘
کچھ مسافروں کو یاد آیا کہ اس دوران ایک پجارو گزری تھی لیکن اس نے رکنے یا ڈیزل دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔
’’تم کو اس پجارو کا کوئی نشانی یاد اے؟‘‘ ڈرائیور نے سوال کیا۔
’’ام کو اس کا سارا نشانی اچھی طرح یاد اے۔پجارو کی اگلی سیٹ پے بیٹھا ہوا لیڈی بالکل نرگس لگتا تھا۔ اس نے نرگس کی طرح سرخی پوڈر لگا رکھا تھا۔رنگ بی نرگس کی طرح گورا تھا، اور اس نے بالکل اس طرح کا عینک لگا رکھا تھا جیسا نرگس لگاتا اے۔‘‘
’’ماشا اللہ،کیا نرگسی نشانی بیان فرمائی ہے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے داد دی۔
’’ادر سے جو پجارو نکلا اے اس میں نرگس کی شکل کا لیڈی بیٹھا تھا۔‘‘ قریب کھڑے ہوئے ایک فرشتہ صورت بزرگ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا۔
ڈرائیور دونوں کو خونخوار نظروں سے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔
’’پجارو والا بوت شریف لوگ لگتا تھا۔ وہ کوئی فراڈ مراڈ نئی تھا۔امارا خیال اے اس کو غلطی ملطی لگ گیا اے۔وہ یاتوخود آتا اے یا ادر آنے والی کسی گاڑی سے تیل کا گیلن بھجواتا اے۔ ابی تھوڑاصبر کرو۔‘‘
پجارو نشین فیملی اتنی نرگسی نہیں تھی کہ دس لیٹر ڈیزل پجارو کی ٹنکی میں ڈالنے کے بجائے واپس کرنے کی زحمت اٹھاتی۔ہمارا طویل انتظار مایوسی پر ختم ہوا۔ڈرائیور اور سواریوں نے کنڈیکٹر کو برا بھلا کہنے کی دوسری قسط مکمل کی اور فیصلہ کیا کہ تیل دوبارہ منگوایا جائے۔ ڈرائیور نے اس مرتبہ اپنے ایک شناسا کو ڈیزل لانے کیلئے منتخب کیا جو گلگت سے آنے والی ہائی ایس میں سوار ہو کر جگلوٹ روانہ ہو گیا۔ خوش قسمتی سے ان صاحب کو واپسی کے لئے ایک موٹر سائیکل میسر آ گئی اور یہ توقع سے پہلے واپس آ گئے۔
بیس گھنٹے کمر توڑ سفر کے بعد ہم گلگت بس سٹینڈ پر اترے تو ہر جوڑ پُر شور احتجاج کر رہا تھا۔ گلگت بس اسٹینڈ کسی زمانے میں شہر کا مرکز ہوا کرتا تھا، آجکل شہر سے چند کلومیٹر دور منتقل کر دیا گیا ہے اور شہر جانے کے لیے ٹیکسی وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عرفان نے تین سال قبل سکائی ویز ہوٹل میں قیام کیا تھا اور اس کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں کوئی مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا اور سکائی ویز ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ ہوٹل چند سال پہلے قابلِ رہائش رہا ہو گا، آجکل قابلِ ’’کھدائش‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ ہوٹل کے تنگ و تاریک اور مکڑی کے جالوں سے بھرپور کمروں کا جائزہ لینے کے بعد ہم نے اس میں رہائش پذیر ہونے سے انکار کر دیا تو عرفان نے اس سے بہتر ہوٹل تلاش کرنے کی ذمہ داری ہمیں سونپ دی۔ نیا ہوٹل تلاش کرنے کی ہمت کس میں تھی؟ اس لئے یہ سوچ کر کہ بات ایک رات ہی کی ہے،سکائی ویز میں ڈیرے ڈال دیے۔ بستر پر کمر ٹکاتے ہی جسم پر قابو نہ رہا اور ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو گئے۔
ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما